اتحاد ا مت وقت کا اہم تقاضہ

 پوری امتِ مسلمہ جس کی تعداد کم و بیش ایک ارب پندرہ کروڑ ہے اس وقت بد امنی دہشت گردی اور بے بسی کا شکار ہے اگر چہ اس کی بڑی وجہ بین الاقوامی طور پر یہود ونصاریٰ کی سازشوں اورمسلم امہ کے قدرتی وسائل پر مختلف ہتھکنڈوں سے قبضے اور نا انصافی پر مبنی مسلط کئے گے نظام اور مسلم ممالک کے حکمرا نوں کو مختلف حربوں سے پنجہ استبداد میں جکڑنے ان سارے مظالم کو خو دساختہ قانونی فتویٰ لینے کے لئے یہود و نصاریٰ کو تحفظ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے نام پر بنایا گیا ادارہ جو صرف بین الاقوامی قزاقوں،ظالم بدمعاشوں اور ظلم وستم اور انسانی حقوق کی پامالی کا جواز فراہم کر تا ہے اور ایک مخصوص ٹولہ اس پر قابض ہے یہی ٹولہ سلامتی کونسل کے نام پر پوری دنیا پر مخصوص سوچ مسلط کر نے کے اقدامات کرتا ہے جو اس سوچ سے اتفاق نہ کرے اس پر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔ یہ غیر مہذب ظالمانہ نظام جس کو سرمایہ دارانہ ذہنیت نے جنم دیا ہے اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے ترقی پزیر ممالک کے وسائل کو دھونس اور دھاندلی سے لوٹتا ہے اور کمزور ممالک مدافعت کی ہمت نہیں کر پاتے۔غیر مہذب اورظالم عالمی طاقتیں دوسرے ممالک میں مداخلت کے لئے اپنی خفیہ ایجنسیوں کو مختلف انداز اور اشکال میں بھیجتے ہیں کمزور اور خریدے ہوئے حکمرانوں کی اجازت سے اور کثیر تعداد میں NGOs کے نام سے ایجنسیوں کے ا فراد جاسوسی اور فرقہ وارانہ فساد پھیلا کر اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔صیہونی طاقتیں نہ صرف خود ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دوسرے ممالک کوبرباد کرنے کی سازشیں کرتے ہیں بلکہ سادہ اور غریب لوگوں کو مختلف طریقوں سے دہشت گردی کے لئے ا ستعمال کرتے ہیں جمہوری ملکوں میں اپنے ایجنٹوں غیر محب وطن سیاست دانوں کو دولت سے نواز کر ممالک میں اپنے پسندیدہ ٹاؤٹ منتخب کراتے ہیں جن کے ذریعے اپنے مضموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔مغربی اجارہ داری اور نا انصا فی پر مبنی کردار سے جان چھوڑانے اور اپنے وسائل کو بچانے کا راستہ یہ ہے کہ بر اعظم ایشیاء کے ممالک اپنا انصاف پر مبنی برابری کی بنیاد پر مشتمل الگ بلاک قائم کریں اور اپنے تنازعات باہمی مذاکرات سے حل کریں آپس میں تجارت کو فروغ دیں۔ اس طرح چارایٹمی قوتیں چین،روس، پاکستان، اور ہندوستان،اور غیر ایٹمی ممالک کو پورا تحظ فراہم کرنے کے لئے ایک ادارہ متحدہ اقوام مشرق کے نام سے قائم کیا جائے جو ایشیاء کے ممالک کے مسائل کے حل کے لئے دستور بنائے اور انصاف پر مبنی برابری کی بنیاد پر تنا زعات کا حل پیش کرے۔ایشیائی ممالک اقوام متحدہ کے نام کی امریکی لونڈی تھوک دیں تو مغرب کے اجارہ دار ممالک ہوش میں آ جائیں گے۔یہ تو تھا بین الاقوامی تناظر میں ایک جائزہ۔ اب زیر عنوان موضوع پربات ہوگی،موجودہ دور میں جتنا ظلم وستم انفرادی اور اجتماعی طور پرمسلمانوں پر ہو رہاہے دنیاکی تاریخ بھی دم بخود ہے۔انسانی حقوق کے علم برداربے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں پوری دنیا میں صیہونیت نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیئے اور مظالم کی روک تھام کا کوئی ذریعہ ہی نہیں حال آنکہ اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہوا ہے ۔ مسلم ممالک جوتعداد میں پچپن سے زیادہ مسلم ریاستیں ہیں آپس میں زمینی راستے سے بھی منسلک ہیں اورسمندرری راستے بھی ہیں ۔لیکن بعض ممالک کے حکمران مغربی تسلط کے زیر اثر ہیں ان کے ذاتی اکاؤنٹس یورپین ممالک میں ہیں اوربعض حکمرانوں بیویاں یہودی اور نصرانی ہیں جو ملکی راز اپنے اپنے ملک کو دیتی ہیں جو ملکی سا لمیت کے لئے انتہائی خطر ناک ہوتا ہے۔