آئینہ انکو دکھایا تو برا مان گئے

روز نامہ ’’خبریں ‘‘ ملتان میں مورخہ 5ستمبر 2012ء کو میرے ایک مضمون بعنوان ’’احسان فراموش ملتانی‘‘ کے جواب میں ’’خبریں‘‘ 10ستمبر 2012ء کو ظہور احمد دھریجہ نامی شخص نے (سرائیکی وسیب کے لوگو ) کے ہمراہ مضمون بعنوان ’’احسان فراموش کون‘‘؟ لکھا ۔ مضمون نگار نے جواباً جو تحریر کیا اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ موصوف تاریخ پر زیادہ دسترس نہیں رکھتے ، معلوم نہیں کون سے زمانے میں بہاول پور ملتان کا حصہ تھا؟ مضمون نگار نے اسکی وضاحت نہیں کی جبکہ خود کو اعلیٰ اور دوسروں ادنیٰ کرنے کی جو بھونڈی کوشش کی وہ اپنی ’’مثال‘‘ آپ ہے ۔ مضمون نگار شاید یہ نہیں جانتے کہ جب کسی شہر کے تمن داروں کے حوالے سے کوئی بات تحریر کی جائے تو اُس میں وہاں کے عوام شامل نہیں ہوتے ۔ میں کیا اور میری بساط کیا ؟ کہ میں اللہ اولیاء کی سر زمین کے باسیوں کو مطعون کرنے کی گھٹیا کوشش کروں جبکہ مضمون نگار نے جوابی مضمون میں من مرضی کے پیرا گراف کے جوابات دیئے جن پر بھی موصوف ناقص سی ہی معلومات رکھتے تھے تاہم یہ بھی معلوم نہیں کہ مضمون نگار نے کونسی جانبدار ، تعصبی رائٹرز کی کتب کا مطالعہ کر رکھا ہے جس میں ملتان کے نوابوں کا ریاست بہاول پور کے بانیوں کو مزارعہ لکھا گیا ہے جبکہ مضمون نگار نے اسکی بھی کوئی وضاحت نہیں کی کہ مزارعگی سے نوابین بہاول پور بادشاہی تک کیسے پہنچے ؟ مضمون نگار نے اپنے قلم کے ذریعے تاریخ کو جس بے دردی سے مسخ کیا ہے اس کی نظیر قلم کاروں کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ بنو عباس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے نوابین بہاول پور کے بارے میں جو ہرزہ سرائی مضمون نگار نے کی ہے وہ قابل گرفت ہی نہیں بلکہ قابل مذمت و سزا بھی ہے جس سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ مضمون نگار کا اہل بہاول پور سے کوئی تعلق نہیں رہا کیونکہ اپنے قلم سے اپنی ہی تاریخ کو مسخ کر دینے والے اہل بہاول پور میں سے نہیں ہو سکتے ۔ مضمون نگار کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ عراق سے آنیوالے بنو عباس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے دو بھائی اپنے خاندان کیساتھ قلعہ ڈیراور (بہاول پور) پہنچے تھے جنہوں نے انگریزوں سے لڑائی کے بعد قلعہ کو خالی کرایا اور وہاں رہائش پذیر ہوئے جبکہ کلہوڑا نامی شخص سندھ جا کر آباد ہو گیا جبکہ داؤد نامی شخص نے ریاست بہاول پور کی بنیاد ڈالی تھی جو بعد ازاں داد پوترہ (عباسی) کہلائے ، 1728ء میں بہاول پور شہر کی بنیاد ڈالی گئی اسکے علاوہ نوابین بہاول پور کی قیام گاہ صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب (احمد پور شرقیہ) ، ججہ عباسیاں (خان پور) سمیت دیگر محلات جن کی باقیات بہاول پور شہر میں اُسی شان و شوکت سے موجود ہے جیسے کہ پہلے تھی جبکہ اللہ آباد (لیاقت پور) ریاست بہاول پور کا دارلخلافہ تھا ۔ رہا مضمون نگار کا یہ سوال کہ بہاول پور صوبہ کبھی تھا ہی نہیں اور اگر تھا تو اسکا گورنر کون تھا تو بتایا چلوں کہ آئین پاکستان جسے 1973ء کا بھی آئین کہا جاتا ہے کے نافذ سے پہلے پورے ملک میں ایک ہی گورنر جنرل ہوتا تھا جبکہ بہاول پور صوبہ کے گورنری کے اختیارات نواب سر صادق محمد خان عباسی خامس کے ہی پاس تھے تاہم ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ نے ون یونٹ کو توڑنے کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بہاول پور صوبہ کو پنجاب میں ضم کر دیا تھا جبکہ بلوچستان کو صوبہ کا درجہ دیدیا گیا تھا ، اُس فوجی آمر کے شب خون مارنے کے بعد ہی متحدہ محاذ بہاول پور وجود میں آئی جس نے اس ایگزیکٹو آرڈر کیخلاف جلسے جلوسوں سمیت بھوک ہڑتالی کیمپس لگائے جبکہ تحریک استقلال پارٹی کے منشور میں بہاول پور صوبہ کی بحالی درج ہے ، تحریک استقلال نے ہی بہاول پور میں صوبہ بحالی کے کارکن پیدا کئے ہیں ۔ 1970ء کی تحریک بحالی صوبہ بہاول پور کو میاں نظام الدین حیدر ، طاہرہ خان ، مامون الرشید ، نور محمد ہاشمی ، سردار اسلم خان اخوان ، سیّد چراغ شاہ و دیگر نے چلائی تھی ۔ یہ بھی واضح کردوں کہ 1970ء کی تحریک بحالی صوبہ بہاول پور میں تیزی ایک بھوک ہڑتالی کیمپ سے آئی جسے انتظامیہ نے تہ بالا کر دیا تھا جبکہ اس بھوک ہڑتالی کیمپ کے انچارج مودود الحسن قریشی ، اختر علی کھیڑا ، آغا سکندر اور ڈاکٹر خالد سمیت دیگر جانثار بھوک ہڑتال کرنیوالوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے تاہم اس وقت کے جابر حکمرانوں نے جبراً بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کراد یا تو پھر تحریک جلسے جلوسوں کی شکل اختیار کر گئی ، چوہدری فرزند علی ایڈووکیٹ ، میاں نظام الدین حیدر ، سردار محمود خاکوانی کو جیل بند کر دیا گیا تو 24؍اپریل 1970ء کو طاہرہ خان جنہیں اہل بہاول پور نے بنت بہاول پور کا خطاب دیا بہاول پور صوبہ بحالی کیلئے میدان میں قدم رکھا اور اسی طرح بہاول پور صوبہ کو بحال کرانے کی اس تحریک میں نواب آف بہاول پور کے حقیقی فرزند ارجمند فخر بہاول پور عزت مآب جناب شہزادہ مامون الرشید عباسی ، شہزادہ سعید الرشید عباسی بھی تحریک کا حصہ بنے جن کے آنے سے تحریک زور پکڑ گئی تھی اور اسی (24؍اپریل 1970ء ) دن بہاول پور کے گرد و نواح سے آنیوالے عوام جلوس کی شکل اختیار کر گئے اور فرید گیٹ (بہاول پور) پر ایک لاکھ سے زائد افرا کا اجتماع ہوا جو بعد ازاں ایک جلسہ کی صورت اختیار کر گیا جسے شہزادہ مامون الرشید اور بنت بہاول پور طاہرہ خان نے لیڈ کیا جس پر پولیس نے شیلنگ کی آنسو گیس پھینکی اور میرے پیارے وسیب اہل بہاول پور جانتے ہیں کہ وقت کے فرعون حکمران ، شہزادہ مامون الرشید اور بنت بہاول پور محترمہ طاہرہ خان کو گولی کا نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن اُس وقت حافظ محمد شفیق اور عظیم بخش داد پوترہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور شہادت کے اعلیٰ رُتبہ پر فائز ہوئے ، 24؍اپریل 1970ء کو اس ظلم و بربریت کے بعد شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ، کرفیو کے بعد شہزاد مامون الرشید عباسی اور بنت بہاول پور رات ایک بجے الحیدر ہاؤس پہنچے جہاں انہوں نے ایک گھنٹہ قیام کیا تاہم شہزادہ مامون الرشید جیسے ہی الحیدر سے نکل کر کچھ دور گئے تو مقامی پولیس و انتظامیہ نے الحیدر کو گھیرے میں لے لیا اور لاؤڈ سپیکر پر کہا جاتا رہا کہ بنت بہاول پور شہر چھوڑ دو نہیں تو گولی کھانے کیلئے تیار ہو جاؤ ۔ اس موقع پر بنت بہاول پور نے گولی کھانا قبول کیا ، شہر چھوڑنا نہیں ۔ بعد ازاں بہاول پور پولیس اور فوج نے آپکو ضلع بدر کر دیا ، اس وقت کے تمام لیڈران کو جیل بھیج دیا گیا ، کچھ عرصہ کے بعد الیکشن ہوا اور متحدہ محاذ بہاول پور کے امیدواران کامیاب ہوئے اور یہاں کے عوام نے ثابت کیا کہ وہ بہاول پور کی صوبائی حیثیت واپس چاہتے ہیں اور وہ جذبہ آج بھی اہل بہاول پور اور انکے لیڈران میں موجود ہے ۔

