پاکستانی عوام کو درپیش مسائل
میں سے صرف ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ۔
اب تک حکومت کو سب سے زیاد جوہ عوامی مزاحمت کا سامناکرنا پڑا ہے اسی مسئلہ
کی بنیاد پر کرنا پڑ رہا ہے۔ توانائی کے بحران نے عوام کی روزمرہ زندگی کی
مشکلات میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اقتصادیات و معیشت پر بھی انتہائی
خطرناک اثرات مرتب کرنا شروع کردیئے ہیں اور اگر اس بحران پر جلدی قابو نہ
پایا گیا تو وہ وقت دور نہیںجب ملک میں بھوک اور فاقہ کشی کا دوردورہ ہو۔
ہمارے ہرے بھرے اور لہلہاتے ہوئے کھیت اور کھلیان پانی نہ ملنے کی وجہ سے
ریگستان میں بدل جائیںاور ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے مقدراندھیروں
میں ڈھل جائیں۔ پھر توانائی کے اس بحران کی وجہ سے عاجز آئے ہوئی عوام خانہ
جنگی پراتر آئے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قدرتی وسائل کی نعمت سے مالا مال ہونے کے باوجود
ہمارے کسی بھی حکمران نے توانائی کے مستقل بنیادوں پر حصول کی کوئی منصوبہ
بندی نہیں کی جس کی سزا آج عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ گزشتہ چار سال سے
جاری بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے اس ملک کی بنیادیں ہلاکر
رکھ دی ہیں۔ عوام کو لوڈشیڈنگ کی تکلیف کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے جبکہ
اس لوڈشیڈنگ کے نتیجہ میں صنعتیں تجارتی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہونے
کے باعث بھی عوام براہ راست اس بحران کی زد میں آتے ہیں کیونکہ صنعتیں اور
کاروباری ادارے بند ہونے سے لازمی طور پر بے روزگاری، غربت اور مہنگائی میں
اضافہ ہوتا ہے جبکہ مزدور اور سرکاری ملازمین بھی اس بحران سے متاثر ہوئے
بغیر نہیں رہ سکتے ۔ لوڈشیڈنگ کے دوران رات کے وقت چوری اور ڈکیتی کی
وارداتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی
جانب سے اس بحران پرزبانی کلامی تو بہت اقدامات کئے گئے ہیںمگر حقیقت میں
ایسا کچھ نہیں کیا گیاما سوائے اس کے کہ ہفتے میں دو چھٹیوں اور رات کے آٹھ
بجے مارکیٹیں بند کرانے کے جبری اقدام۔مگر اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کوئی
خاص کمی واقع نہیں ہوئی۔جبکہ اس کے برعکس ان عارضی اقدامات نے عوام کیلئے
اورزیادہ مسائل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انکی ذہنی اذیت میںبھی مزید اضافہ
کیا۔ حکومت کے لوڈشیڈنگ پر اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے گلیوں بازاروں اور
سڑکوں پر عوامی ردعمل کی صورت میں بڑے زور و شور سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔
پاکستانی عوام کی سوچ لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور زمینوں کے لیے پانی حاصل کرنے
کا واحد علاج کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سوا کوئی دوسرا مستقل حل نظر نہیں
آتا ۔
اس لئے جب ہمارے پاس اس بحران سے نبٹنے کا ایک ہی حل ہے تو پھر حکمران طبقہ
اپنے اپنے مفادات کی خاطرقومی ترقی و بقا ءکے اس منصوبے کو سیاست کی نذر
کرنے پر کیوں تلا بیٹھا ہے اور جب اقتدار سے فارغ ہوجاتاہے تو پھر عوام کو
بیوقوف بنانے کے لیے کالا باغ ڈیم ایشو کیا اٹھاتاہے۔اگرپاکستانی کی فلاح
اس ڈیم کی تعمیر میں ہے تو یہ لوگ کیوں اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے پیدا
نہیںکرتے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر صرف توانائی کے ذرائع میں اضافہ کرنے کے
لئے ہی ضروری نہیں بلکہ پاکستان کو خوراک و زرعی پیداوار میں خود کفالت کی
منزل تک پہنچانے کے لئے بھی انتہائی اہم ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کالا
باغ ڈیم کی عدم تعمیر کے باعث 26.1ملین ایکڑ فٹ بارش کا پانی ہر سال سمندر
میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے اوراگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہو جائے تو پھر
6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکتاہے۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے صوبہ
