یہ کہانی ہے جنوبی وزیرستان کے علاقے
سراروغہ کی ایک تنگ و تاریک بستی کے ایک نیم پختہ گھر کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کا
وقت تھا۔۔۔۔سننے میں آیا ہے کہ یہاں موجود چند جاہل’ گنوار اور جدید تہذیب
سے ناآشنا لوگ امریکہ جیسی عظیم طاقت کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے تخلیق
کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک شخص نیچے جھکتا ہے اور اپنی انگلی کی مدد
سے زمین پر چند آڑھی ترچھی لکیریں ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔۔یہ شخص دراصل
ایک ایسے منصوبے کا خالق ہے جس کے تحت نیویارک’ لندن اور واشنگٹن کو بیک
وقت صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔۔اور اس کے بعد وہاں ایک فرسودہ تہذیب کی
بنیاد ڈالی جائے گی۔۔۔ہو تو یہ بھی سکتا ہے کہ کسی اجنبی سیارے کی خلائی
مخلوق کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات استعمال کرتے ہوئے وہ کسی اڑن طشتری میں
بیٹھیں اور فضا سے حملہ کر کے امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔۔۔لیکن ان کے
علم میں نہیں تھا کہ ہر دم چوکس امریکی افواج ان کے گرد گھیرا تنگ کر چکی
ہے۔۔۔۔۔اور پھر ایک دھماکہ ہوا اور ہر سو خاموشی چھا جاتی ہے۔۔۔مکمل
خاموشی۔۔۔صرف ایک تین سالہ بچے کے چرے ہوئے گلے سے گرتے خون کی ٹپ ٹپ کی
آواز۔۔۔۔۔۔تمام دنیا کو مبارک امریکی مفادات بچ گے۔۔۔۔۔۔
گستاخی معاف’ لیکن کیا امریکن تھنک ٹینک کے کسی دانشور سے پوچھنے کی جسارت
کی جا سکتی ہے کہ یہ امریکی مفادات نامی شے آخر بلا کیا ہے۔۔۔کیا دنیا کے
ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک میں سے صرف اسی ملک کے مفادات سب سے مقدم ہیں۔ کیا
یہ اتنے ہی پوتر اتنے ہی مقدس ہیں کہ ہزاروں میل بیٹھا ہوا ایک شخص اپنی
مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روز روشن کی طرح عیاں حقیقت تو صرف
اتنی ہے کہ ان لوگوں کا واحد قصور ان کا مسلمان اور پاکستانی ہونا ہے۔۔۔
اگر اعتراض طرز معاشرت پر ہے تو آخر شخصی آزادی بھی کسی چیز کا نام ہے۔۔اگر
سان فرانسسکو کے کلبوں میں برپا خرافات آپ کے نزدیک جرم نہیں تو یہاں شکایت
کیسی۔۔۔اگر کم کپڑے پہننا فیشن ٹھرا تو برقعہ پر اعتراض چہ معنی؟۔۔۔ پہلے
نیویارک کی گلیوں میں ہونے والی گینگ وار کو تو روکیے۔۔امریکن معاشرے میں
پائی جانے والی لاقانونیت’ لوٹ مار اور انتہا پسندی کو تو لگام دیجیے۔۔لیکن
نہیں ۔شاید چودھراہٹ کا رعب جمانا آپ کے نزدیک زیادہ اہم ہے۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقے ایک طوفان کی لپیٹ میں ہیں لیکن
سوال یہ ہے کہ یہ برق ہم پر کس کی مہربانیوں کے طفیل گر رہی ہے۔۔۔وہ کون ہے
جس کی جنگ لڑتے لڑتے ہماری سانسیں پھول چکی ہیں۔ہماری سڑکوں اور گلیوں پر
خون گرتا رہا’ عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے رہے لیکن ہم اپنے نام نہاد
آقا کو خوش نہ کر سکے۔۔۔” یہ سب کافی نہیں ہے” فون پر دھمکیاں جاری رہیں۔۔
اور پھر کچھ یوں ہوا کہ بات دھمکیوں سے بہت آگے چلی گی۔ بم باری’ لاشیں’
مذمت’ بم باری’ لاشیں’ مذمت
دنیا کا کون سا قانون یا صحیفہ امریکہ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جب
دل چاہے’ اپنی کمین گاہ سے نکلے اور ہماری سرحدوں کو روندتا ہوا معصوم اور
بے گناہ عورتوں اور بچوں پر آگ کی بارش برسانا شروع کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا
امریکن ارباب اختیار کے پاس اس استسفار کا جواب ہے کہ اگر انہیں باوثوق
ذریعہ سے یہ اطلاع ملے کہ اسامہ بن لادن مین ہیٹن نیویارک کے ڈریم ھوٹل کے
کسی کمرہ میں موجود ہے تو کیا انہیں اتنی ہمت اور جرات دستیاب ہو گی کہ وہ
اس پورے ہوٹل کو تباہ کر سکیں۔۔۔۔
وحشیانہ امریکی بم باری سے شہید ہونے معصوم بچوں کی پتھرائی آنکھوں میں
لاتعداد سوالات ہیں۔ ان کی خوف سے جمی نگاہیں عالمی ضمیر کو جنجھوڑتے ہوئے
پوچھ رہی ہیں کہ یہ کیسی دو عملی’ کیسی منافقت ہے کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ
سینٹر میں مرنے والے بچے تو معصوم اور مظلوم کہلاتے ہیں لیکن اسی عمر کے
بچے وزیرستان کی کسی کچی بستی کی جھونپڑی میں ” دہشت گردی” کے خلاف جنگ کا
شکار ہو جاتے ہیں تو انہیں بھی انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے دیا جاتا
ہے۔ ان میں سے شاید کسی نے امریکہ کا نام تک نہ سنا ہو۔۔لیکن دہشت گردی کو
جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کا عزم رکھنے والوں کے نزدیک اس چیز کی ذرا اہمیت
نہیں۔۔۔امریکی مسلسل جارحیت پر ہمارے حکمرانوں اور عالمی برادری کی مستقل
خاموشی اس بات کا ثبوت ہے ان کے ضمیر سو چکے ہیں بلکہ مر چکے ہیں۔۔۔۔۔
خدارا اب تو سمجھ جاؤ کہ سراروغہ میں بہنے والے خون کی رنگت نیلی یا سبز
نہیں’ سرخ ہی ہے۔۔۔اور اس کی قدر و قیمت بھی اتنی ہی ہے جتنی کسی اور کے
خون کی۔۔۔کساد بازاری کے اس پر آشوب دور میں مسلمان کے خون کو اس قدر سستا
مت کیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |