ہمارے ملک کا آوے کا آواہ ہی بگڑ
ہوا ہے کس کس چیز کو سدھاریں،جس بھی شعبے پر نظر ڈالیں ابتر حالت میں ہے ۔قیام
پاکستان سے اب تک جتنے بھی حکمران آئے ہیں مسائل کو حل کرنے کے لئے انوکھے
اقدامات کی بنیاد رکھی ہے۔ماضی کوچھوڑئیے ابھی حال ہی میں ہمارے قابل فخر
مشیر داخلہ نے بیان داغا تھا کہ پری پیڈسمز کو ختم کر کے پوسٹ پیڈ سمز جاری
کی جائیں گی تاکہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے،افسوس کے ساتھ
کہنا پڑرہا ہے کہ دہشت گردی کی جانب نوجوان نسل کیوں راغب ہو رہے ہیں؟ اسکی
وجوہات پر غور کرنے کی بجائے ہماری جمہوریت کی دعویٰ دار موجودہ حکومت کے
لیڈران اس طرح کے فصول بے سروپا اقدامات کرکے مشکلات میں گھر ی عوام کو
مزید پریشان کرنے پرتلے ہوئے ہیں؟جہاں بجلی ،گیس،بے روزگاری ،کرپشن ،بے
انصافی اوربڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کر دیا ہے
،وہاں حکومت اس طرح کے فیصلوں پر عمل درآمد کر کے جلتی پر تیل کا کام کر
رہی ہے۔
یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر پری پیڈ سمز دہشت گرد استعمال کر رہے ہیں
تو غیر رجسٹر ڈ یا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث کردہ سمز کو بلاک کیا جائے،ناکہ
پری پیڈسمز کی سہولت کو یکسر ہی ختم کر دیا جائے ورنہ اس طرح کی حکمت عملی
ترتیب دی جائے کہ انہی کے ذریعے سے ان تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ عوام میں
پھیلی دہشت قدرے کم ہوسکے۔ہمارے ملک وقوم کی حفاظت پر مامور ادارے دنیا کے
بہترین ادارے شمار ہوتے ہیں انکو دہشت گردوں سے نبٹنے کےلئے مزید خاطرخواہ
سہولتوں کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے تاکہ ملک سے دہشت گردی کی لعنت کا
قلع قمع کیا جاسکے۔دہشت کی اگر وجوہات کو ہی جان کر اس کو ختم کرنے کی کوشش
کی جائے تو بہترہے کیونکہ یہ وجوہات ہی نوجوان نسل کو دہشت گردی کے کاموں
میں ملوث کرنے کاسبب بنتی ہیں۔اگر سیلولر کمپنیاں محض پوسٹ پیڈ سمز جاری
کریں گی تو ہوسکتاہے کہ بل کی ادائیگی کے چکر سے بچنے کےلئے بہت سے لوگ
پوسٹ پیڈ کنکشن سے دور بھاگیں ۔ حکومت ہر شخص کے نام پر ایک مخصوص حد تک
سمز جاری کرنے کی ہدایات جاری کرے اورخلاف ورزی کرنے والے کے لئے جرمانہ کی
ادائیگی لازمی کرے تاکہ سمز زیادہ جاری کرنے کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
اگر ہمارے حفاظت پر مامور ادارے عوام کی جان و مال کاتحفظ نہیں کر سکتے ہیں
تو پھر ان کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے ،لوگ اپنے لئے خود گارڈز رکھ سکتے
ہیں؟اگرچہ انکی قابلیت و کارکردگی بھی مشکوک ہوسکتی ہے کیونکہ اورالٹا جان
جانے کا خطرہ بھی ہے ہمارے سابقہ گورنر پنجاب کا واقعہ ایک تلخ حقیقت
ہے۔بہرحال اس طرح کے اقدمات دہشت گردوں کو پکڑ نے کے جو حال ہی میں کئے گئے
ہیں ملک و قوم کی جگ ہنسائی ہے کیونکہ اس قدر جدید ترقی یافتہ دور میں سمز
کے نیٹ ورک کو بند کر کے دہشت گردی کی روک تھام کرنا ایک انوکھی کاروائی ہے
جس پر مشیرداخلہ داد کے مستحق ہے ۔خدارا حقائق کو سامنے رکھ کر اس طرح کے
اقدامات کریں جن سے بے روزگاری ،اقربا پروری، کرپشن ، بے انصافی میں کمی
اور میرٹ پر اداروں میں بھرتیاں کی جائیں تاکہ احساس محرومی کا شکار ہونے
والے نوجوان دہشت گردی کرنے والے عناصر کے ہاتھوں کھلونا نہ بن سکیں اور
ملک وقوم کی بہتر طور پر خدمت کر سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ فرقہ داریت کو بھی
ختم کی موثر کوششیں کی جائیں تاکہ مذہوم مقاصد کے حصول کے لئے لوگ اس کا
سہارا لے کر دہشت گردی نہ کر سکیں۔ جب تک لوگوں کی سوچ کو نہیں بدلہ جائے
گا اور حقدار کو اسکا حق نہیں دیا جائے گا اس وقت تک یہ دہشت گردی ہوتی رہی
گی ۔دہشت گردی محض قتل وغارت کی کاروائیوں کو نہیں کہا جا سکتا ہے بلکہ
جہاں بھی حق دار کو حق سے محروم رکھا جائے گا وہ دہشت گردی کہلائے گی۔
اگر ہمارے لیڈران اس طرح کے اقدامات کر تے رہیں گے جس طرح سے پچھلے چار
سالوں سے کر رہے ہیں توکبھی ملک و عوام کی حالت بہتر نہیں ہوگی ۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم لوگ خود اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور ایسے لوگوں کو جو
دیانت دار اور مخلص ہوں کو محض اپنے بچوں کے مستقبل اور اپنے وطن کی تعمیر
وترقی وخوشحالی کے لئے ووٹ دیں جو ہمارے پیارے وطن کو قائداعظم کا پاکستان
بنا سکیں۔ایسے لوگوں میں عمران خان،ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ سہر فہرست ہیں
جن کو ابھی تک اقتدارمیںآنے کا بھر پور موقعہ نہیں ملا ہے۔اگرچہ ان کے ساتھ
بھی کچھ ایسے نام ہونگے جو قابل ذکر خدمات کے لئے مشہور نہیں ہونگے مگر حب
وطنی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔اگر محض انکے نام و کام کو دیکھ کر ہی ووٹ دے
دیئے جائیں تو شاید حالات بدل جائیں ،ورنہ یا د رکھئے گا خدا بھی انکی قسمت
کو نہیں بدلتا جو اپنی قسمت بدلنے کی سعی نہیں کر تے ہیں۔ |