سیاست سمیت زندگی کے مختلف شعبہ
جات میں انسان کوکامیابی جہدمسلسل سے ملتی ہے ۔سیاست ایسا شعبہ ہے جہاں
جمہود یاٹھہراﺅ نہیں ہوتااورنہ دوست یادشمن مستقل ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں
رائج سیاست سانپ اورسیڑھی والے کھیل کی طرح ہے اگرقسمت انسان کاساتھ دے
تووہ سیڑھی سے ایک دم بہت اوپرجاپہنچتا ہے اوراگربدقسمتی کادورشروع ہوجائے
تونناوے پرجاکرسانپ کے ڈسنے سے وہ دوبارہ زیروپوائنٹ پرآجاتا ہے۔سیاست میں
کوئی کسی گرے ہوئے ساتھی کونہیں اٹھاتا اورنہ کوئی گھرمنانے آتا ہے بلکہ
پچاس لوگ اس کی خالی جگہ پرکرنے کیلئے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں ۔تاہم کچھ
باہمت اورخوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جواپنے کام اور عزم واستقلال کی بدولت
دوسروں کی ضرورت اورمجبوری بن جاتے ہیں۔سیاست میں شارٹ کٹ اورچورراستہ بھی
ہوتا ہے تاہم سیاست میں قدم جمانے کیلئے صرف وراثت کام نہیں آتی بلکہ
قابلیت اورصلاحیت کاہونابھی اشدضروری ہے ۔سیاست کے میدان میںشروع دن سے
زوال عروج کاتعاقب کرتا ہے اوردشمن سے زیادہ سیاستدانوں کے دوست نمادشمن ان
کی بربادی کاسامان کرتے ہیں۔سیاستدانوں کاکئی بارکڑے امتحان سے گزرناپڑتا
ہے ۔
بابراعوان بلاشبہ قومی سیاست کے ایک منفرداورممتازکردارہیں ۔ان سے اختلاف
کے باوجود ان کی شخصیت کااعتراف کیا جاتا ہے۔سیاست میں اپنے قائدین
اورساتھیوںکے تنازعات کاحصہ بنے بغیر نہیں رہاجاسکتا۔بابراعوان نے نہ صرف
صدرآصف زرداری کابھرپوردفاع کیابلکہ ان کے دشمنوں پربھی بار بارکاری ضرب
لگائی۔بابراعوان اورصدرزرداری کے درمیان فاصلے پیداہونے کے بعداب صدارتی
کیمپ میں کوئی ایسانہیں جو والہانہ اندازسے صدرزرداری کے گیت گائے
اورجارحانہ اندازسے صدرزرداری کے دشمنوں کوللکارے اوران پرحملے
کرے۔بابراعوان کی صدرآصف زرداری کیلئے وفاداریاں اورپیپلزپارٹی کیلئے
توانائیاں تمام ترشکوک وشبہات سے ماورا تھیں۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں''جس
کواپنے چھوڑدیتے ہیں وہ غیروں کے ہاتھ لگ جاتا ہے''۔یہ ابھی کل کی بات ہے
بابراعوان کاشمار صدرزرداری کے معتمد ترین مشیروں میں ہوتا تھا مگرآج دونوں
کے درمیان غلط فہمی کی اونچی دیوارحائل ہے اوریہ دیوار تعمیرکرنیوالے کوئی
نہیں بلکہ ان دونوں کے مشترکہ دوست ہیں جوبابراعوان کی کمٹمنٹ اورکارکردگی
سے خوفزدہ تھے۔سیاست میں دوسرے کوگرانے اوراپنا مقام بنانے کیلئے انتہائی
اوچھے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا ''رشتے خون کے نہیں
احساس کے ہوتے ہیں اگراحساس ہوتواجنبی بھی اپنے ہوجاتے ہیں اوراگراحساس نہ
ہوتواپنے بھی اجنبی ہوجاتے ہیں'' ۔ہوسکتا ہے آنیوالے دنوں میں بابراعوان
کوصدرآصف زرداری کی دوستی کامزیدخمیازہ بھگتناپڑے مگروہ اب بھی صدرزرداری
کیلئے اجنبی نہیں ہیں۔ بابراعوان کوان دنوںتوہین عدالت کے تحت کاروائی
کاسامنا ہے تاہم وہ بار بار غیرمشروط معافی مانگ رہے ہیں مگرانہیں معاف
نہیں کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ عدلیہ کے تقدس کی دھجیاں بکھیرنے
میں مصروف ہیں مگر ان کے چہروں پرندامت یاشرمندگی کے کوئی آثار نہیں
ہیں،تاہم شرافت سے جھکاہواسرندامت سے جھکے ہوئے سر سے بہتر ہے۔جولوگ قانون
شکنی کے باوجود اتراتے ہیں ان کی گرفت ضرور ہونی چاہئے لیکن اگرکوئی
غیرمشروط معافی مانگتا ہے تواسے ضرورمعاف کردیا جائے ۔معافی مانگنا اورمعاف
کرنابلاشبہ اعلیٰ ظرفی اوروسعت قلبی کے زمرے میں آتا ہے ۔معافی وہی مانگتا
ہے جس کواپنی غلطی کااحساس ہوجائے اورکچھ معاملات میں صرف معافی سے تلافی
ہوجاتی ہے ۔امیرالمومنین حضرت علیؓ فرماتے ہیں '' گناہ پرندامت گناہ
کومٹادیتی ہے جبکہ نیکی پرغرورنیکی کوتباہ کردیتا ہے ''۔امام غزالیؒ فرماتے
ہیں''جوغلطی نہیں کرسکتا وہ فرشتہ ہے،جوغلطی کرکے اس پرڈٹ جائے وہ شیطان ہے
اورجوغلطی کرکے فوراً توبہ کرلے وہ انسان ہے ،جوتوبہ کرکے اس پر استقامت
کامظاہرہ کرے وہ اللہ پاک کامحبوب بندہ ہے''۔شیخ سعدی ؒنے فرمایا '' جس میں
برداشت کی قوت نہیں وہ سب سے زیادہ کمزوراورسب سے بڑابیوقوف ہے''۔واصف علی
واصف ؒ کاقول ہے ''ہم دوسروں کیلئے تواعمال کے مطابق سزاپراپنے لئے معافی
اوررحم چاہتے ہیں''۔
بابراعوان ایک پروفیشنل قانون دان ہیں اوروکالت ہی ان کاذریعہ معاش ہے تاہم
وہ عدالت کی طرف سے لگائی جانیوالی پابندی کے نتیجہ میں کافی مہینوں سے
وکالت نہیں کرپارہے اوریقینا اس قدغن سے ان کے اہل خانہ کی ضروریات
متاثرہورہی ہیں۔میں سمجھتاہوںبنیادی انسانی حقوق اورانسانی ہمدردی کی بنیاد
پربابراعوان کی معذرت قبول کرتے ہوئے ان کالائسنس بحال کیا جائے۔ دنیا
کاکوئی مہذب ملک اورمعاشرہ کسی انسان کے معاشی قتل یااستحصال کی اجازت نہیں
دیتا،ہمارے دین فطرت اسلام میں بھی اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔عدلیہ نے
کئی معاملات میں نرمی کامظاہرہ کیا ہے ،بابراعوان کے معاملے پربھی انسانی
ہمدردی کی بنیادپرغورکیا جائے۔سرورکونین حضرت محمد کافرمان ذیشان ہے ''جوآدمی
نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا وہ سارے خیرسے محروم کیا گیا''۔
بابراعوان جہاں مخلص دوستوں کے معاملے میں خوش نصیب اور خودکفیل ہیں وہاں
انہیں دشمنوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ اس دنیا میںجس انسان کاکوئی دشمن نہ ہو
وہ دوستی کی صفات اوراہمیت سے آشناہوتا ہے اورنہ سچے دل سے دوستی کی
