الیکشن کی آمد آمد ہے ہماری
سیاسی جماعتیں زیادہ تر شخصی پارٹیاں ہیں اور کسی ایک شخصیت کے گرد گھومتی
ہیں۔ اس شخصیت کو اقتدار کے لیے دونوں کی ضرورت اور ووٹوں سے بڑھ کر لوٹوں
کی ضرورت ہے عام طور پر مہذب دنیا میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹیاں منشور
کا آسرا لیتی ہیں۔ اپنی ماضی کی کارکردگی کو بنیاد بناتی ہیں۔ مگر یہاں
کوئی منشور ہے اور نہ ہی کارکردگی یہاں سیاسی جماعتوں کے اصول انتہائی
نرالے ہیں ان کا انحصار ووٹوں سے زیادہ لوٹوں پر ہوتا ہے۔ وہ بھی خالی نہیں
بھرے ہوئے لوٹوں پر کسی امیدوار کو جیتنے کے لیے جہاں پارٹی ووٹوں کی ضرورت
ہوتی ہے وہاں کچھ ووٹ ایسے بھی ہونے ضروری ہوتے ہیں جو پارٹی سے ہٹ کر
امیدوار اپنے وسائل یا شخصیت کے بل بوتے پر حاصل کرے ہمارے سیاسی کلچر میں
شخصیت کا خانہ مکمل خالی ہے فقط وسائل ہیں ہر وہ شخص جس کے پاس دولت ہے ۔
جائز یا ناجائز میں نہیں کہتا کیونکہ الیکشن کے لیے جس قدر پیسے کی ضرورت
ہے وہ جائز ذرائع سے کمانا ممکن نہیں اور جس شخص کے ساتھ کچھ لوگ ہیں چاہے
خریدے ہوئے ہوں اسے معقول امد وار سمجھ پر پارٹی اپنا بدلتا رہتا ہے۔ یہی
وہ معقول اور قابل قبول لوٹا ہے کہ جس کے نزدیک کریکٹر استقامت نظریہ یا
وابستگی کی حیثیت ہمیشہ ثانوی رہی ہے۔ اور ایسے لوٹوں کا حصول پر سیاسی
جماعت کا مقصد جس کے لےی اس جماعت کا لیڈر سب کچھ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
یہ لوٹے بھی عجیب ہیں پارٹی بدلنے کے چند منت لہجہ انہیں اپنے برانے لیڈر
کے تمام عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اور وہ تمام اخلاقی حدیں پھاند کر اس پر
پوری طرح دشنام طررزی کرتے ہیں اور اگلے دن پہلا لیڈر بہتر بولی لگا دے تو
تمام اخلاقی حدیں یہحانہ کرواپس آجاتے ہیں اور توپوں کا رخ پھربدل جاتا ہے
کوئی حیا کوئی شرمندگی کوئی مروت ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوتی اقتدار ان
کا مطمع نظر ہے اور اس کے لے یہ ہر حد تک جانے کو ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔
جماعتِ اسلامی پاکستان کی ان چند پارٹیوں میں شمار ہوتی ہے جن کی اساس
شخصیت پرستی نہیں بلکہ یہ ایک نظر پاتی پارٹی ہے۔ الیکشن جماعت اسلامی کو
بھی لڑنا ہے خبروں کے مطابق جماعت کے اراکین کی مختلف آرائیں کچھ لوگ مسلم
لیگ (ن) کے ہمر کاب ہونا پسند کر رہے ہیں۔ کچھ پاکستان تحریک انصاف کے سائے
میں اسمبلی کی چند نشستوں کے متلاشی ہیں اور کچھ کے خیال میں جماعت اسلامی
مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک مصبوط اتحاد بنائے ۔ کچھ مصر ، سوڈان اور
اس طرح کے دوسرے ممالک کے حوالے دیکر تنہا پردرز کے مای ہیں۔ کیونکہ ان
ممالک میں جماعت اسلامی کے ہم خیال لوگوں نے اپنے زور بازو پر الیکشن جیتا
اور دنیا کو ایک خوبصورت پیغام دیا ہے۔
جماعت اسلامی اس ملک کی واحد جماعت ہے جسے ایک دنی جماعت ہونے کا دعویٰ ہے
اور جس میں جدید علوم کے جامل پاکستانی نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد شامل ہے
اور سوئے اتفاق کہ ملک کی تمام بڑی جماعتوں کو حرارت وہی نوجوان پہنچا رہے
ہیں۔ جو جماعت اسلامی کی سست روی سے نالاں رہے یا جماعت کی اتحادی سیاست کی
بھینٹ چڑھ کر دوسری پارٹیوں میں جگہ بنا گئے گو چند دوسری جماعتوں کو بھی
