بھاجپا کو سیکولر شناخت کی تلاش

دنیائے سیاست میں ایسی بہت ساری باتیں کہی جاتی ہیں جن کی صداقت پر یقین نہیں جاسکتا۔ ایسی ہی کچھ باتیں دہلی سے متصل ہریانہ کی جدید بستی سورج کنڈ اور فرید آباد میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قومی مجلس عاملہ اور نیشنل کونسل کے حالیہ اجلاس کے دوران صدر نتن گڈکری اور بزرگ لیڈر لال کرشن آڈوانی نے کہیں۔ مثلاً یہ کہ اب بھاجپا صدق دلی سے سیکولر بن جانا چاہتی ہے اور یہ کہ وہ مسلمانوں کےلئے ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس طرح کی باتوں پر یقین اس لئے نہیں کیا جاسکتاکہ آر ایس ایس کی فکر اور بھاجپا کی سیاست کا مشاہدہ کرنے والا ادنیٰ سا طالب علم بھی سمجھتا ہے کہ ان کا ہندتوا کا بنیادی نظریہ سیکولرزم کے منافی ہے۔سنگھ کا سارا فلسفہ فرقہ ورانہ منافرت پر قائم ہے۔ اس کی فطرت اقلیتوں خصوصاً مسلم اور عیسائی اقلیت کو برداشت نہ کرنے کی ہے، الا یہ کہ وہ اپنے تشخص سے دستربردار ہوجائیں۔روزہ، نماز اور عرس چاہے جتنے کریں، لیکن اسکولوں میں اپنے بچوں کو سرسوتی پوجا کرائے جانے پر اعتراض نہ کریں۔ جس مسجد پر وہ انگلی رکھ دیں اس کو ان کے حوالے کردیا جائے اور ہنسی خوشی اس کی جگہ مندر بنانے میں مدد کی جائے مگر نئی مسجد کی تعمیر کا ارادہ نہ کریں۔ شادی کی رسم کےلئے نکاح پر اعتراض نہیں ، مگر گھریلو معاملوں میں بھی شرعی قانون کی بات نہ کریں بلکہ یکساں سول کوڈ پر آمادہ ہوں، جس کے لئے ایک شاطرانہ تدبیرشادی کے لازمی رجسٹریشن کی نکالی گئی ہے جس سے سول میرج کی ساری شرطیں لاگو ہوسکیں گی۔وغیرہ۔ اور اس کےلئے ان کو جبر سے بھی گریز نہیں چنانچہ ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کو تلف کرنا اور ان کی زندگیوں کو اجیرن بنایا ،ان کو شرمسار کرنا، سنگھ پریوار کی سیاسی حکمت عملی میں شامل ہے۔ سنگھ کے ایک بڑے لیڈر آنجہانی ٹھینگری جی کے بقول یہ بات باعث فخر و اطمینان ہے کہ فساد کے بہانے ”مسلمانوں پر اتنی مار پڑی کہ وہ سر نہ اٹھاسکے“۔(ہندو مانسکتا)

ان نظریات کے علی الرغم پارٹی صدر نتن گڈکری نے 27 ستمبر کو اپنے خطاب میں کہا کہ” ہم نے ہمہ جہت ترقی کی خاطر ایسی سیاست کےلئے پہل کی ہے جس کے مقاصد میں ملک کو سب کےلئے برابری اورفرقہ ورانہ ہم آہنگی کے دور میں لیجانا پیش نظر ہے۔اس پرُعزم آغاز کا مرکزی مدعا رنگ ، نسل ،مذہب ،ذات اور جنس کی بنیاد پر ہر طرح کی عصبیت اورجانب داری کا خاتمہ ہے۔“ انہوں نے اس متنازعہ فلم کی مذمت بھی کی جس کے خلاف دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اب تک بھاجپا کا ریکارڈ یہ ہے کہ اس نے ہر اس خباثت کی تائید کی ہے جس سے مسلمانوں کو آزار پہنچتا ہو، اور ان کے ہر احتجاج کو غیرضروری ردعمل قرار دیکر مسترد کیا ہے۔

