ہائے رے ،پاکستان۔۔۔۔

اورسب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہے ظلمت کو ظلمت نہ لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

دور حاضر میں پاکستانی قوم احساسِ زندگی سے مردہ ہوچکی ،خود غرضی اور لالچ نے اسے آگھیرا ، تعصب و نفرت کی آگ میں جھونک گئی، عبرت کا احساس پژمردہ ہوتا چلاگیا، اب نام و نشان نہیں ملتا محبتِ رسول کا ، نہ پیروی اور درد ہے فرمانِ اللہ کا، پھر کہتا ہے آج کا انسان میں ہوں مشکل میں پریشاں، نہ باز آتا ہے ساز باز سے اور نہ ذخیرہ اندوزی سے، کہیں بندوق اور کہیں آتشی دھماکے سے، دھواں ہر طرف کو اٹھتا ہے، معصوم بچوں اور بچیوں کی خوف سے ابھری چیخیں ، زمین کو لپکتی ہیں آسمان کو چھوتی ہیں،ہر فرشتہ رب کے حکم کا منتظر رہتا ہے، کہ کب حکم ِ ربی ہو اور تہس نہس کردیا جائے، غم و غضب میں رہتا یہاں آدمی ،ہر روز بلا اجازت اور بنا قصور مرتا ہے یہاں آدمی، عجب شہر بن گیا ہے یہ کراچی ، کبھی تھا روشنیوں میں چکا چوند اوراب ہے ہر طرف لوڈ شیڈنگ کا اندھیرا،بلوں ٹیکسوں اور مہنگائی کا طوفان امنڈ رہتا ہے، ہر بچہ بچہ سہما رہتا ہے۔ پڑھائی سے دور لوٹ مار میں مست رہتاہے، یہ کیسا نظام دیا ہے ہمارے لیڈرانوں نے، خود ہی جھونگ دیا پیاروں کو آگ میں، یہ کیسی سازش ہے اس قوم سے، پاکستان میں امن و شانتی چلی گئی کام سے، حالات نظر کردیئے گئے-

ٹارگٹ کلنگ میں، کبھی یہاں تو کبھی وہاں بکھری ہیں لاشیں، سبز ہلالی پرچم پر نام کو لکھتے ہیں کلمہ طیب کا، مطلب جانتے بھوجتے اڑاتے ہیں مذاق اس کا، پھر قہر خدا کو للکار کہ کہتے ہیں یہ نادان ، ہم ہی ہیں جسے رکھیں زندان،ظلمت کے پہاڑ کھڑے کیئے جاتے ہیں ، ٹیکسوں کے ابنار لاگائے جاتے ہیں ، غریب کا جینا محال ہے یہاں،زندگی سے لڑنا بیکار ہے یہاں، ہر بار کہتا ہے یہ وزیر در وزیر، اب کے ہوگی نہیں زیادتی پر زیادتی، عجیب لیڈر ہیں جھوٹوں کے انبار میں، اپنی ہی قوم کورکھتے ہیں بیوقوفی کے سمندر میں ، کہیں ذات پات کی جنگ جاری ہے تو کہیں مسلک پر لڑائی جاری ہے،لاشوں کی سیاست سرگرم ہے، کوئی بھی خوف خدا میں نہیں ہے، کردیئے قومی خذانے تمام ترخالی اور لاٹ دیئے گئے ہیں قرض نسلوںمیں، پھر بھی نئی کہانی گھاٹتے ہیں ، قومی خذانے خالی ہیں، اب کیا کریں ہم مجبوری ہےں، مہنگائی تو اب بڑھنی ہی ہے، تم مانو یا نہ مانو یہ کرنا ہی ہے ، تمہیں ہر ٹیکس ادا کرنا اب ضروری ہے، ہم ایک نہیں کہ تم ٹھہراﺅ قصور، ملت کا ہر شہری بھی ہے قصور، جب لاٹ پڑیگا بنجارا، قوم پاک پر قہر خدارا، نہ ہوئی کبھی بھی قوم بہتر ، جسے احساس ہی نہ پیداہوابتر۔ ۔
مجھے دریا نہیں لکھنا، مجھے صحرا نہیں لکھنا
تسلسل سے سفر میں ہوں ،مجھے ٹھہرا نہیں لکھنا
پرانے رابطوں کی راکھ اب تک دل میں باقی ہے
میری جلتی ہتھیلی پر نیا وعدہ نہیں لکھنا