دینی جماعت ہونے کا دعویٰ ہے مگر عملا۔َ وہ مذہبی جماعتیں ہی ہیں کینوکہ ان
کے عہدیدار اور سر گرم کارکن جدید علوم سے بیگانہ اور جدت پسندی سے بیزار
ہیں ایک دینی جماعت کو مذہبی جماعتوں سے الگ تھلگ ہونا ہی نہیں بلکہ نظر
بھی آنا چاہیے مگر ایسا ہوتا نہیں افسوس کہ الیکشن کے دنوں میں جماعت
اسلامی اپنی انفرادیت کھو کر کبھی مذہبی جماعتوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتی
ہے۔ اور کبھی چند نشتوں کی تلاش میں عام سیاسی جماعتوں کے ساتھ پیشگی ڈال
رہی ہوتی ہے مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کاروبار سلطنت میں کچھ اثر حاسل ہوجائے
اور کارکنان کی تسلی بھی ہوجائے مگر ایک دینی جماعت کا یہ مطمع نظر نہیں
ہونا چاہیے۔ دینی جماعت کو اپنے نقطہ نظر کو عوام تک پہنچانے کے لیے فتح و
شکست سے بے نیاز ہو کر میدان میں اترنا چاہیے۔ اس کا پیغام تو دین کا پیغام
ہے اس پر کوئی بھی سودے بازی کی طرح بھی ٹھیک نہیں۔
جماعت اسلامی ایک منشور کی بنیاد پر الیکشن لڑتی ہے یہ منشور ایک کتاب کی
صورت دس پندرہ صفحات پر مشتمل ہے اتنی لمبی چوڑی تحریر کسی کو بھی پڑھنا
گوارا نہیں لوگ مختصر اور مدلل بات سننا پسند کرتے ہیں۔ لمبی تحریر کریں
اپنا وزن کھو دیتی ہیں قرآن فکر کی دعوت دیتا ہے یقینا اس حوالے سے جماعت
اسلامی میں RRD یعنی ریسرچ کا کوئی شعبہ ہو گا۔ موجودہ دور کے حوالے سے اور
الیکشن کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی شعبے پر بہت بڑا بوجھ ہے اس شعبہ کے لوگوں
کو الیکشن کے حوالے سے ایسے کام کرنے میں کہ جماعت اسلامی جیسی نے اتحادوں
کی سیاست میں بہت کچھ کھویا ہے اپنا مقام واپس حاصل کرسکے ہو سکتا ہے کہ
میری اس بات سے کچھ لوگ اتفاق نہ کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے ہر
حلقے میں جماعت اسلامی کے ورکرز اور حمایت کرنے والوں کی ایک معقول تعداد
تھی جو اتحادوں کی سیاست نے بہت کم کر دی ہے ۔
میں کوئی دانشور تو نہیں اور نہ ہی سیاست کا بہت جاننے والا ۔ مگر ایک عام
شہری کی حیثیت سے ان تمام مسائل کا شکار ہوں تو کرپشن بیروزگاری دہشت گردی
لوڈ شیڈنگ ، مفلوج معیشت امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور اندلس گورنس نے
پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اور ہر شہری کی طرح میری بھی خواہش کہ اس ملک کو ایک
بہتر قیادت نصیب ہو۔ عمران خان نیازیوں کے روایتی انداز میں بہت زور سے آئے
مگر اب وہی نیایوں کے انداز میں اپنا آپ برقرار نہیں رکھ پار ہے۔ ابھی
الیکشن میں کچھ وقت ہے جماعت اسلامی کو چاہیے کہ فتح و نصرت سے بے نیاز ہو
کر مختصر سا ایک مشورہ دے چند باتیں جو لوگوں کے دکھے دل کو چھو لیں۔ ہر
حلقے میں جماعت کے لوگ موجود ہیں ان کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ اگر ان میں
کوئی بہتر شخص الیکشن لڑ سکتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس حلقے سے ایسے لوگ تلاش
کیے جائیں جو اچھی شہرت کے مالک ہوں اور جن کی امانت اور دیانت شک و شعبے
سے بالا ہو۔ یوں جماعت اسلامی سول سوسائٹی کی مدد سے اس ملک میں بہتری کی
نوید دے سکتی ہے۔ اور اتحادوں کی سیاست کی وجہ سے اپنی کھوئی ہوئی طاقت بھی
بحال کر سکتی ہے۔ جماعت کے لیے اتحادوں کی سیاست وقت کے ضیاع کے سوا کچھ
نہیں۔ |