پاکستان ان دنوں اللہ کے قہر کا
شکار ہے کہیں سیلاب لوگوں کو ماررہاہے اور انہیں بے گھر کررہاہے اور کہیں
آگ زندہ انسانوں کو جلاکر راکھ بنارہی ہے اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ
پاکستان کے عوام کو ان تمام مشکلات اورمسائل سے نجات دلائے لیکن اگر ہم
حقیقت کی نظرسے دیکھیں تو ہمیں ان مشکلات میں بھی اپنا ہی جرم نظرآئے گا
کیوں کہ ہم نے اورہمارے سیاستدانوں نے اپنی نالائقیوں اور بداعمالیوں سے
خود ہی ان عذابوں کو دعوت دی ہے کیوں کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ پوری قوم رشوت
اورحکمران طبقہ کرپشن جیسی لعنت میں مبتلا ہوچکاہے پورے معاشرے میں یہ سوچ
پیداہوچکی ہے کہ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا ایک چھوٹا ساکام جوجائز
بھی ہواسے کروانے کیلئے رشوت کا سہارا لیناپڑتا ہے اور اگر کوئی شخص رشوت
دینے سے انکارکردے تو اسے اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ بیچارہ تھک ہار
کر رشوت دے کر اپنا کام نکلوانے پر مجبورہوجاتا ہے رشوت دے کر کام
کروانازندگی کاایک معمول بن چکا ہے کیوں کہ کبھی بھی اس بڑی خرابی پرعوام
کی طرف سے احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا دوسری جانب ایک معمولی کلرک سے لے
کروزیراعظم تک کرپشن ایک ثواب کاکام سمجھ کرکرتے ہیں اخباری ذرائع کے مطابق
ملک میں روزانہ 5سے 7ارب کی کرپشن ہورہی ہے اس کی صاف وجہ یہی ہے کہ جس طرح
عوام نے رشوت کو روٹین کا حصہ سمجھ لیا ہے بالکل اسی طرح لاکھوں روپے دے کر
نوکری حاصل کرنے والے افسران ،اورکروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کرنے والے ایم
این ایز،ایم پی ایزاوروزرابھی کرپشن کو اپنا حق سمجھنے لگ گئے ہیں بلکہ اب
تو پرانی پارٹیوں میں موجودسیاسی لوگوں نے اپنی اولادوں کو بھی کرپشن کے گر
سکھانے کیلئے سیاست میں introduceکروانا شروع کردیا ہے اور پھراپنے ان
لاڈلوں اوراپنے چہتوں کو نوازنے کیلئے عوامی خدمت کے نام پر آئے روز کئی
منصوبے متعارف کروائے جاتے ہیں جن میں اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن
آخر میں نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے ہاں البتہ ان منصوبوں سے حکومت میں شامل کئی
چہتے ضرور مالامال ہوجاتے ہیں ایسے منصوبوں میں سستی روٹی پروگرام کےلئے
35ارب،پنجاب فوڈپروگرم کے تحت 14ارب روپے خرچ کئے گئے جس سے عوام کو کوئی
فائدہ نہ ہوسکا اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی کرپشن کی
اطلاعات روزاخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں یہ اسی کرپشن کانتیجہ ہے کہ
پاکستان کاشمار ٹاپ کرپٹ ممالک کی فہرست میں روزبروزاونچاہوتاجارہاہے اب
سوال یہ ہے کہ اس کرپشن کو روکا کیسے جائے اور ان رقوم کو جو قوم کی امانت
ہوتی ہیں اور عوامی ٹیکس سے اکٹھی ہوتی ہیں کیسے ان کوڈوبنے سے بچایا جائے
اس ضمن میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اگرچہ بہت اہم کردار داکرتے ہوئے
چارسالوں میں 116ارب روپے کی رقوم Recoverکرکے قومی خزانے میں جمع کروائی
ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ وصول کی جانیوالی رقم اس بڑی رقم کے مقابلے میں
بہت کم ہے جو آئے روز کرپشن کی صورت میں عوام کی جیبوں سے نکل کر کرپٹ اور
بے ایمان بیوروکریسی کی جیبوں میں جارہی ہے اس کیلئے ایک بہترین حل موبائل
عدالتوں کا قیام ہوسکتا ہے جن میں کمشنر سے لے ہائیکورٹ کے جج تک تمام
افراد کی نمائندگی ہو جو تمام محکموں کو ہنگامی طور پر چیک کرے اور موقع پر
ہی ملزمان کو سخت سزائیں سنائیں اوراس کیلئے کسی قسم کی رعائت اور سفارش
کوقطعی تسلیم نہ کیا جائے اس قدم سے نہ صرف عدالتوں پر موجود ہزاروں چھوٹے
چھوٹے مقدمات کا بوجھ کم ہوجائے گا بلکہ عوام کو بھی فوری اور سستاانصاف ان
کے دروازے پر مل جائے گا اور تمام محکموں سے رشوت کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکتا
ہے۔ |