سیاسی زائچہ

کہتے ہیں کہ سیاست میں سب چلتا ہے کل کے حریف آج کے دوست نظر آتے ہیں تو کبھی کل کے دوست آج کے سیاسی دشمن نظر آتے ہیں ،یہ سیاسی کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں اور کھلاڑیوں کے تو کیا کہنے ،وہ جب اکھاڑے میں اترتے ہیں تو اپنے سیاسی حریف کو ایسے للکارتے ہیں جیسے کسی میدان جنگ میں اپنے دشمن کو للکارا جاتا ہے ،

قارئین!آپ مختلف قسم کے سروے تو پڑھتے ہی ہیں جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا گراف کی درجہ بندی کی جاتی ہے شروع میں اس طرح کی سروے کی بہت زیادہ اہمیت تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سیاسی سروے کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن آج ہم بھی مختلف جماعتوں کی پیدائش اور ان کی موجودہ پوزیشن کے بارے آپ کو آگاہ کریں گے۔

سب سے پہلے حکومت جماعت پیپلزپارٹی کی بات کرتے ہیں اس جماعت کے رہنما زیادہ تر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اک جمہوریت پسند پارٹی ہے ،ہم نے آمریت اور ضیاءکی باقیات کو دفن کر دیا ہے لیکن اگر پیپلزپارٹی کی بنیاد کی بات کی جائے تو اس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی جو کہ ایوب کی کابینہ میں وزیر رہے تھے اور اختلافات کی وجہ سے علیحدہ ہوئے تھے اس سے پہلے بھٹو کو کوئی نہیں جانتا تھا،بلاشبہ بھٹو اک ذہین لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے ،اگر ہم یہ کہیں کہ پیپلزپارٹی نے ایوب کی کوکھ سے جنم لیا تھا تو غلط نہیں ہوگا۔دوسری طرف پیپلز پارٹی کے ڈسپلن کی بات کی جائے تو اس میں نظم وضبط کی بجائے ہلڑ بازی زیادہ ہے لیکن اس کے جیالوں میں قربانی کا جذبہ کافی زیادہ ہے اور اسی جماعت کے کارکنوں نے اور رہنماﺅں نے پارٹی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے اگر ہم اسے سیاسی شہیدوں کی جماعت کہیں تو بے جا نہیں ہوگا ۔ اس جماعت کی موجودہ پوزیشن کو دیکھیں تو اس کی مقبولیت کا گراف نیچے کی طرف گامزن ہے البتہ اگر یہ جنرل الیکشن سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروا دیتے ہیں تو اس کے حق میں بہتری کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

اس کے بعد اگر ہم بات کریں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی۔جو کہ اس وقت اپوزیشن میں بیٹھی ہے ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے اس جماعت نے بھی ایک آمرجنرل ضیاءالحق کی کوکھ سے جنم لیا تھا،ہر سیاسی پارٹی کے اندر اختلافات تو ہوتے ہی ہیں لیکن اس سیاسی جماعت میں یہ اختلافات کافی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے جس کی بنا پر گزشتہ کئی مہینوں میں اس کی مقبولیت کا گراف کافی نیچے آ گیا تھا ،جس کی وجہ اس جماعت کے کچھ اہم فیصلے تھے جو کہ اب دوبارہ بہتری کی طرف گامزن ہو چکا ہے ،کیونکہ سیاست میں تیل اورتیل کی دھار دیکھ کر چلنا پڑتا ہے جنرل انتخابات جتنے لیٹ ہوں گے اس کے حق میں بہتر ہوں گے اور اس جماعت کے لئے بھی بلدیاتی انتخابات کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں ۔

اس کے ہم پاکستان تحریک انصاف کی بات کرتے ہیں جس نے گزشتہ کئی ماہ سے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے ،اس ہلچل میں مسلم لیگ (ن) کافی سہم گئی تھی لیکن اب تحریک انصاف کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت میں پرانے کارکنوں کو نظر انداز کرکے نئے آنے والوں کو نوازا جانے لگا تھا ،پاکستان تحریک انصاف میں ڈسپلن کچھ خاص نہیں ہے اور ابتدا ہی سے ہلڑ بازی کی نظر ہونا شروع ہوگئی ہے دوسری طرف اس کی پیدائش کی بات کی جائے تو یہ وہ سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد عوام نے رکھی تھی لیکن شاید سہارا اسے بھی اسٹیبلیشمنٹ نے دیا تھا،موجودہ حالات میں جنرل انتخابات میں جتنی زیادہ دیر ہوگی اتنا ہی زیادہ تحریک انصاف کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔

پاکستان مسلم لیگ(ق)کو دیکھیں تو اس جماعت کو بھی اک آمر جنرل مشرف نے بیساکھیاں فراہم کیں تھیں،مسلم لیگ (ق )نے بھی خوب جی بھر کر اقتدار کے مزے لوٹے اور ابھی موجودہ گورنمنٹ میں بھی اہم اتحادی کا رول ادا کر رہی ہے ،اس جماعت میں اس بات کو اہمیت حاصل ہے کہ جب تک اقتدار میں رہ سکتے ہو جی بھر کر رہو،اس جماعت کے کارکن بھی ”چھڈو مٹی پاﺅ“والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ،شاید اسی لئے اس کی مقبولیت کا گراف روز بروز زوال کی طرف رواں ہے ، بلدیاتی انتخابات اگر جنرل الیکشن سے پہلے ہوجائیں تو اس جماعت کے حق میں تھوڑی بہتری پیدا ہو جائے گی۔

جماعت اسلامی کو دیکھیں تو اس جماعت میں مکمل نظم و ضبط نظر آتا ہے شاید اسے ابھی بھی پاکستان میں سیاست کرنا ڈھنگ سے نہیںآیا،اس کے کارکنوں میں بھی ایثار و قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے ،اگلے الیکشن میں اس جماعت کے لئے کچھ قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہے کیونکہ اس جماعت میں انقلاب برپا کرنے کی بھی خاصیت نظر آتی ہے بعید نہیں پاکستان میں اسلامی انقلاب شاید اسی کے ہاتھوں لکھا ہو،خیر یہ تو وقت آنے پر معلوم ہوگا۔

اگر بات کریں متحدہ قومی موومنٹ کی ۔تو متحدہ پہ جتنے زیادہ الزامات لگتے نظر آرہے ہیں بجائے اس کے کہ اس پر کچھ اثر ہوتا ،یہ پہلے سے بھی بہتر انداز میں ترقی کے سفر پر گامزن ہے،متحدہ جس کی بنیاد چند لوگوں نے رکھی تھی اور جسے اسٹیبلیشمنٹ نے پروان چڑھایا ۔ اس جماعت میں جو نظم وضبط ہے وہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہے یہی اس کی کامیابی کا راز ہے شاید آنے والے کچھ دن اس جماعت کے لئے بہتر نہیں ہوں گے،لیکن جنرل الیکشن میں یہ پہلے سے کافی بہتر انداز میں سیٹیں لے گی۔

عوامی نیشنل پارٹی جو صرف پختونوں پر ہی محدود نظر آتی ہے جو باچاخان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہی ہے شاید جنرل انتخابات میں اپنی پوزیشن کو بچا نہیں پائے گی ۔

مندرجہ بالا تجزیہ راقم کے تجربے اور سوچ کی عکاسی ہے اس سے کافی لوگوں کو اختلافات بھی ہو سکتا ہے چند سیاسی جماعتیں ابھی رہ گئی ہیں جن کا ذکر پھر کسی کالم میں ہو گا۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201574 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.