مدتوں پہلے شیر شاہ سوری جیسے
مردِ آہن نے ایک بات کہی تھی جو آج بھی آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے
کہا تھا”جب کسی بھی ریاست کے لوگوں کی محرومیاں، دکھ درد مقامی سطح پر نہیں
سنے جائیں گے اور حکمران ان کے مسائل پر توجہ نہیں دیں گے تو یہ ستم رسیدہ
لوگ پہلے حکومت کے خلاف نفرت کا اظہار کریں گے اور پھر وہ علی الاعلان ملک
سے بغاوت پر اتر آئیں گے“۔آج بلوچستان کے حوالے سے بھی ہمیں ایسی ہی
صورتحال کا سامنا ہے، سردار اختر مینگل کی طرف سے چھ نکات پیش کیے جانے کے
بعد ایک بار پھر یہ موضوع ہر ایک کی زبان پر ہے ، اختر مینگل نے جذبات میں
آکر یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگران نکات پر عمل نہیں کیا جاتا تو یہ ہماری آخری
وارننگ ہے اور ”آخر ی مرتبہ گلے لگ کر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں گے“۔دوست
احباب کہتے ہیں کہ آپ بلوچستان پر بہت زیادہ لکھتے ہیں اس کی کوئی خاص وجہ
بھی تو ہو گی ، ان کرم فرماﺅں کو کیسے بتایا جا ئے کہ میرا دکھ کتنا گہرا
ہے اور ذہن عجب جکڑ بندیوں میں گھرا ہے اور بلوچستان کی صورتحال کسی طور
بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ۔ عجب صورتحال ہے سرمئی شاموں کی سرزمین
بلوچستان کی ۔ کبھی یہ جانکاہ خبر دل کو چیر کر گزر جاتی ہے کہ گوادر کے
ہمارے پیارے دوست عبد الحی بلوچ کو قتل کر دیا گیا اور ان کے اہل خانہ نے
اس قتل کا الزام پاک فوج پر دھر ڈا لا تو اگلے روز پتہ چلتا ہے کہ پیشگان
میں تعینات میرے بہادر دوست اور دھرتی کے محافظ نائیک عدنان کو کئی ساتھیوں
سمیت شہید کر دیا گیا ۔بلوچستان کے حوالے سے دوریاں اور کدورتیں اتنی بڑھ
چکی ہیں کہ بات کسی طور بھی بنتی نظر نہیں آتی،نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
والی بات ہے ۔ پاکستان کا آدھا حصہ بغاوت کی آ گ میں جل رہا ہے اور عبد
الرحمن ملک ایسے ارباب بست و کشا د بدستور انجوائے کر رہے ہیں،حکمران کیا
تمام قومی سیاسی لیڈر ہی جیسے منہ میں دہی جما کر بیٹھ گئے ہیں ۔ اہالیان
اسلام آباد نہ تو سردار اختر مینگل سے ملنے کے روادار ہیں نہ ہی ان کے چھ
نکات کو توجہ کے قابل سمجھا جا رہا ہے، الٹا اپنے وزیر داخلہ انہیں غدار
وطن کا خطاب دیے جارہے ہیں ۔ عجیب دستور چل نکلا ہے یہاں کا ،کہ حکمران جو
بھی کہیں وہ درست ٹھہرے ، دوسرا کوئی بھی اپنا حق مانگے اسے” غدار“ کا طعنہ
دے کر جیل کے اونچے پھاٹک کے اس پار دھکیل دیا جائے یاپھر دیواروں چنو ادیا
جائے
جو میں کہوں تو سمجھا جائے مجھے دار کے قابل
جوتو کہے تو تیری بزم کادستور ہو جائے
چیف جسٹس آف پاکستان بار بار حکمرانوں اور قوم کو متنبہ کرتے چلے جا رہے
ہیں کہ بلوچستان کا آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اورقوم کوایک نئی
