وطن کی فکر کر نا داں ! مصیبت آنے والی ہے

با نی پاکستان قا ئد اعظم نے کہا تھا کہ میر ی جیب میں کھوٹے سکے ہیں ، وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی بات با لکل صحیح تھی کیو نکہ ان کے جانشین زیادہ تر کھو ٹے سکے ہی ثابت ہوئے۔انہو ں نے قیام پاکستان کے بعد نو سال تک آ ئین نہ بنایا،۳۲ سال تک با لغ را ئے دہی کی بنیاد پر کو ئی انتخابات نہ کرائے اور جب انتخا بات ہوئے تو وقت کے آمر نے ان انتخابات کو خو شدلی سے قبول نہ کیا۔ نتیجتا ملک دو لخت ہوگیا۔ یحیی خان صدارت کے منصب پر فا ئز ہو ئے،عام انتخابات ہوئے۔ذ و الفقار علی بھٹو (مر حوم) وزیر ا عظم منتخب ہو ئے، مگر اگلے انتخابات میں اتنی دھاند لی ہوئے کہ دھا ندلی کے خلاف احتجاج کرتے کرتے ہم ایک اور ما رشل لاءکا شکار ہو گئے جس نے داخلی اور خارجی طور پر ملک کے لئے اتنی پیچید گیاں پیدا کر دیں جن کا خمیا زہ آ ج تک ہم بھگت رہے ہیں۔جنر ل ضیاءالحق کے بعد سیاسی قیا دت کو حکمرانی کا مو قعہ ملا لیکن اس نے بھی گیا رہ سال باہمی لڑ ا ئیوں میں ضا ئع کر دئیے۔پھر ہما ری قسمت میں ایک اور ما رشل لاء دیکھنا تھا۔جس کی پید ا کردہ پیچید گیوں نے مسا ئل کو پہلے سے زیا دہ سنگین بنا دیا۔

لیکن افسوس صد افسوس کہ ۸۱ فروری کے انتخابات کے بعد جو قیا دت ابھری اور برسر اقتدار آئی وہ بھی چیلنجوں میں کمی کرنے کی بجائے ان میں ا ضا فے کا سبب بن گئی،بلکہ کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے،بجلی کی لوڈ شیڈنگ،مہنگائی،بے روز گاری جیسے مسائل نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔آج آپ ملکی مسائل کو دیکھئے اور ہمارے حکمرانو ں کے مشا غل اور دلچسپیاں دیکھئے تو حیرانگی ہوتی ہے اور ذہن سورہ بنی اسرا ئیل میں مذ کور اللہ تعالی کے اس فرمان کی طرف جاتا ہے۔جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ ” جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کا کرتے ہیں تو اس کے خو شحال لو گوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نا فر ما نیاں کرنے لگتے ہیں تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔دیکھ لو کتنی ہی نسلیں ہیں جو حضرت نوح ¾ کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں۔تیرا رب اپنے بندوں کے گنا ہو ں سے پوری طرح با خبر ہے اورسب کچھ دیکھ رہا ہے ،،۔۔،،

اللہ تعالٰی کے یہ واضح احکامات ہما رے سامنے مو جود ہیں لیکن ہما ری قیادت کی حالت قرآن مجید کے الفاظ میں ایسی ہو گئی ہے۔

(سورہ البقرائ)خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو ، وہ کسی حال میں ماننے والے نہیں ہیں ۔اللہ تعا لی نے ان کے دلوں اور ان کے کا نوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کے آ نکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے،وہ سخت سزا کے مستحق ہیں،،

ذر ا غور کیجئے،غیر ملکی عناصر وطن عزیز کے خلاف ایک نہا یت گھناﺅنی سا زش میں مصروف ہیں۔ حکومت وقت خود اس بات کا باربار ا علان کرچکی ہے کہ پاکستان میں تخریب کاتی اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔طا قتور عا لمی طا قتوں کو پاکستان کی ایٹمی قوت کسی طور ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔اب ان سا زشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت اہل ، دور اندیش اور عالمی سیاست پر نظر رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو بد قسمتی سے ہما رے پاس موجود نہیں ہے۔

بلو چستان کا مسئلہ نہا یت قابل توجہ اور حل طلب ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہے مگر حکومت وقت جان چھڑانے کے لئے اسے فوج کے سر ڈال کر اپنے آپ کو بری ا لذمہ قرار دینے کی کو شش کر رہی ہے ۔جس کی وجہ سے معاملہ انتہائی خطر ناک صورت حال اختیا ر کر سکتی ہے۔کراچی کی صورت حال بھی نہایت گھمبیر ہے۔اور آ ئے روز انسانی جا نوں کا ضیاع اور اور دیگر افسوسناک واقعات اس بات کی غمازی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ پس پردہ کوئی بڑی سازش مو جود ہے جو کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کی کو شش بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا حال تو سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں اس وقت پاکستان کی معیشت سب سے زیا دہ کمزور پو زیشن میں ہے۔معیشت کسی ملک کے لئے ٹانگوں کی حیثیت رکھتی ہے ۔ٹا نگیں کمزور ہوں تو چلنا دشوار ہو جاتا ہے،اور ہماری مو جو دہ صورت حال یہ ہے کہ ہم بیسا کھیوں کے بل چل رہے ہیں۔گویا معاشی طو ر پر تو معذ ور ہو ہی چکے ہیں ۔

نام نہا د دہشت گردی کے جنگ میں ہمیں اس طرح پھنسا دیا گیا ہے کہ کہنے کو ہم ایک قوم ہیں لیکن ہما را اجتما عی شعور خواب گراں میں مبتلا ہے۔افسوس صد افسوس کہ ا قبال کے شا ہینوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں ہے۔ حکیم ا لا مت علامہ اقبال کا فلسفہ خودی اور با با ئے قوم کا یقین محکم ہم نے کہیں کھو دیئے ہیں ۔فتنہ کی شیرازہ بندی کرنے والی کتاب قرآن حکیم طاق نسیاں پر دھری ہو ئی رکھی ہے۔ پینسٹھ سال کے سفر را ئیگاں کی منزل کیا ہے؟ ایک بے انتہا ما یو سی ،خو ف کے پر چھا ئیوں تلے سسکتا ہوا ہمارے معصوم بچوں کا مستقبل،امیدوں اور آ رزﺅں کے گہنا ئے ہو ئے چاند، پشاور کے عقب و نواح میں آ پہنچنے د ہشت کا آسیب، مسائل کے سلگتے ہو ئے انبار ، بے یقینی اور بد اعتما دی میں مبتلا وحدت، را ہبروں کی شکل میں راہز نوں کا با ر بار تسلط، جمہو ریت کے ماتھے پر طالع آ زما ﺅں کے ہا تھو ں ملی ہوئی کا لک، ان حالات میں بھی عوام کی مجر مانہ خا موشی دیکھ کر میرا دل ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے لہذا سطور ہذا کے ذریعے میں گزارش کروں گا کہ عوام، لکھے پڑھے لوگ اور محب وطن حضرات اپنی اپنی نحیف آواز کو بلند صدا میں بد لیں۔ اور یہ کہ ” وطن کی فکر کر ناداں،مصیبت آ نے والی ہے ،،
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 286294 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More