سندھ کی8 لاکھ ایکڑ، سرحد کی 4 لاکھ 40 ہزار ایکڑ، بلوچستان کی5 لاکھ10
ہزار ایکڑ اور صوبہ پنجاب کی6 لاکھ80 ہزار ایکڑ اضافی زمین زیر کاشت کی
جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا باغ ڈیم جیسے فقید المثال منصوبہ
سے ملک میں زرعی انقلاب آجائیگا۔ زرعی مفادات کے ساتھ ساتھ اس منصوبے سے
3600میگاواٹ سستی اضافی بجلی حاصل ہوگی۔ کالا باغ ڈیم تعمیر ہو جائے تو
تربیلا ڈیم اور کالا باغ ڈیم کے مشترکہ عمل سے تقریباً 5800میگاواٹ سستی
اضافی بجلی حاصل ہوگی جو ملک میں صنعتی انقلابی اقدام کا پیش خیمہ ثابت
ہوگی۔
پاکستان میں توانائی کے اس بحران پر صرف کالا باغ ڈیم تعمیر کرکے ہی قابو
پایاجاسکتا ہے۔اس ڈیم کی حقیقت کا ہمارے ازلی دشمن اور حکمرانوں کے دوست
بھارت کو بھی بخوبی احساس ہے اس لئے وہ بھی کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر عمل
درآمد نہ کرنے کے لیے اپنے وسائل اور سازشی عناصربروئے کار لا رہا ہے جس نے
خاص طور پر سندھ میں اپنی سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ اس ڈیم کی مخالفت
اور پراپیگنڈہ کرنے کے لئے سندھی قوم پرستوں کوبھارتی ایجنسی استعمال کررہی
ہے۔ اس لیے اس لابی کی جانب سے مسلسل یہ آواز بلند کی جا رہی ہے کہ کالا
باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں سندھ کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔ اس کے
ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ میں گاندھی کے پیروکاروں کی جانب سے اسی بھارتی
ایجنڈے کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی جارہی ہے اور یہ گمراہ کن
شوشہ پھیلا رکھا ہے کہ اس سے نوشہرہ اور صوبے کے کئی دوسرے شہر ڈوب جائیں
گے جبکہ خود صوبہ پختونخواہ کے آبی ماہرین اور انجینئرز ان زہریلے
پراپیگنڈوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔
اس وقت کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔عوامی رائے کے مطابق تو اس منصوبے پر شروع دن سے ہی اتفاق رائے قائم ہو
جانا چاہئے تھا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سندھ طاس معاہدے کی روشنی
میں ہمیں کالاباغ ڈیم سمیت ہر چھوٹے بڑے ڈیم کو تعمیر کرلینا چاہئے تھا مگر
ہماری حکومتیں اور سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنے اپنے
مفادات کے تحت کالاباغ ڈیم کے حق اور مخالفت میں آوازیں بلند کرنے میں
مصروف رہے۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ کالاباغ ڈیم تعمیر نہیں ہو ا تو ہم وقت کے
تقاضوں کے مطابق بڑھتی ہوئی بجلی کی ضرورت کیسے پوری کرینگے؟ اگر قومی
تعمیر و ترقی کا جذبہ سیاست دانوںمیں ہوتا تو نہ خیبر پختونخواہ سے اس ڈیم
کو بم مار کر اڑانے کے زہریلے نعرے لگتے اور نہ ہی سندھ قوم پرستوں کو اس
ڈیم کی مخالفت میں اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملتا۔ بدقسمتی سے جن فوجی اور
سول حکمرانوں کو اپنے اپنے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے قومی
اتفاق رائے کی فضا قائم کرنے کا موقع ملا انہوں نے بھی اس موقع سے فائدہ نہ
اٹھایا اور اس کالا باغ ڈیم کوہمیشہ طرح سیاست کی نذر ہونے دیا۔ یہ انتہائی
افسوسناک صورت حال ہے کہ ہمارے پاس بھارتی آبی دہشت گردی کا بھی کوئی توڑ
نہیں اس کا حل صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے کالا باغ ڈیم کا بننا ہے ۔ اگر ہم
کالا باغ ڈیم بنا لیں تو پاکستان کی آنے والی نسلوں کو پانی کی قلت ، بے
روزگاری ، معشیت کی تباہی اور زمینوں کو غیر آباد ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔
اس کی تعمیر میں میڈیا (الیکٹرانک، پرنٹ، آن لائین) ، سیاستدانوں، آرمی،
سوشل سوسائٹی کے لوگوں، کالمسٹ اور ہر پڑھے لکھے فرد کو اپنا اپنا حق ادا
کرنا چاہیے اور عوام کو اس کی افادیت بتانی چاہیے کیونکہ اگر یہ ڈیم نہ
بنایا گیا تو یہ مجبوری نہیں بلکہ ایک مجرمانہ غفلت ہوگی ۔ جسکی ذمہ داری
ہم سب پر عائد ہوگی۔ |