پاکستان کاحقیقی مستقبل

پاکستان دنیاکے ان چند ممالک میں سے ہے جن میں سے مسائل کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔کیونکہ ان میں سے اکثر خود ساختہ ہوتے ہیں ۔جن پر سیاست کی جاتی ہے۔ملک کی کم و بیش تمام تر پارٹیاں ایسے ہی مواقع دیکھ کر اپنی ریٹنگ میں اضافہ کرتی ہیں ۔اور ےہی ان کی سیاست کا ذریعہ بھی ہے۔اس ملک کے تمام تر مسائل کا ایک ہی جیسا حل ہے۔کہتے ہیں تصویر کے تیں رخ ہوتے ہیں۔پاکستان میں ایک وہ جو عوام کو دکھایا جاتا ہے۔ایک وہ جو سیاستدانوں کو دکھایا جاتا ہے۔اور ایک اس تصویر کا اصلی رخ ہوتا ہے۔جس سے یہ سب نہ واقف ہوتے ہیں۔یہاں ایک بحران چینی کا آتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے آٹا گم کر دیا جاتاہے۔پھر جب یہ دونوں مل جائیں تو زمیندار کو کھادیں نہیں ملتی ۔اگر وہ بھی مل جائے تو اس ملک میں جب حکومت خریدے تو قیمت گر جاتی ہے اگر وہ بیچے تو قیمت آسمان کو چھونے لگتی ہے۔مگر یہ آدھا جھوٹ تھا جو میں نے لکھا۔اس کا ایک رخ تھا ۔دوسرا رخ بھی موجود ہے۔حکومت سستی بھی بیچتی ہے۔اور مہنگی بھی خریدتی ہے۔جیسا کہ کئی بڑے ادارے سستے بیچے بھی گئے۔کئی سرکاری عمارتوں کے لیے جگہ مہنگی خریدی بھی گئی۔یہ تو تھا تصویر کا دوسرا رخ ۔مگر ےہاں پر آکر سارا ڈرامہ ختم نہیں ہوتا۔یہاں سے تو پینڈورا باکس کھلتا ہے۔یعنی جب تصویر کے تیسرے رخ کی بات کی جاتی ہے۔اس کو لکھنے میں کئی لوگوں کے ہاتھ بھی کانپتے ہیں۔کیونکہ اس سنگین جرم میں ملوث ہونے سے ان کو بدترین نتائج سے گزرنا پڑتاہے۔تیسرا رخ یہ ہے کہ جب حکومت سستا خریدے تو وہ عام آدمی سے خریدا جاتا ہے۔اور جب مہنگا بیچے تو بھی عام آدمی نے خریدنا ہوتا ہے۔جب کہ سستابیچنے والے سے صرف اور صرف اس ملک کے بڑے بڑے نامور نام اور اکثر سیاستدان فائدہ اٹھا تے ہیں۔ےہ دوہرا معیار آخر کیوں ؟یہ تو صرف ایک مثال ہے ایسی کئی مثالیں ہیں۔پاکستانی حکومت نے زندگی کے ہر شعبے میں ملک کے لوگوں کے ساتھ دوہرا معیار رکھا ہوا ہے جو نہ صرف انسانیت بلکہ اسلام کے اصولوں کے انتہائی خلاف ہے۔لوگوں کو ان کی حیثیت کے لحاظ سے مختلف حصوں میں بانٹا گیا ہے۔امیر کے لیے الگ سکول ،غریب کے لیے الگ سکول۔غریب کا ہسپتال الگ، امیر کاہسپتال الگ۔غریب کی مسجد الگ ،امیر کی مسجد الگ۔غریب کی تفریح گاہیں الگ،امیر کی تفریح گاہیں الگ۔غریب کی مارکیٹ الگ ا،میر کی مارکیٹ الگ۔غریب کو ملنے والی سہولیات الگ،امیر کو ملنے والی سہولیات الگ۔غریب کی آبادی الگ ا،میر کی آبادی الگ۔غریب کاانصاف الگ، امیر کا انصاف الگ۔غریب کی ٹرانسپورٹ الگ،امیر کی ٹرانسپورٹ الگ۔غریب کی سیاست الگ ،امیر کی سیاست الگ۔غریب کے مسائل الگ ،امیر کے مسائل الگ۔غریب کی سوچ الگ،امیر کی سوچ الگ۔غریب چور کی الگ سزا،امیر چور کی الگ سزا۔اور انتہائی معذرت کے ساتھ اس کا صرف ایک ہی خلاصہ نظر آتاہے۔جس کو سننے کی اس ملک کے کئی لوگوں میں نہ تو طاقت ہے اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔میری طالبعلمانہ سوچ کے مطابق غریب کا ملک بھی الگ ہے اور امیر کا ملک بھی الگ ہے۔حالانکہ دونوں ایک ہی ملک میں رہتے ہیں۔دونوں ایک ہی جیسے انسان ہیں۔مگر اس دوہرے معیار کی وجہ صرف اور صرف مجھے یہی نظرآتی ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی غریب کبھی بھی اس ملک کے ایوانوں میں عہدوں کے خواب تک نہیں دیکھ سکتا۔اس ملک میں کروڑوں کی لاگت سے الیکشن لڑا جاتاہے۔جس میں مکمل خرچہ سیاستدان کا نہیں ہوتا۔اس میں ان کے چند عزیز اس نیک کام میں ان کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔اور اس لاگت کے نتیجے میں جیتنے کے بعد بہت بڑے بڑے فائدے بھی حاصل کیے جاتے ہیں۔خواہ وہ جائز ہوں یا ناجائز۔غریب تو اس ملک کی سیاست میں ہی نہیںآسکتا ہے۔اور اس ملک کے قانون چونکہ ان سیاستدانوں نے ہی بنانے ہوتے ہیں۔تو اس لیےوہ لوگ اپنے لیے الگ ملک بنا چکے ہیں اور ہم جیسوں کے لیے الگ ملک۔اس کا ےہی حل ہے کہ اس بار الیکشن قریب آنے سے پہلے ہمیں سوچنا ہوگا کی وہ ملک جس میں آج تک الگ الگ قانون ہیں اگر ہم نے اب نہ سوچا تو اس ملک میں حدیں بھی الگ الگ مقرر کر دی جائیں گی۔اس سے پہلے کہ اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔بہتر ےہی ہوگا کہ ہم اب ان لوگوں کا انتخاب کریں جو غریبوںکے حقوق کا خیال بھی کرے ۔امیر غریب کا ملک الگ الگ نہ بنا دیا جائے۔ان کو ووٹ دین جن کے بچے ہم لوگو ں کے ساتھ پڑھ سکیں۔جو ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرواسکیں۔جو ہماری مسجدوں میں نماز پڑھ سکے۔جو ہمارے پارکوں میں ہمارے ساتھ بیٹھ سکیں۔جو ہماری مارکیٹوں سے سامان ضرورت خرید سکیں۔جو ہمیں اپنی جیسی سہولیات دلوا سکیں۔جو ہماری آبادیوں میں رہ سکیں۔جن کو ہم جیسا انصاف ملے۔جو ہمارے ساتھ بسوں ٹرینوں میں سفر کرسکے۔جن کی سیاست اور سوچ ہماری سیاست اور سوچ سے مطابقت رکھتی ہو۔جہاں ان کی کروڑوں کی چوری کی بھی وہی سزا ہو جو ایک مسجد سے جوتے چرانے والے کی ہو۔تب جاکر اس ملک میں غریب کا زندہ رہنا ممکن ہے۔مگر اس کی ابھی کوئی امید نطر نہیں آتی۔کیونکہ اس ملک کی عوام بھوک اور خوف میں مبتلا ہے۔اس ملک کی سیاسی انتظامیہ نے یہ حالت پیدا کرکے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔عوام کی سوچ مفلوج ہو چکی ہے۔لوگ صبح کھا کر شام کے کھانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔مستقبل کی فکر کون کرے؟؟گھر سے نکلیں تو دھماکے سے مرنے کا اغواہ ہونے کا ڈر نہ جانے کس حالت میں مبتلا ہے۔کوئی حکومت پر تنقید کی فکر نہیں کر سکتا۔ اللہ ہماری حالت زار پر رحم فرمائے۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51507 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More