قدرکرتا ہے۔بابراعوان کودوستی اوردشمنی کے معیارپرپورااترنے کاہنرآتا ہے،وہ
دوستی اوردشمنی کے معاملے میں کسی مصلحت پسندی یامنافقت کامظاہرہ نہیں کرتے
۔دوسروں کی طرح بابراعوان کی شخصیت کے کچھ خانوں سے کئی انسانوں کی طبیعت
میں اضطراب اوراشتعال پیداہوتا ہوگا تاہم مجموعی طورپروہ ایک منجھے ہوئے
اوردھڑے بازانسان ہیں ۔جس وقت ان کے دوست کوان کی ضرورت تھی اس وقت
بابراعوان نے سودوزیاں اوراپنے سیاسی مستقبل کی پرواہ کئے بغیر اپنے محسن
اوردوست کابھرپور اندازسے ساتھ دیااورہرفورم پراپنی تمام تر توانائیوں کے
ساتھ اپنے دوست کے حق میں آوازبلندکرتے رہے مگردوستوں کے درمیان غلط فہمی
پیداکرنیوالے نقاب پوش کرداروں نے بابراعوان کی وفاداری اورسمجھداری کوان
کی غلطی بناکر پیش کیا اوریوں دومخلص دوستوں کے درمیان گرمجوشی عارضی
طورپرسردمہری میں بدل گئی مگردبنگ بابراعوان کی خاموشی کے بعدسے اب تک
صدارتی کیمپ میں کوئی بابراعوان کامتبادل منظرعام پرنہیں آیا۔لوگ بابراعوان
کے کاٹ دارجملے انجوائے کرتے تھے ۔جس طرح صدرمملکت آصف علی زرداری نے اچانک
اپنے دیرینہ رفیق ڈاکٹرذوالفقارمرزاکواپنے گلے لگالیا اور ان کے درمیان گلے
دورجبکہ ان کے سانجھے دشمن پریشان ہوگئے ہیں اس طرح پیپلزپارٹی کے شریک
چیئرمین کسی روزبابراعوان کوبھی گلے لگاسکتے ہیںکیونکہ سیاست میں
باوفااورباصفادوست کسی وقت بھی آپ کی ضرورت بن سکتے ہیں۔
سیاست میں انسان کوقدم قدم پر حسد،تعصب ،سازش اورانتقام کاسامنا کرناپڑتا
ہے۔ بابراعوان نے وفااورقابلیت کا امتحان میں توامتیازی نمبروں سے پاس
کرلیا مگراس دوران وہ اپنے کچھ ساتھیوں کی حسداورسازش کانشانہ بن گئے تاہم
جس نے ان کیلئے گڑھاکھوداتھا وہ آج خودبھی ایک بندگلی میں ہے۔ ''تخت
اورتختہ دار کے درمیان انتہائی باریک سافرق ہوتا ہے''نہ جانے ہم یہ بات
کیوں فراموش کردیتے ہیں۔اچھے اوربرے دنوں میں انسان کواپنے اچھے اوربرے
دوستوں کے ساتھ ساتھ بااصول اوربے اصول دشمن کی شناخت بھی ہوجاتی ہے ۔جواپنے
اچھے وقت میں دوسروں کے ساتھ اچھابرتاﺅکرتا ہے وہ کبھی تنہا نہیں
ہوتا۔بابراعوان کاشمار ان زیرک سیاستدانوں میں ہوتاہے جس کوزندہ دیوار میں
نہیں چنا جاسکتا۔ خداداد صلاحیتیں انسان کے اندر ہوتی ہیں جوکبھی زنگ آلود
نہیںہوتیں۔بابراعوان کی سیاسی سوچ اورسیاسی وابستگی سے اتفاق کرنا ضروری
نہیں تاہم ان کااندازسیاست جانداراورشاندار ہے۔بابراعوان سیاست کے طلبہ
وطالبات کیلئے ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اگربابراعوان کوپیپلزپارٹی
سے الگ کرکے دیکھا جائے توکوئی ان کی شخصیت سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتا
۔میں ان کاسیاسی مستقبل روشن دیکھ رہا ہوں وہ عنقریب پھرسے دوسروں کی ضرورت
بن جائیں گے۔ |