جب جب قوم احساس زندگی اور احساس انسانیت کھو بیٹھتی ہے تب تب وہ اپنے کیئے کے عذاب میں مبتلا رہتی ہے ، جب قوم نے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر مستوی بتوں یعنی سیاستدانوں، حکمرانوں کی پوجا کرنا شروع کی تو اللہ اور اس کے رسول بھی ایسی قوم سے منہ پھیر لیتے ہیں ، ہماری قوم نے دنیا کے متلاشی رہبرﺅں کو اپنا قبلہ بنالیا اور ان رہبرﺅں کی خواہشات کی تکمیل کیلئے بے قصور لوگوں کی جانیں بھینٹ چڑھانی شروع کردی ہیں یہ وہ رہبر ہیں جن کی پشت پر کفار اور مشرکین ہےں ، ان پس پشت ہاتھوں نے مسلم ممالک کی قوم کو نیست و نابود کرنے کا عزم کررکھا ہے اب تو حیرت ہے کہ پہاڑوں سے آبیٹھے ملوث جرائم میں ،کراچی کی پہاڑیاں ہوں یا داخلی راستے، ہے کام ان کا شہروں میں دہشت پھیلانا، بے قصور لوگوں کو گاڑیوں میں لوٹ مار کرنا، آستین میں چھپائے ہتھیار ہیں ، قانون والے ان سے انجان ہیں، کوئی کسر نہ چھوڑتے ہیں ظلم و ستم میں، نہ تعلیم نہ شعور ہے ان میں، جیسے بھیڑیئے رہتے ہیں جنگلوں میں، مہرے بنے رہتے ہیں یہ حصول زر میں، بھول گئے ، بھٹک گئے یہ پہاڑوں کے رہنے والے کہ جب اللہ کی گرفت سخت ہوتی ہے تو ظالم اوندھے منہ گر پڑتے ہےں۔ اب تو حالت ان کی اس قدر بڑھ گئی ہے، ابلاغ عامہ کو کچلنے کو سوج گئی ہے، یہ بھول گئے ہیں کہ ابلاغ نہیں ہے کسی کی لونڈ، یہ شہر قائد ہے یہاں جب چلے گی تیری گولی، سرے عام تیرے چہرے عیاں کردیں گے ، ابلاغ کو نہ سمجھنا کبھی کمزورکردیں گے تجھے پاش پاش، مانا کہ حکومت وقت ہے ڈھال ان کی ، کب تک کروگے بدمعاشی و ہیرا پھیری۔۔۔ سیاسی مافیہ نے تمام ناپید گروپ کو یکجا کرکے سوچ لیا ہے کہ وہ اس ملک کے زرہ زرہ کو خاک میں مٹا دیں گے یہ بھول گئے کہ سب سے بڑی ہستی مٹانے اور قائم کرنے والی صرف اور صرف اللہ کی ہے۔گزشتہ دنوں ناموس ِ رسالت اور گستاخانہ فلم پر جو احتجاج کیئے گئے ان میں ایک طبقہ مکمل پوری تیاری کے ساتھ لوٹ مار کے ارادے سے ان میں داخل ہوا یہ وہے ہیں جو پہاڑوں سے آکر کراچی میں فساد اور لوٹ مار مچارہے ہیں ، میڈیا کے کیمروں نے مکمل عکس بندی کرلی تھی ان لوگوں کی پشت پر لال رنگ کی جماعت اور سبز و نیلے پرچم کا ہاتھ ہے ، لال رنگ کی جماعت کو کبھی بھی قائد اعظم محمد علی جناح نے پسند نہیں فرمایا تھا کیونکہ آپ ان کے بزرگوں کی ذہنیت سے اچھی طرح واقف تھے آپ جانتے تھے کہ یہ کبھی بھی پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہیں اور اب برسر اقتدار ہونے پر ان کی نسلوں نے ثابت کردیا کہ یہ نہ پاکستان سے مخلص ہیں اور نہ اس قوم سے ، یہ حقیقت ہے کہ لال جماعت پشتو بولنے والے پٹھان بھائیوں کی بدنامی کا سبب بن رہی ہے جبکہ پٹھان ہمیشہ سے کاروبار اور محنت پر توجہ دینے والی امن پسند قوم رہی ہے ان میں تعلیم اور دین سے لگاﺅ خاص طور پر پایا جاتا ہے مگر وہ لوگ جو جرائم میں ہمیشہ سے ملوث تھے اور ہیں انھوں نے کراچی کا رخ کرکے اس شہر کا مکمل امن و امان برباد کررکھا ہے اور آئے روز ڈکیتی، لوٹ مار، دہشتگردی کو معمول بناتے ہوئے لال جماعت کی پشت پناہی سے قانون کو مکمل کچل دیا ہے ، کراچی میں لال جماعت جو کہ حزب جماعت میں شامل ہے اُس نے اپنے نمائندوں کو بربادی اور لوٹ مار کا مشن دیتے ہوئے وزرات لی ہیں اسی بابت ان کے وزراءکی منسٹری کا حال عوام الناس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے ، یہاں بات یہ سمجھ نہیں آتی کہ ریاست پاکستان میں قانون اور عدلیہ انتہائی بے بس کیوں۔۔ ؟؟ کیا قانون سیاسی غلام ہوتے ہیں اور عدلتیں لونڈیاں۔۔۔!! آخر پاکستان کو اس اس قوم کو کس جانب دکھیلا جارہا ہے۔۔۔ !! پنجابی ہو یا سندھی یا پھر اردو بولنے والے اور پشتو زبان بولنے والے شریف اور مہذب لوگ۔۔۔یہ سب کے سب اپنی اپنی صفوں میں چھپے ملک دشمن عناصر کو نکال باہر کیوں نہیں کرتے ، کب تک تعصب و عناد کی آگ میں جھلستے رہیں گے ۔مجھے یاد ہے کہ آمریت کا زمانہ ہو یا جمہوریت کا ماضی کی اس قدر نا روا سلوک نہ سرکاری محکموں میں پایا جاتا تھا اور نہ نجی کاروبار میں ، یوں لگتاہے کہ جرائم و کرائم اس ملک و قوم کی نسلوں میں پیوست ہوگیا ہو، یہ زہر گر ختم نہ کیا گیا تو پاکستان میں بسنے والی قوموں اپنے رہبرﺅں کے ہاتھوں خود ہی تمام تر ہوجائیں گی ۔ اس ملک و قوم کی بقاءو سلامتی کیلئے خود قوموں کوچ احساس کرنا ہوگا اپنے درمیان حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا، پیار و محبت کو اپنانا ہوگا، بھائی چارگی، اخوت و اتحاد کا مظاہرہ پیش کرنا ہوگا،کیونکہ روحانی شاعر و مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ کہ کے چلے گئے ۔۔۔
ایک ہوںمسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے تا بخاک کا شغر

