مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

فیصلہ اٹل ہے کہ موت برحق ہے اور موت کا مزہ ہر ذی شعور کو چکھنا ہے۔ نظامِ دنیا اللہ رب العزت کے مرتب کردہ اصولوں پر چلتا ہے۔ ہر روز بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہر روز افراد اپنی عمر گزار کر اس دنیا کی طرف رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اور یہی طریقہ ہے کہ چاہے کوئی غریب ہو یا امیر مرنے کے بعد اسے پانچ گز لٹھہ ہی کفن کی صورت میں ملتا ہے اور یوں وہ لحد میں اتار دیا جاتا ہے۔مگر، مگر؟؟

میں نہایت عزت و احترام کے ساتھ ان تمام دانشوروں سے جو سیکولر روایات کے امین بھی ہیں، اور ان کے قلوب کو اندیشہ ہائے شیطنت نے مضطرب کر رکھا ہے، مودبانہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کس جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑ نا چاہتے ہیں جناب؟ کیسی ہم آہنگی اور رواداری کو عام کرنے کی مہم چلا نا چاہتے ہیں؟کس آئین کی بالادستی کے لئے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارا ملک ان اثرات سے محفوظ ہے جن کے اندیشے ہمارے اکابرین نے بہت پہلے ہی ظاہر کر دیئے تھے۔ آزادی کے بعد سے لیکر آج تک ہم عوام کو کسی نہ کسی سلسلے میں جوڑ کر لڑایا ہی جا رہا ہے اور معصوم عوام فوراً ہی ان کاموں کی طرف آمادہ ہو جاتے ہیں۔وہ اس لئے کہ یہ سب جذباتی ہیں اور جس نے جو سکھایا اس پر عمل شروع ۔۔۔۔۔ہر روز لاشے گِر رہے ہیں، ہر روز کسی نہ کسی کا گھر اُجڑ رہا ہے، ہر روز کوئی بہن بیوہ ہو رہی ہے، ہر روز ان گنت بچے یتیم ہو رہے ہیں اور ہر روز قبرستانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آدمیت کہاں ہے ؟انسانیت کہاں ہے؟جمہوریت ہے مگر انسانیت کا قتل ہوتا دیکھ ہی رہی ہے۔ وہ کہاں ہیں جن لوگوں نے احترامِ آدمیت کی امانت اپنے سینوں میں سجا رکھی ہیں؟غالب نے شاید صحیح ہی کہا تھا کہ:
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے

وہ کون لوگ ہیں جو یہ خطرناک کھیل جوگذشتہ کئی ادوار سے کھیل رہے ہیں اور عوام اس سارے کھیل میں پستی کی طرف ڈھلک رہی ہے۔ اور ان کو کوئی لگام دینے کیلئے آگے نہیں آتا۔ وہ کون سے ہاتھ ہیں جو قتل و غارت گری کراتے اور وہ کون سا دماغ ہے جس نے ہر خونی کھیل کے بعد نام نہاد کمیشن کی تشکیل کی اور اس کا انجام کچھ بھی نہیں نکلا، سوائے اس کے تمام کیس ردّی کی نظر ہو گئی۔فیکٹریوں میں انسان زندہ جل رہے ہیں، سڑکوں ، چوراہوں، گلیوں، ہوٹلوں میں انسانی خون کی ہولی جاری و ساری ہے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ میں تو یہی کہوں گا کہ ہم اپنی تقریروں میں چاہے جمہوریت کی جتنی بات کر لیں لیکن ہم سب کے دل و دماغ نے آج تک جمہوریت کو قبول ہی نہیں کیا۔ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے جتنی جد و جہد کر لیں لیکن ہمارا ملک فرقہ پرستی کے دلدل میں پھنس چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں صرف اعداد و شمار پر ہی نظر جمائی جاتی ہے کوئی ملک کو بچانے کیلئے آگے آنے کو تیار ہی نہیں ۔ ایسے لوگ کم ہی ہیں جو مثبت سوچ اور مثبت فکر کے لئے اپنے آپ کو داﺅ پر لگا سکیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ زخم خوردہ معاشرہ کہاں جائے؟کس سے داد رسی چاہے، اور کس سے مساوات کی بھیک مانگے؟کس کے سامنے انصاف کے لئے دامن پھیلائے؟ اپنے حقوق کی آہ و بکا کس کو سنائے؟ اور کون سنے گا یہ دکھڑا۔۔۔۔۔۔۔۔