عاملہ کے آخری اجلاس میں آڈوانی جی نے اپنی اختتامی تقریر میں یہ عندیہ کچھ اور زیادہ صفائی کے ساتھ پیش کیا۔ صدارتی خطاب میںجو باتیں گول مول کہی گئی تھیںانہوں نے ان کو کھول کھول کر بیان کیا اور کہا: ’پارٹی کو اس وقت ضرورت ہے کہ سیکولرزم کے تئیں وہ اپنے عہد وفا کی تجدید کرے تاکہ دیگر پارٹیوں کو( جو اس کے ہندتووا کے موقف سے بیزار نظرآتی ہیں ) از سر نو اعتماد میں لیا جاسکے اور ان کے اندیشے دور ہوں۔‘ جس وقت وہ یہ تلقین کررہے تھے نریندر مودی ڈائس پر موجود تھے ۔ انہوں نے مزید کہا:’ ہمیں مکمل اعتماد کے ساتھ اقلیتی فرقہ کے اپنے ’بھائیوں‘ کو یقین دلانا چاہئے کہ ہم اس کثیر جہتی معاشرے میں کسی کے ساتھ تفریق یا ناانصافی پر یقین نہیں رکھتے۔ ‘ آڈوانی جی نے اہانت آمیز فلم پر مسلمانوں کے اضطراب کو ایک اہم موضوع قرار دہتے ہوئے کہا:” میں سختی کے ساتھ اس فلم کی مذمت کرتا ہوں۔ یہ بات ہماری تہذیبی قدروں کے منافی ہے کہ کسی بھی فرقے کی محترم شخصیات کی کردار کشی کی جائے۔‘

کیا یہ کم حیرت کی بات نہیں ہے جس بھاجپا نے ’اظہار خیال کی آزادی ‘ کی دہائی دیکر شاطم رسول سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی ہفوات کی ہی پشت پناہی کی اور ان اہانت آمیزکارٹونوںمیں جس کو کوئی نکتہ قابل اعتراض نظر نہیں آیا جو غیر ممالک میں شائع ہوئے، اس نے اچانک اپناموقف کیسے تبدیل کرلیا۔ ’ناطقہ سربگریبان ہے، اسے کیا کہئے؟‘ اس صورتحال پر سنہ 1964 کی فلم راجکمار کےلئے حسرت جے پوری کے گیت کا ایک مکھڑا یاد آتا ہے، جس کو محمد رفیع نے آواز دی تھی: ”اس رنگ بدلتی دنیا میں انسان کی نیت ٹھیک نہیں۔‘ ‘ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر بھاجپا کی نیت کیا ہے؟

ہرچند کہ یہ چکنی چپڑی باتیں صرف شائع شدہ خطابات میں کہی گئی ہیںاور ڈائس سے تقریر کے دوران ان کا ذکر نہیں کیا گیا ،اس کے باوجود بھاجپا کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کی دلجوئی اوردل آزار فلم کی مذمت کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے، بلکہ ہماری طرف سے شکریہ ادا کیا جانا چاہئے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔اورساتھ ہی یہ گزارش بھی کی جانی چاہئے کہ بھاجپا اگر واقعی اس مذمت میں مخلص ہے تو پھر اس کو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی مذمت میں بھی کرنی چاہئے۔یہ مصلحت سمجھ میں آتی ہے کہ این ڈی اے میں شامل بعض پارٹیوں کی سیاسی ضرورت اور این ڈی اے میں کچھ ایسی مزید پارٹیوںکو لانے کےلئے جو اس کے ہندتووا کو اپنے ووٹ بنک کےلئے خطرہ تصور کرتی ہیں ، پارٹی سیکولرزم کا نقاب لگا نے کی کوشش کرے اور اسی لئے آڈوانی جی نے مسلم اقلیت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ’جعلی سیکولرزم‘ کی اصطلاح ایجاد کی اور سرکار نے اقلیتوں کی طرف زرا بھی توجہ کرنے کا اشارہ دیا تو اس پر فوراً’ اقلیتوں کی منھ بھرائی‘ کا شور مچا کر اکثریت کو ان کے خلاف بھڑکایا ۔ بابری مسجد گراکر اس جگہ رام مندر کی تعمیر کی اپنی تحریک سے عوام کے ذہنوںپر ہندتووا کا رنگ چڑھایا۔اپنی عمر کے 85ویںبرس میں بھاجپا کیڈر کو سیکولرزم کی تلقین کرتے ہوئے وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ 13 سال کی عمر سے شاکھاﺅں میں سرگرم رہے ہیں، چنانچہ صرف 20سال کی عمر میںکراچی آر ایس ایس کے سیکریٹری بنادئے گئے تھے۔ سورج کنڈ میں ان کو اچانک خیال آیا کہ بی جے پی کو سیکولرہونا چاہئے۔ اگر یہ ان کے دل کی آواز ہے اور واقعی ان کے نظریہ میں کوئی تبدیلی آرہی ہے تو سیاسی ضرورت کے پیش نظر بھاجپا کا چہرہ تو بدل سکتا ہے چال اور چرتر بدلنا ممکن نہیں۔یہ بات سابق میں ثابت ہوچکی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بی جے پی نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو لبھانے والی باتیں کہی ہوں۔ 1995 کی مجلس عاملہ میں اس نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی کہ قرآن کا سنسکرت میں ترجمہ ہوناچاہئے۔ ایسی ہی کوشش بنگارو لکشمن نے بھی اپنے دور صدارت میںکی تھی اور باجپئی حمایت کمیٹی بھی اسی سمت ایک کوشش تھی۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا سنگھ کے نظریات اساسی کو نظرانداز کرکے بھاجپا اس تنگ ذہنی سے باہر نکل سکتی ہے جس کا دوسرا نام ہندتووا ہے اور جو سیکولر نظریہ کی ضد ہے؟ ہرگز نہیں۔