مجھے یہاں صرف ایک یہ واقعہ تحریرصرف اسلئے کرنا پڑا کہ تاریخ سے نابلد مضمون نگار ظہور احمد دھریجہ کو یاد دلا دوں کہ پچھلے 43سال سے جاری بہاول پور صوبہ کی بحالی کی تحریک جس میں حافظ شفیق اور عظیم داد پوترہ کی قربانیاں بھی شامل ہیں اور لاتعداد اسیران بھی ہیں کو کہاں لے جاؤں جنہوں نے اہل بہاول پور کیلئے ، بہاول پور کی تعمیر و ترقی کیلئے ، بہاول پور کے پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے یہ سب کچھ کیا حتیٰ کہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دیاجبکہ راقم الحروف کو اس واقعہ سے مضمون نگار کو بہاول پور صوبہ کی حقیقت کا ادراک کرنا بھی مقصود تھا ۔

محترم قارئین !بہاول پور صوبہ بحالی کے حوالے سے مختلف لیڈران اکثر اپنے بیانوں میں یہ کہتے رہتے ہیں کہ ملتان کے آخری نواب مظفر خان کو ریاست بہاول پور نے پناہ دی تھی تاہم یہ بھی وضاحت کردوں کہ غلط العام میں یہ بات مشہور ہے جبکہ اگر تاریخ کو کنگالیں تو معلوم ہو جائیگا کہ سقوط ملتان کے بعد نواب مظفر کے ایک 12سالہ بیٹے اور ایک بھائی کو ریاست بہاول پور نے پناہ دی اور انکا وظیفہ بھی مقرر کیا جسکے بارے میں عجائب گھر و سنٹرل لائبریری بہاول پور میں حوالہ جات موجود ہیں ، اگر مضمون نگار کو یقین نہ آئے تو پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر دی اسلامیہ یونی ورسٹی آف بہاول پور سے ریٹائرڈ ہو کر آجکل صادق ایجرٹن کالج (ایس سی کالج) میں شعبہ تاریخ پڑھا رہے ہیں سے مل لیں اور بتاتا چلوں کے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر نے نواب آف بہاول پور سمیت شہزادہ گان کے انٹرویوز و ملاقاتیں کر رکھی ہیں اور وہ بہاول پور ، بہاول پور صوبہ کی تحریک کے حوالے پرمکمل دسترس رکھتے ہیں جن کے پاس ریاست بہاول پور ، صوبہ بہاول پور اور اسکی تاریخی اہم دستاویزات و دیگر پارچات ہیں جنہیں دیکھ کر بہت سے عقل کے اندھوں کی عقل ٹھکانے آ جاتی ہے ۔ یہاں میرے پیارے پڑھنے والے بھی جانتے ہونگے کہ غلط العام میں کہی جانیوالی بات صحیح ہی تصور کی جاتی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مضمون نگار نے خود اعلیٰ اور دوسروں کو ادنیٰ کرنے کی ایک کوشش اسی نواب مظفر والے واقعہ کو لکھتے ہوئے اپنے مضمون میں کی ۔ موصوف مضمون نگار نے نواب مظفر کے 1818ء والے واقعہ کو 1849ء والے ایک واقعہ کیساتھ اس خوبصورتی کیساتھ جوڑا کہ اہل قلم کم سے کم خون کے آنسو ضرور رو پڑے ہونگے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مضمون نگار معلوم نہیں کون سی نادیدہ قوتوں کیساتھ ملکر حقائق و تاریخ کو مسخ کرنے پر تل ہوئے ہیں ۔