یوں تو دہشت گردی کے زیرِ اثر تخریبی کاروائیاں ہمارے معاشرے کا لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ (اب دیکھئے کہ یہاں تو کوئی ملک کرکٹ کھیلنے کو بھی تیار نہیں حالانکہ ذکاءاشرف صاحب سر توڑ کوشش کر رہے ہیں بحالی کرکٹ کیلئے ، دیکھنا یہ ہے کہ زور کتنا بازوئے ذکاءمیں ہے) اور کیوں سوچیں وہ لوگ جنہیں ڈر ہے اپنی زندگی کا۔ یہاں تو یہیں کے بسنے والوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہے۔صبح روزی روزگار پر جانے والے شام کو بحفاظت اپنے اپنے گھروں کو آجائیں تو گھر والے سُکھ کا سانس لیتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ملکی مفاد کیلئے ڈالا جاتا تھا کہ اپنے جسم میں ڈائنا مائیٹ باندھ کر دشمن کے ٹینک کے آگے لیٹ جاتے تھے اور دشمن ملک کے ٹینک کے ساتھ خود کو اڑا دینے کی روایت کے پیچھے جو جذبہ رہا ہے وہ صرف اور صرف ملک کے چپے چپے کی حفاظت اور دیوانگی کی حد تک فرض شناسی اور ملک سے عشق مگر اب یہ ساری مثالیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اب تو اگر دھماکے ہوتے ہیں تو ان کا حدف صرف اور صرف معصوم عوام ہی ہوتے ہیں ۔ ایسے میں انسانی زندگی کی اہمیت کہاں ہوگی ، کیا ہمارے قانون کے محافظ اتنی مستعد ہے کہ انہوںنے دہشت گردوں کی سازش کو ناکام بنایا، شاید نہیں! یہ تو اُس مقام پر جب پہنچتے ہیں جب سب کچھ راکھ ہوچکا ہوتا ہے۔ اور پھر اسنیپ چیکنگ کے ذریعے آنے جانے والے شریف عوام کو ہی تنگ کرتے نظر آتے ہیں۔

کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم اس دور میں بھی مغرب کی سیاسی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ہم ایسے ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں کہ جس طرح چاہتے ہیں نچاتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ اپنے اندر اتحاد پیدا کر لیا جائے تو آج یہ ساری طاقتیں ہم سے دور ہو جائیں گی کیونکہ اتحاد ہی مضبوطی کی علامت ہے، انتظار ہے کہ یہ اتحاد امتِ مسلمہ جلد ہو جائے اور سب پاکستانی بن کر رہنا سیکھ لیں تو یہ سب کچھ خود بہ خود ہی نیست و نابود ہو جائیں گے۔

مفلوج زندگیاں ہماری حکومتی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کر رہی ہیں، حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں، ہر جگہ احتجاج ہی احتجاج ہو رہا ہے، اور مہنگائی کا نہ رکنے والا سیلاب عوام کو زندہ در گور کر رہا ہے۔عوام کیلئے یہ انتہائی نامساعد حالات ہیں کہ نہ جی سکتے ہیں اور نہ ہی مر سکتے ہیں۔ اداروں میں ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔ عوام میں تو باغیانہ تیور نہیں ہیں وہ تو صرف اپنے حقوق کی بات کیلئے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، مگر ہم صرف اپنے شہریوں کو ہی طاقت کے زور پر خاموش کرانا جانتے ہیں۔اور ایسا ہی روز افزوں ہو رہا ہے۔لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہمارے چند عاقبت نا اندیشانہ فیصلوں نے ہی خود ہمارے ہی ملک کو ہم سے اجنبی بنا دیا ہے۔موجودہ حالات میں طاقت کی بجائے ڈپلومیسی اختیار کی جانی چاہیئے۔ جن کے ذہن و دماغ میں مثبت تعمیری جذبہ ہو اور جو حب الوطنی کے ساتھ حقوقِ انسانی کے پاسدار بھی ہوں ہمیں ان کے زخموں کو مزید گہرا نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ ہمیں گفت و شنید کرنی ہوگی سب سے تاکہ ان تمام مسائل کا کوئی ٹھوس اور مفید حل نکل سکے۔

کالم نگارراقم نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ سب کچھ اس وقت کی اہم اور چونکا دینے والی حکایتیں ہیں۔ اوران تمام حالات و واقعات پر سب کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو سکے۔ اگر اس تحریرسے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی کا خواستگاربھی ہوں۔ مگر کیا کریں کہ لکھنا اور لوگوں تک تحریروں کو پہنچا نا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے اس لئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ تحریر تو خالصتاً حقیقت پر مبنی ہے، پھر بھی اگر کسی احباب یا ارباب کو پسند نہ آئے تو اِسے ایک گم گشتہ تحریر سمجھ کر بھلا دیں۔(مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا)
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 367908 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.