سیکولرزم سے لگاﺅ اور مسلم جذبات کی پامالی پر ناپسندیدگی کے اظہار کے کئی سیاسی مطلب ہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہندتووا کا ایجنڈا اب زیادہ نہیں چل پارہا ہے۔ جس ایجنڈے کے سہارے لوک سبھا میں اس کے ممبران کی تعداد 1984 میںدو سے بڑھ کر1998 میں 183تک پہنچی، اب اپنا کند پڑ گیا ہے اور پارٹی کا ووٹ بنک سکڑ رہا ہے ۔ چنانچہ بعض ایسی پارٹیوں کو ساتھ لئے بغیر، جن کے ووٹ بنک کا بہت کچھ انحصار مسلم اقلیت پر ہے، بھاجپا دوبارہ اقتدارتک نہیں پہنچ سکتی ۔لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی پر آر ایس ایس کی گرفت باجپئی کے بعد مضبوط ہوئی ہے۔سنگھ نے چاہا تو آڈوانی جی کو پارٹی صدارت چھوڑنی پڑی اور اس نے چاہا تو گڈکری صدر بنادئے گئے۔ اسی نے چاہا کہ گڈکری دوسری مدت کےلئے بھی صدر رہیں تو پارٹی کے آئین بدل دیا گیا۔اس لئے آڈوانی جی اور گڈکری کچھ بھی کہیں، دبدہ اورنظریہ آر ایس ایس کا ہی چلے گا۔ یہ بات بھی عیاں ہے سنگھ کی پہلی پسند مودی ہیں، آڈوانی نہیں ہیں۔ آڈوانی آج جو چیلنچ پیش کررہے ہیں اس کو چناﺅ تک برداشت کیا جارہا ہے تاکہ اتحادی پارٹیاں اورسیکولر ذہن کے رائے دہندگان مغالطہ میں رہیں اور پارٹی کاووٹ بنک بڑھ سکے۔اس لئے اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ بی جے پی نے یہ نیا موقف محض سیاسی مصلحت سے اختیار کیا ہے ، اس کا نظریہ اساسی وہی ہے جو سنکھ کا ہے اور اس کو وہی کرنا ہوگا جو سنگھ چاہتا ہے اور سنگھ ملک کو سیکولر نہیں بلکہ ہندوراشٹرا دیکھنا چاہتا ہے۔

اس کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے مسٹر گڈکری اور آڈوانی دونوں مودی کے بڑھتے ہوئے قد سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ مودی نے گزشتہ سال جس طرح پارٹی صدر کو خفت میں ڈال کر سجنے جوشی کو پارٹی کی عاملہ اور یوپی سے باہر کرایا تھا ،ظاہر ہے اس کو گڈکری بھول نہیں سکتے۔وہ وزیراعظم کے منصب کےلئے مودی کی امیدواری سے انتخابات متاثر ہونے کے امکان سے بھی فکر مند ہوسکتے ہیں۔خاص طور سے مودی کی قریبی سمجھی جانی والی سابق وزیراور آڈوانی کی سیاسی چیلی مایابین کوڈنانی کو سزائے عمر قید اور فساد کا سرغنہ قرار دئے جانے کے بعد این ڈی اے کے وہ حلیف پریشان ہیں جو بھاجپا کا دامن تھامے ہوئے ہیں اورمسلم ووٹ کے بل بوطے اقتدار میں آتی ہیں۔ اس لئے اس وقت پارٹی کے اعلا ترین پلیٹ فارم سے موجودہ اور متوقعہ حلیف پارٹیوں کی منھ بھرائی کی ضرورت تھی۔ مودی نے آڈوانی کے مقابلے وزیر اعظم کے منصب کےلئے جس طرح اپنی دعویداری پیش کی ہے، اس سے بھی پارٹی کا ایک طبقہ ناخوش ہے۔ان کو بجا طور سے یہ اندیشہ ہے کہ جس طرح مودی نے گجرات میں سنگھ پریوار کے دیگر لیڈروں کو کنارے کردیا ہے ، اگر وہ وزیر اعظم بن گئے اور ان کی بھی خیر نہیں ۔چنانچہ ہندتووا کے موضوع پر محتاط ہونے کا مطلب یہی ہوگا کہ چناﺅ تک مودی کو پروجیکٹ نہ کیا جائے حالانکہ پارٹی میں وہ طبقہ بھی خاصا مضبوط ہے جو کہتا ہے ہندتووا کے اصل ایجنڈے سے ہٹنا درست نہیں۔یوپی میں تو سنگھ پریوار نے اس ایجنڈے کے مطابق سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ فسادات کے مسلسل واقعات اسی کا حصہ ہیں۔

