نئے بلدیاتی نظام سے پی پی کو خطرہ؟

سندھ اسمبلی سے متنازع بلدیاتی نظام کی منظوری کے خلاف جئے سندھ قومی محاذ، عوامی تحریک سمیت دیگر قوم پرست جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ 5 روز سے اندرون سندھ بیشتر شہروں میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال، جلاﺅ گھیراﺅ، مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے ،کاروباری مراکز، بازار اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ بلدیاتی آرڈیننس کے خلاف سندھ ترقی پسند پارٹی کی ریلی پر مسلح افراد کی فائرنگ سے قوم پرست رہنما عبدالمالک نوحانی کے قتل کے خلاف میر پور خاص، جھڈو اور گردونواح کے علاقوں میں قوم پرستوں کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گی۔ اس موقع پر سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا کہ حکومت نے اقتدار بچانے کے لیے سیاہ قانون منظور کراکے سندھ کے ساتھ غداری کی ہے۔

سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے خلاف جمعے کے روز ٹھٹہ، سکھر، خیر پور، مٹھی و دیگر شہروں میں جسقم و دیگر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ اس موقع پر قوم پرست رہنماﺅں نے پیپلزپارٹی پر شدید تنقید کرتے ہوئے حکومت سے بلدیاتی آرڈیننس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب عوامی تحریک کے سربراہ ایاز پلیجونے14 اکتوبر کو سندھ کی اہم شاہراہیں دھرنے دے کر بلاک کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوم پرست جماعتیں اپنے احتجاج میں شدت لاکر حکومت پر دباﺅ میں اضافہ کررہی ہیں، تاکہ حکومت قوم پرست جماعتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے مگر عملی طور پر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہاکیوں کہ پیپلزپارٹی کو قوم پرست جماعتوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ اگرچہ چند شاہراہیں بلاک کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں، لیکن انتخابات میں انہیں ووٹ نہیں ملتے جس کے باعث قوم پرست جماعتیں پارلیمانی سیاست میں کھل کر اپنا کردار ادا نہیں کر سکتیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھ کا پڑھا لکھا اور مہذب طبقہ تو قوم پرستوں کے ساتھ ہے، اسی لیے تعلیمی اداروں کی بندش کے ذریعے و ہ ان کا بھر پور ساتھ دے رہا ہے لیکن عوام میں ان کی جڑیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سندھ میں دہرے بلدیاتی نظام کے نفاذ پر قوم پرست جماعتیں احتجاج کرکے پوائنٹ اسکورنگ تو کررہی ہیں، لیکن حکومت سمیت ان جماعتوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار اپنے سندھی بھائیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ سیل کے مطابق بارشوں میں 400 افراد جاں بحق اور 40 لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ اس افتاد سے نمٹنے کے لیے کسی نے بھی کچھ نہیں کیا۔ کسی نے احتجاج کرکے ان متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیںکیا۔ کسی نے انہیں خیمہ دیا اور نہ ہی ان کی امداد کے لیے عملی اقدامات کیے۔ یہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

مسلم لیگ ن نے بلدیاتی نظام کے معاملے پر اگرچہ قوم پرست جماعتوں کی بھر پور حمایت کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان قوم پرست جماعتوں کے پاس اپنی سیاست کے لیے کچھ نہیں ہے تو یہ ن لیگ کو کیا دیں گی؟ ن لیگ سندھ میں اپنے قدم مضبوطی سے جماکر پیپلزپارٹی کے لیے مشکلات کھڑی کرنا چاہتی ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اتحاد نہیں کرنا چاہتی، کہ لندن میں اے پی سی کے موقع پر پی پی اور ن لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے ایم کیو ایم سے بائیکاٹ کرنے اور مستقبل میں اس کے ساتھ اتحاد نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ پیپلزپارٹی تو میثاق جمہوریت کو دفن کرچکی، رہی مسلم لیگ ن، تو اس نے ایم کیو ایم کے رہنماﺅں کے ساتھ ماضی قریب میں ملاقات کرکے انہیں حکومت مخالف کیمپ میں شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن حکومت اور متحدہ کے مذاکرات کی کامیابی اور بلدیاتی نظام پر اس کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب ن لیگ قوم پرستوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتی ہے مگر تاحال اسے کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

دوسری جانب بلدیاتی نظام کے معاملے پر حکومت کی اتحادی جماعتیں اے این پی، مسلم لیگ (فنکشنل)، این پی پی و دیگر حکومت سے الگ ہوگئی ہیں جن کے ارکان اسمبلی استعفے تاحال منظور نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ محسو س ہوتی ہے کہ صدر زرداری انہیں دوبارہ حکومتی اتحادی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی آیندہ 5 سال کے لیے بھی اقتدار میں آئے۔ پیپلزپارٹی کے لیے مشکل یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ، فنکشنل لیگ، اے این پی کے بغیر سندھ کی حد تک اس کے لیے دوبارہ اقتدار کا حصول مشکل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے ”مفاہمت“ کی سیاست کا بیڑا اٹھاکر سندھ میں دہرا بلدیاتی نظام رائج کردیا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ کے آبائی شہر خیر پور کو بھی میٹروپولیٹن کا درجہ دے دیا گیا ہے جس کے باعث خیر پور کی آٹھوں تحصیل (کلنگہ، گمبٹ، کوٹ ڈیجی، نارو، سوبھو ڈیرو،میر واہ اور فیض گنج) کوٹاونز کا درجہ مل گیا ہے۔ اس طرح اب صوبے کے 6 اضلاع کراچی،حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر، لاڑکانہ اور خیر پور میں میٹروپولیٹن کارپوریشن اور باقی 17 اضلاع میں ضلع کونسلوں کا نظام ہوگا۔

بلدیاتی آرڈیننس کی سندھ اسمبلی سے منظوری کے وقت پیپلزپارٹی کے 6 ارکان اجلاس سے غیر حاضر رہے جب کہ دیگر متعدد ارکان بادل نخواستہ شریک ہوئے۔ بلدیاتی آرڈیننس پر اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے صدر زرداری نے سراج درانی کو ٹاسک دے دیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (فنکشنل)، اے این پی اور این پی پی کے تحفظات دور کرکے دوبارہ حکومتی کیمپ میں لانے کے لیے کردار ادا کریں۔ اس سلسلے میں جمعے کے روز رات گئے پیپلزپارٹی سندھ کور کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں صدر زرداری نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی ہدایت کرتے ہوئے بلدیاتی نظام میں ترمیم کا بھی عندیہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر بلدیاتی نظام میں ترمیم کی جاسکتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تمام اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلیں، اجلاس کے دوران یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ 15 اکتوبر کو بلدیاتی نظام کی حمایت میں حیدرآباد میں بڑا جلسہ کیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کو منانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے، ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے لیے کس حد تک جانے پر تیار ہوتی ہے؟
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86304 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.