لیکن اپنی نئی نسل کو اس لال جماعت میں شامل ہونے پر کیوں راضی ہوئے کیا یہ نہیں جانتے کہ لال جماعت ان کی بھی خیر خواہ نہیں رہی ہے بحرحال اب بھی وقت نہیں گزرا پشتو بولنے والے خاندانی لوگ اپنی روایات و اسلامی رنگ کو یقینا فراموش نہیں ہونے دیں گے اور امن و سلامتی کو قائم رکھتے ہوئے اس ملک میں تجارت و صنعت میں ماضی کی طرح اپنا مثبت کردار ادا کریں گے ورنہ لال جماعت ان کی نسلوں کو برباد کرڈالے گی اور جرائم کی دنیا میں ملوث کرکے دین و دنیا میں برباد کرکے رکھ دے گی۔۔۔۔ سن دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے قبل سر زمین پاکستان ہزاروں افراد کا خون بہے گا جن میں مطلب پرست، منافق ، ظالم، دہشت گرد، وطن فروش، بردہ فروش، نسواں فروش، ایمان فروش اپنے جرائم کی بیل کو بالائے بالا وار کرتے ہوئے شدید ملکی سالمیت کو نقصان پہنچائیں گے کیونکہ انتظامیہ ہو یا عدلیہ تمام کی تمام بے ضمیر ، بے حس اور لالچ میں مبتلاءہوچکی ہیں کون کریگا خاتمہ تشدد، ٹارگٹ،دہشت اور بلاسٹ کا۔۔ پھر دیکھنا کہ ہوگی سزا رب کی جانب سے ، یہ بھکتیں گے جلد سیلاب و زلزلوں میں، یہ ظلم یہاں کریں گے اور قہر وہاں پائیں گے ،اب قوم بیدار ہونے والی ہے اپنے کیئے پر پشیمانی ہے، اور صدق دل سے کرے گی اطاعت اللہ و رسول کی، پھر بنے پاکستان ، امن و سکون اور اسلام ۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔ پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 273503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.