بی جے پی اس وقت ایک دو نہیں درجنوں داخلی بحرانوں کا شکار ہے۔انتخابات کے پیش نظر وہ جو بھی الزام کانگریس پر لگاکر عوام میں اپنی ساکھ بنانے کی کوشش کررہی ہے وہ خود اس کی اپنے گلے کی ہڈی بن رہے ہیں۔ اس کی مثال کرپشن ہے۔ عوام پر یہ بات اب خوب ظاہر ہوچکی ہے کہ دولت بٹورنے کے معاملے میں سنگھ پریوار سے وابستہ لیڈر کچھ کم نہیںہیں۔ حد تو یہ ہے جس وقت پارٹی صدر گڈکری اس کانفرنس میں کرپشن اور کوئلہ کانڈ پر کانگریس کو کوس رہے تھے، اسی وقت ممبئی میں ایک آرٹی آئی کارکن انجلی دمانیہ خود گڈکری کے کرپشن میں ملوّث ہونے کی ’پول‘ کھول رہی تھیں۔دمانیہ ایک سیوم سیوک کی بیٹی ہیں۔ سابق صدر بنگارو لکشمن، کرناٹک ، اتراکھنڈ اورمدھیہ پردیش کے سابق وزرائے اعلا پر کرپشن کے سنگین الزامات لگ چکے ہیں۔ چنانچہ اڈوانی جی نے اس کااعتراف کیا اور ان کو کہنا پڑا:’ کرپشن کے معاملے میں پہلے اپنا دامن صاف کرو تبھی دوسروں پر اعتراض کرو، متضاد باتیں نہ کہو،بھاجپا کو اپوزیشن کا رول ادا کرنے پر بس نہیں کرنا بلکہ ایک بھروسہ مند متبادل کے طور پر پیش ہونا ہے۔‘ شاید انہوں نے یہ بات پارٹی کے سینئر لیڈر بی سی کھنڈوری اورارون شوری کے بیانات کے پیش نظر کہی ہے۔ مسٹر کھنڈوری نے ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کو حق بجانب ٹھہرایا اور مسٹرشوری نے ایف ڈی آئی کی مخالفت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ کوئلہ کے معاملے میں اس کے لیڈر وں کے دامن کم داغدار نہیں۔چنانچہ ان موضوعات پر کچھ زیادہ گرمی اس اجلاس میں پیدا نہیں ہوسکی۔ آڈوانی جی نے صرف پارٹی کی اپنی کمزوریاں گنوانے پر ہی اکتفا کیا۔جہاں تک ایف ڈی آئی کا معاملہ ہے، چھوٹے تاجر بھلے ہی اس سے ڈر رہے ہوں مگر کسان خوش ہیں ، جن کی تعداد ملک میں 80فیصد ہے۔

پارٹی یہ بات اچھی طرح سمجھ رہی ہے کہ سڑکوں پر شور مچانے کے باوجود وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کانگریس کی ساکھ میں گراوٹ سے فائدہ اٹھا سکے اور چناﺅ میں کچھ بہتر کرسکے۔اسی لئے وہ لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد کی بات نہیں کررہی۔ ممتا کے بیان اور اس پر شرد یادو کی تائید پر پارٹی کے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی کا یہ کہنا اہم ہے جب تک نمبر نہیں تحریک عدم اعتماد کی بات کرنا فضول ہے۔ سورج کنڈ میں سیکولرزم کی جانب رجحان اور مسلمانوں کے تئیں ہمدردانہ رخ کے اظہار پر پارٹی کے سخت گیر ہندتووا وادیوں نے جوخاموشی اختیار کرلی ہے اس کا مطلب یہیں ہے کہ پارٹی نے ایک طرح یہ اعتراف کرلیا ہے کہ وہ اپنے فرقہ ورانہ ایجنڈے پر قائم رہ کر عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی، اسی لئے وہ این ڈی اے کو جوڑے رکھنے اور اس میں مزید پارٹیوں کو لانے کےلئے فکر مند ہے اور اسی غرض سے اپنے ہندتووا پر سیکولرزم کی نقاب لگا لینے پر آمادہ ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.