راقم الحروف نے 5ستمبر والے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ بہاولپور کو اسکی سابق حدود کے مطابق ہی بحال کیا جائے جس میں خاص کر سندھ کے علاقہ ریتی کا بھی ذکر کیا گیا تھا ۔ میں آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہوں کیونکہ 17ویں صدی سے فوجی ڈکٹیٹر کے آمرانہ اقدام تک بہاول پور کی یہی حدود بنتی تھی اور مضمون نگار نے جس انداز میں جواباً جو کچھ لکھا میں اسکی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا تاہم اتنا ہی کافی ہے کہ ہر کام گولی اور مارکٹائی سے نہیں ہوتا ، ڈائیلاگ سے بہترین حل نکالا جا سکتا ہے ویسے بھی اہل بہاول پور اپنے حصہ کا پانی انہیں دیتے ہیں اگر اسی کے عوض کچھ ہو جائے تو سودا مہنگا نہیں ۔ مضمون نگار کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بہاول پور میں بسنے والے سرائیکی نہیں ہیں ، یہاں صرف دو قومیں بستی ہیں ، ایک ریاستی اور دوسرے ریاستی آباد کار جن میں پنجابی مہاجر ، پٹھان سمیت دیگر اقوام شامل ہیں یہاں کی ریاستی زبان ملتان و ڈیرہ غازی خان یا کسی اور شہر کی سرائیکی سے بلکل نہیں ملتی ، ہمارے لہجے میں فرق ہے جبکہ ہماری تہذیب و ثقافت میں بھی کافی حد تک فرق ہے تاہم اگر کوئی میرا بھائی بہاول پور میں رہ کر خود کو سرائیکی کہتا ہے تو وہ صرف و صرف ملتانی تمن داروں کا ورغلایا ہوا ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ بہاول پور سرائیکی وسیب کا حصہ نہیں ، بہاول پور اپنی ایک الگ شناخت و تاریخ رکھتا ہے ۔

راقم الحروف مضمون نگار سے یہ اس بات پر کسی حد تک اتفاق کرتا ہے کہ یہاں بسنے والے مہاجر ، پنجابی ، پٹھان بھائی جو ، اب یہاں مستقل آباد ہو چکے ہیں اور ان سے ہماری رشتہ داریاں بھی ہو چکی ہیں اور اب تو ہماری قبریں بھی سانجھی ہیں تو بتایا چلوں کہ اہل بہاول پور کی قبریں ملتانی و ڈیرہ غازی خان کے سرداروں ، تمن داروں ، اہل سادات اور اہل ثروت کیساتھ سانجھی نہیں ہیں جن کا معاشی و معاشرتی ، ذہنی و قلبی جکاؤ ہمیشہ تخت لاہور کی جانب رہتا ہے جنہیں اپنے عوام کے مسائل و مصائب سے کوئی سروکار نہیں ، انکا مقصد صرف اپنی اولادوں کو مستند اقتدار تک لے جانا ہے ۔ یہاں قارئین کو یہ بھی بتا دوں کہ 10ستمبر 2012ء کے روز نامہ ’’خبریں ‘‘ملتان میں جوابی مضمون تحریر کرتے ہوئے مضمون نگار نے قبریں سانجھی والے پیرا گراف میں لفظ سانجھی کو انونٹنٹس کاماز میں تحریر کیا یعنی یوں ’’سانجھی‘‘ میرے پیارے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ کاماز میں وہی لفظ لکھا جاتا ہے جس سے ذومعنی (ڈبل میننگ)مطلب لینا ہو جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے صرف اہل بہاول پور کو نیچا دکھانے کیلئے معلوم نہیں کتنی مشکل سے لفظ سانجھی لکھا جبکہ واضح ہو رہا ہے کہ تعصب سے پر قلم اب خان پور (ضلع رحیم یار خان ) کا نہیں رہا اور شاید وہ بہاول پورو ملتان ریجن میں دوسری قوموں کے مستقل آباد ہونے سے خوش نہیں ۔