افتاد ، نئے بحران کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن عدلیہ کے جواب میں حکمرانوں
کا طرز عمل لفظوں کے ہیر پھیر سے آگے جاتا نظر نہیں آتا اب کم ازکم صرف
الفاظ کے جادو سے تو مسئلے کا حل نکلنے سے رہا ۔ضرور ت اس بات کی ہے کہ تما
م سیاسی پارٹیاں مل کر بلوچستان کے تصفیہ طلب امور اور حساس معاملات کی
جانچ پرکھ کریں،ایک دوسرے کو مطعون کرنے کے بجائے خالصتا ملکی و ملی مفاد
کو پیش نظر رکھتے ہوئے اوپن مکالمے کی فضا ءپیدا کی جائے ۔ مفاہمت اور
مصالحت کاراستہ بروقت اختیار نہ کیا گیاتو ”لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے
سزاءپائی “والا معاملہ درپیش آسکتاہے ۔اس میں تو کچھ شک نہیں کہ وہاں پرفوج
بے بس ہو چکی ہے اگر وہ بلوچستان کے تخریبی عناصر کےخلاف کارروائی کرتی ہے
تو بلوچوںکی نسل کشی کا الزام اس کے سر آتاہے اور ہاں۔۔۔۔ اگر ایک ہی وقت
میں اسی فوج کی چیک پوسٹوں پر حملے کر کے درجنوں جوانوںکوشہید کردیا جائے
تو ان کی قربانیوں کودادِ تحسین دینے والا کوئی بھی نہیں ،کیا کسی بھی
ریاست کے محافظ اسی طرح کے سلوک کے مستحق ہوا کرتے ہیں؟ یہی انصاف روا ہے
تیری عدالت میں۔۔۔۔ مقامی وغیر مقامی افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا لاپتہ
افرادا ور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کے قتل عام یاصوبے میں سرکاری تنصیبات
کی تباہی کا معاملہ ایسے تمام واقعات کی روک تھام کرنا ملکی استحکام او ر
قومی بقاءکے لیے از بس ضروری ہے لیکن ادھر تو بلوچستان کے زخموں پر مرہم
رکھنے کے بجائے اسے صرف جھوٹے وعدو ں اور فرسودہ پیکجز کے ذریعے سے ہی ٹرخا
یا جا رہا ہے ۔ بلوچستان اور فوج کے حوالے سے محسوس ہوتا ہے کہ نااہل لوگوں
نے ان دونوں کو دلدل میں دھکیل کر بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے ۔ پاک فوج کے
سپہ سالار تو کب کے واضح کرتے چلے آرہے ہیں کے” ہم مسئلے کے سیاسی حل پر
یقین رکھتے ہیں اور فوج حکومتی احکامات کی پابند ہے “۔ مسئلہ یہ ہے کہ
سردار اختر مینگل کے چھ نکات کی طرح جنرل کیانی کے اس بیان کو بھی اہمیت دی
جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور فوج کے ناقد اسی بات پر مصر ہیں کہ
جنرل کیانی کا یہ بیان حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا اور فوج اپنی من مرضی سے
ہی بلوچستان کے مسئلے کا حل چاہتی ہے ، حالانکہ ایسی باتوں کا سچ سے دور کا
بھی کوئی واسطہ نہیں اور سیاست دان ہمیشہ سے ہی فوج کو بیچ منجدھار چھوڑ کر
راہ ِ فرار اختیار کرتے آئے ہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ سردار اختر مینگل کے
چھ نکات کے جواب میں وزیر داخلہ رحمن ملک جیسوں نے کیسا ردعمل دکھایا اور
جنرل کیانی نے کن خیالات کا اظہار کیا، مگر کیا کیجیے کہ نزلہ پھر بھی فوج
پر ہی گرتا ہے۔۔۔۔۔آخر ایسا کیوں ہے ؟٭٭٭٭٭ |