بلدیاتی نظام کا قصہ گزشتہ ساڑھے
چار برسوں میں کئی بار سننے میں آیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بار پھر سندھ میں
بلدیاتی آرڈیننس جاری کرکے رونق میلہ لگانے کی کوشش کی گئی تھی، بعض کی نظر
میں بلدیاتی نظام کی خوشبو سوندھی سوندھی ہے، جب کہ دوسرے بہت سارے قوم
پرست جو واقعی قوم پرست ہیں، ان کے نزدیک بھی اورمذہبی و دیگر سیاسی
جماعتوںکے بہت سارے رہنما متفقہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات کا مزا
کِر کرا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، بلکہ بعض تو بہت سخت موقف سے سامنے آئے
ہیں، جن کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پاکستان توڑنے کی ابتدا کردی ہے۔جبکہ
خود پیپلز پارٹی کے بعض رہنما ﺅ ں نے بھی اس مجوزہ بلدیاتی نظام کی مخالفت
کی ہے۔
مون سون گوکہ ختم ہوگیا ہے اور انتخابی موسم کی بوند ا باندی شروع ہوچلی ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انتخابات کی بات ہو اور پھر بلدیاتی نظام کو یاد نہ
کیا جائے؟ جنہیں گزشتہ انتخابات میں کچھ نہ ملا تھا یا انہوں نے انتخابات
میں حصہ نہیں لیا تھا، وہ بھی ساڑھے چار سال سے انتظار کا ”کشٹ“ کاٹ رہے
ہیں کہ کب انتخابی میلہ سجے اور وہ بھی بھنگڑے ڈالیں۔ مگر انتخابات سر پر
آچکنے کے باوجود دور جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سندھ میں بلدیاتی آرڈینس کے اجرا نے ہلچل مچادی ہے۔ سندھ حکومت کے اتحادی
بھی ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن میں جابیٹھے لیکن صدر زرداری بھی خوب جانتے ہیں
کہ کس اتحادی کو کس حد تک خوش رکھنا ہے اور کس کی ناراضی کا متحمل ہونا ہے۔
ادھر پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑنے والے اتحادی بھی ”سندھ بچاﺅ کمیٹی“ کے تحت
جمع ہوگئے جن کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس سے سندھ ٹوٹنے کا خدشہ ہے
اورپیپلزپارٹی نے سندھ توڑنے کی ابتدا بھی کردی ہے۔ ان سب جماعتوں، جن میں
سندھ کی قوم پرست جماعتیں، سیاسی اور مذہبی جماعتیں شامل ہیں، نے باقاعدہ
عوامی حلقوں کارخ بھی کرلیا ہے، اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ہڑتال بھی کی گئی
۔
سندھ بچاﺅ کمیٹی کے تحت سندھیوں کو بیدار کرنے کے لیے اب ہر اتوار سندھ کے
کسی نہ کسی بڑے شہر میں تمام جماعتوں کا متفقہ ایک جلسہ ہوا کرے گا۔ ظاہر
ہے اس سے بھی عوام میں بلدیاتی نظام کے خلاف اشتعال پیدا ہو گا۔ سندھ بچاﺅ
کمیٹی نے اس اتوار کو ٹھٹھہ سے احتجاج کے آغاز کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اور
ہر بدھ کو ”ٹوکن ہڑتال“ کہ جس میں عوامی نقصان کی بجائے، کاروباری اور نجی
سطح پر احتجاج کیا جائے، حکومتی سطح پر بڑے احتجاج مگر مختلف طریقے سے کرنے
کا بھی عندیہ دے دیا ہے اور اس کا آغازبھی بدھ کے روز پورے سندھ کے تمام
اضلاع کی تمام بڑی سڑکیں بند کرکے کیا جائے گا۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ
کراچی پریس کلب پر بھی ہفتہ میں ایک دن کیمپ لگایا جائے گا۔
وقت نکالنے اور گزارنے کا ہنر اہل سیاست خوب جانتے ہیں، مگر صدر زرداری اس
میں خوب ماہر ہیں اور اس کے گواہ گزشتہ ساڑھے چار سال ہیں۔ بلدیاتی نظام کے
گڑے مردے کو وقفے وقفے سے زندہ کرنا، سیاسی سرد خانے سے باہر لانا اور
تھوڑی بہت ”بلی“ چڑھا کر دوبارہ عارضی موت کی نیند سلانا، صدر زرداری کا ہی
خاصہ ہے۔ بلدیاتی نظام کی بلی ایک بار پھر تھیلے سے باہر تو آئی ہے۔ جس سے
شور شرابا ابھی اتنا نہیں بڑھا جتنا آنے والے دنوں میں بڑھے گا۔
اس بلدیاتی نظام کے تحت وجود میں آنے والے میئر ظاہر ہے کسی نہ کسی سیاسی
پارٹی سے ہی ہوں گے، پھر انہی کے رحم و کرم پر ثقافتی ادارے، صحت کے ادارے،
ہسپتال، تعلیمی ادارے مثلاً پرائمری اسکول وغیرہ ہوں گے، پھر ان اسکولوں
میں اساتذہ کی بھرتیاں اور پھر انہی اساتذہ کی ڈیوٹیاں بھی ہوں گی،
انتخابات کے دوران.... پھر ”جس کا کھائے اسی کا گائے“ والی بھی بات ہوگی۔
ریونیو، امن و امان کے اداروں تک بھی رسائی ہوگی، پبلک ہیلتھ، کوآپریٹو
بمشول محکمہ پولیس، عدالتی اختیارات بھی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے حوالے
ہوں گے۔
اب آنے والے وقت پر منحصر ہے کہ سیاسی چولہے پر چڑھائی گئی بلدیاتی نظام کی
دیگ کے نیچے آنچ تیز ہی رہتی ہے یا مدھم ہو کر بالآخر بجھ ہی جاتی ہے....
انتخابی دال میںبلدیاتی نظام کا تڑکا شور پیدا کرے گا یا نہیں؟ بہرحال
سیاسی جماعتوں کی اکثریت بلدیاتی نظام کی مخالف نظر آرہی ہے اور وقت ہے کہ
تیزی کے ساتھ بڑھتاچلا جارہا ہے، فیصلہ کن مرحلے کی جانب! |