اگر تمام مسلم ممالک ہی طے کر لیں کہ مسلم امہ کے طور پر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے، اتحاد لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ(ﷺ)کی بنیاد پرہو اور اپنا مسلم worldقائم کیا جا سکتا ہے اپنے وسائل اور تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے۔دنیا کے ساتھ برابری کی بنیاد پرباوقار طریق کار کے مطابق تعلقات استوار کئے جاسکتے ہیں اور بے غیرتی کاسہ لیسی سے بچا جا سکتاہے اتحاد ایک ایسی قوت ہے جس میں برکتیں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل ہوتی ہے اور ایسی مدد حاصل ہوتی ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًولا تفرقوا(القرآن)اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑو۔اگرمسلمان آپس میں دست و گریبان ہوں تو اللہ کا فرمان ہے کہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی اور تم کو خبر تک نہ ہو گی۔ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم غزوہ بدر میں متحد تھے تو کامیاب ہوئے اور غزوہ احد میں متفرق ہوئے تو جیتے ہوئے ہار گئے۔یہ ہمارے مشترکہ دشمن یہود ونصاریٰ کے علم میں ہے لیکن بد قسمتی سے ہم بھول گئے۔O I C کو اپنا کر دار ادا کرتے ہوئے جرأت مندانہ اقدامات کی سفارشات پیش کرنی چاہئے اور مسلم WORLDکا نقشہ بناکر مسلم ممالک کے درمیان قدرمشترک قواعد و ضوابط بناکرمسلمWORLDاسمبلی میں پاس کراکر نافذکرنا چاہئے تاکہ باوقار حکمرانی سے مغربی استعما ر کو بتایا جاسکے کہ تمہارے بغیر ہم کیسے ترقی کی منازل طے کر ہے ہیں یقیاً اللہ کی مہربانی سے ہم کسی کے مقروض نہیں بلکہ مغربی استعمار ہماری شرائط پر ہم سے تجارت کریں گیاور ہم ان کو اسلامی طرز تجارت سے متعارف کرائیں گے اور یہ ثابت کریں گے کہ سود کے بغیر تجارت کتنا فائدہ دیتی ہے اور اسلامی نظامِ مالیات میں کتنی بر کتیں ہیں۔امتِ مسلمہ کے تھنک ٹنکس اوردانشور وں کو امت کے اتحاد پراپنی ماہرانہ رائے منصوبے بناکر ممالک کی ترقی کے لئے مہیا کرنے چاہئے علمائے امت اتحاد کے لئے اختلافات کو دور کرنے کے لئے مشتر کات پرامت کو اکٹھا کرنے کر منصوبہ عمل بنا کر متعارف کرانے کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہم عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کر پائیں اور وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین کے مصداق بن سکیں اسی طرح مسلم ملکوں میں اندرونی اختلافات کو محبتوں میں بدلنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیکر اپنی قوت کو پارہ پارہ کرنے اور دشمنوں کے لئے تر نوالہ بنے سے بچایا جانا چاہئے اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے جو تمام اسلامی مسالک میں قدر مشترک ہے وان تنا زعتم بشئ فردوہ الی اللہ ورسولہ اور اگر تمہارے درمیان کسی چیز پر اختلاف پیدا ہو جائے تو تم اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹا دو ، اس پر تمام مسلک متفق ہیں اور یہی دین اسلام ہے اور جب تک علمائے امت خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوں گے تب تک عوام پر اثر انداز نہیں ہوا جا سکتا یہ علمائے امت کی ذمہ داری ہے کہ اس کو متعارف کرائیں اور اس کی اہمیت سے روشناس کرائیں ۔اغیار ہمیشہ اختلافات کو ہوا دے کر افرا تفری پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے اتحاد سے ہی سے ان کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے-
Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 36892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.