مسیحا یا قاتل؟

جس بھی ہسپتال یا کلینک پر چلے جائیں مریضوں سے زیادہ میڈیکل ریپ لائن بنائے ڈاکٹرصاحب سے ملنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ہسپتال میں نصب ٹی سیٹ پر نظر پڑے، ایل سی ڈی ہو یا فریج ہر ایک پر کسی نہ کسی دوا ساز کمپنی کا مارکہ لگا ہوگا۔اس کے علاوہ کلینک کا اے سی، فرنیچر اور دیگر سازوسامان بھی کسی نہ کسی دوا ساز کمپنی کا سپانسر ہوتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر صاحب کے زیر استعمال کار بھی دوا ساز کمپنی کا تحفہ ہوتا ہے۔یہ معاملہ تو پرائیویٹ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے نجی کلینک کا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے منتظمین پر دوا ساز کمپنیوں کی عنایات کا شمار کرنا مشکل ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک دوست نے یہ واقعہ سنایا کہ ہمارے ایک جاننے والے مریض کو دل کا مرض لاحق تھا اور انہیں دل میں سٹنٹ لگوانا تھا ۔ مختلف جگہوں سے علاج معالجے کے اخراجات کا تخمینہ لگوایا گیا۔دوستوں سے مشورے کے بعد کوشش کی گئی کہ کسی دوا ساز کمپنی سے رابطہ کرکے سٹنٹ اور دیگر ادویات میں ممکن حد تک رعایت لی جائے اور یہ رقم دوست احباب مل کر ادا کر یں۔ ایک دوا ساز کمپنی کے مینجر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ سٹنٹ اور ادویات کی قیمت کا پچاس فیصد آپریشن کرنے والا ڈاکٹر کمپنی سے بطور کمیشن وصول کرتا ہے۔جب ڈاکٹر کی دوا ساز کمپنی سے پس پردہ لین دین ہوگا تو وہ ایسے ہی آلات اور ادویات تجویز کرے گا جس میں کمپنی من پسند ریٹ عائد کرے گی ، جس کا پچاس فیصد ڈاکٹر صاحب جیب میں ڈال کر غریب مریض کے جیب سے اپنی مسیحائی نشتر کے ذریعے وصول کریں گے۔ یہ معاملہ صرف دل کے مریضوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر وہ مریض جو کسی ڈاکٹر (الا ما شاءاللہ) کے پاس جاتا ہے، اس سے مشورے کی فیس کے علاوہ جو بھی ادویات تجویز کی جاتی ہیں ، ان سب میں ڈاکٹر صاحب کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔

یہ لوٹ کھسوٹ صرف پاکستا ن میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کی جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں ایسی این جی اوز قائم ہیں جو ڈاکٹروں کے نسخوں کا جائزہ لے کر یہ ثابت کرتی ہیں کہ کون، کون سی ادویات مریض کو درکار نہیں تھیں محض ڈاکٹر نے کمیشن کھانے کے شوق میں تجویز کر دی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اکثر ڈاکٹر مریض کو دو صفحات پر مشتمل ادویات کی فہرست تھمادیتے ہیں اور ساتھ ہی ڈھیر سارے لیبارٹری ٹیسٹ اور ایکسرے کروانے کی فہرست بھی تھمائی جاتی ہے۔ خو د میرے ساتھ بھی ایک بار ایسا ہوا کہ اپنے بیمار بیٹے کو لے کر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے اپنے کلینک میں نئی،نئی الٹراساونڈ لگائی تھی۔ انہوں نے پہلے مجھے ادویات کا نسخہ لکھ کر دیا اور ساتھ ہی الٹراساونڈ کروانے کا حکم نامہ بھی دے دیا۔ میں نے ادویات کو بغور دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ جناب پہلے ادویات لوں یا پہلے الٹراساونڈ کرا لوں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کو یاد آیا کہ وہ کچھ عجلت سے کام لے چکے ہیں۔ تب میں نے ان کی تجویز کردہ ادویات لینے اور الٹراساونڈ کروانے سے معذرت کی اور دوسرے کلینک سے بیٹے کے لیے دوائی لے آیا۔

ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں لوٹ گھسوٹ کا رواج ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر جگہ انسانوں کو مختلف حیلوں اور طریقوں سے لوٹا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایک مسیحا کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو مریضوں کا علاج کرکے انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اگر اس روپ میں یہ مجبور اور نادار لوگوں تک شفقت اور ہمدردی کے روپ میں لوٹ لیتے ہیں تو پھر غریب کے لیے جینے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا ۔جب کوئی انسان کسی موذی مرض کا شکار ہو اور ڈاکٹر سے علاج کے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل راستہ بھی نہ ہوتو ایسے میں اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو پھر انسانیت، ہمدردی، مسیحائی اور صلہ رحمی جیسے الفاظ کو ہماری لغت سے خارج کردینے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ ڈاکٹروں کی فیس کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی قانون قاعدہ نہیں، جو جس قدر چاہے اپنی فیس خود مقرر کر لیتا ہے۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ ان کی تعلیم پر اس ملک کی قومی دولت سے کس قدر رقم خرچ کی گئی ہے۔

میں ایسے بھی ڈاکٹروں کو جانتا ہوں جو مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیںجو کمپنیوں سے ملنے والے ادویات کے نمونے غریب مریضوں کو مفت فراہم کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو محض برائے نام فیس پر اعلیٰ درجے کا علاج کرتے ہیں۔ اللہ جنت میں جگہ دے ڈاکٹر سلمان شہید کووہ اپنے شعبے میں پاکستان کے چند ایک ڈاکٹروں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں بیرون ملک سے بہت ساری آفرز موجود تھیں لیکن وہ اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔محض ایک سو روپے میں مریض کو چیک کرتے تھے، حالانکہ اس شعبے اور اس قابلیت کے دیگر ڈاکٹر ایک ہزار روپے فیس لیتے تھے۔ اگر کوئی مریض انہیں مالی طور پر کمزور لگے تو وہ سو روپے بھی چھوڑ دیتے تھے۔ نہ کوئی اضافی دوائی اور نہ غیر ضروری ٹیسٹ، وہ ایک فرشتہ تھے لیکن دنیا میں نہیں رہے۔ امریکی ڈراون حملے میں شہادت کا رتبہ پاچکے ہیں۔

ہمارے ہاں ایسے جرائم کی بیخ کنی کا کوئی ادارہ نہیں، اگر ہوگا تو وہ محکمہ انسداد رشوت ستانی کی طرح دیگر محکموں سے زیادہ رشوت خور ہوگا۔ ایسے ہی ہر شعبہ زندگی میں لوٹ مار جاری ہے۔ کوئی قانون بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتا کیونکہ قانون نافذکرنے والے بڑے مجرم ہوتے ہیں۔ ان ساری برائیوں کا علاج اسلامی نظام حیات اختیار کرنے اور اسے پوری ریاست پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک قوم نفاذ اسلام کے ایجنڈے پر متفق نہیں ہوتی وہ اسی طرح حکمرانوں، سیاستدانوں، افسروں، ڈاکٹروں، مفتیوں، مولویوں، پیروں، ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں لٹتی رہے گی۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117222 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More