میں موصوف مضمون نگار سے پوچھتا ہوں کہ کیا انہوں نے صرف میرے مضمون کے من مرضی کے پیرا گراف کا ہی جواب دینا تھا ؟ کیا میرے مضمون میں یہ نہیں لکھا تھاکہ ، ملتان کے تمن دار ، اہل سادات اور اہل ثروت کا جکاؤ ہمیشہ لاہور کی جانب رہا ہے جہاں سے وہ مسلسل فیض یاب ہو رہے ہیں اور سب کچھ تخت لاہور سے حاصل کر کے پھر انہیں برا بھی کہتے ہیں کہ ہمیں الگ کر دو ؟ ہے کوئی جواب انکے پاس اس بات کا ؟ کیا تخت لاہور پر ملتانی تمن دار براجمان نہیں رہے ؟ گورنری ، وزیر اعلیٰ شپ اور حتیٰ کہ وزیر اعظم کے اعلیٰ منصب پر فائز نہیں رہے اور اس دوران میں انہوں نے کبھی اپنے علاقوں کے غیور عوام بلکہ بے بس عوام کی خوشحالی کیلئے کوئی کام کیا ، کوئی منصوبہ دیا ؟ سکولوں اور کالجز کی عمارتوں پر قبضے کرائے رکھے جو آج بھی قائم و دائم ہیں صرف اسلئے کہ کہیں یہاں کے عوام پڑھ لکھ کر ان تمن داروں کے سامنے نہ کھڑے ہو جائیں ؟ ملتان و ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں کی یہ حالت ہے جہاں سے صدر پاکستان سمیت وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ ، گورنر ، وفاقی وزراء سمیت دیگر کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے والے حکمرانوں نے سوچا یا دیکھا کہ انکے دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت کی حالت زار کیا ہیں وہاں آج بھی غیور و محکوم عوام اوپن ائیر ( کھلی ہوا) میں مرد و خواتین اپنا علاج معالجہ کرانے میں مصروف ہیں ، ان علاقوں میں رسہ گیروں ، قبضہ گروپوں کی ایک پوری چین (لڑی) ہے اور محترم مضمون نگار جانتے ہیں کہ وہ کون کون سے تمن دار ہیں جو ان جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی اور انہیں مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں ، بھیڑ بکریوں سے بھی برتر زندگی گذرانے پر مجبور عوام کیلئے ملتان و گرد و نواح کے کسی تمن دار نے کچھ کیا ؟انکی حالت زار بدلنے کیلئے کوئی اقدامات کئے ؟لیڈران پاکستانی سرائیکی قوم کے ہیں اور عالمی سرائیکی کانفرنس ہندوستان میں جا کر کراتے ہیں ؟ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کی خاطر اپنے قوم و پارٹی کو دھوکہ دینے والے نام نہاد لیڈرنے 2002ء کے ضمنی الیکشن میں یزمان(بہاول پور)سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر انتخاب نہیں لڑا تھا ؟ چلیں ہیں سرائیکی صوبہ لینے ! محترم مضمون نگار صاحب سرائیکی صوبے کی آواز کب کی دم توڑ چکی ایسے نام نہاد لیڈر جس قوم میں ہوں وہاں کیسے صوبے حاصل کئے جا سکتے ہیں اپنے مفادات کی خاطر پارٹیاں بدل لینے والے ہندوستان میں جا کر عالمی سرائیکی کانفرنس کرانے والے کیا پاکستانی سرائیکیوں کو بیوقوف نہیں بنا رہے ؟ کیا ایسی حرکات سے کسی سازش کی بو نہیں آ رہی ؟ میں سرائیکی قوم کا مخالف نہیں (میں ریاستی آباد کار ہوں )مگر انکی معصومیت پر افسوس ہوتا ہے جو اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ انہیں کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے اندر ہی موجود کچھ کالی بھیڑوں سے نقصان کا احتمال ہے ۔

آخر میں مضمون نگار کی حضور اقدس میں کہ حمید اصغر شاہین نے جو حرکت امیر آف بہاول پور پرنس صلاح الدین عباسی کیخلاف بہاول پور پریس کلب کے باہر کرنے کی کوشش کی تھی ، جو انہوں نے یہاں سے ’’فرار ‘‘کے بعد ملتان کے ایک تاریخی گیٹ کے باہر جا کر کی ، کے بعد اتنا ضرور کہوں گا کہ جس دن اہل بہاول پور میں سے یا کسی ہمارے لیڈر نے کسی ملتانی تمن دار کیخلاف ایساکچھ کر دیا تو اہل بہاول پور کیساتھ انکی تمام محبتوں کی قلعی کھول کے سامنے آ جائیگی ۔
محمد شکیل تسکین
About the Author: محمد شکیل تسکین Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.