اس قوم کو علم وحکمت کی کیاقدر
جو مہنگا جوتا خریدنے میں فخر اور سستی کتابیں لینے میںدقت محسوس کرے ،ایسا
کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس قوم کو کتابوں سے زیادہ جوتوں کی ضرورت ہے یہ
فکریہ جملہ مجھے صحافی عبدالخالق بٹ نے ایس ایم ایس کیا، مجھے ایسا گمان
ہوتا ہے کہ یہ کسی مشہور رائٹر کاجملہ ہے ، بہرحال قوم کو اس سے کیا غرض کہ
یہ بات پہلی بار کس نے کہی اور کیوں کہی تھی؟
اتنا وقت اگر قوم کے پاس ہوتا اور ہم اتنی باریکیوں میں جانے کے عادی ہوتے
تو اب تک یہ پتہ نہیں چلالیتے کہ ہمارے سیاست دان آخر چاہتے کیا ہیں۔
عبدالخالق کے ایس ایم ایس کو پڑھ کر مجھ پر”دانشوری “ کا نشہ سوار ہوگیا
ایک صحافی پر زیادہ سے زیادہ ہوشیاری یا پھر دانشوری کا ہی نشہ چڑھ سکتا ہے
،ویسے ہم صحافی لوگ بھی عام ہی ہوتے ہیں خوامخواہ ہمیں خاص لوگوں میں شمار
کرنے کیا جاتا ہے ، اب تو ہم اسی طرح سیاست دانوں کو لڑانے اور مزے لینے کا
کام بھی کررہے ہیں جو معاشرے میں گلی کوچوں میں نظر آتا یقین نہ آئے تو کسی
بھی نیوز چینل کا ٹاک شو دیکھ لیں اس شو کو دیکھ کر آپ میری بات پر سو فیصد
اتفاق کرینگے۔
ویسے ہماری حالت اورعزت اوراحترام کوئی بھی ہم لوگوں کے دفاتر میں دیکھ
سکتے ہیں جہاں سب سے طاقتور اور بااختیار شخص آپ کو چپراسی نظرآئے گا ساتھ
ہی ہماری عزت کا ڈھول بھی سننے کو ملے گا۔ ہم بھی پیشہ ورانہ طور پر شاعروں
سے کم نہیںہوتے فرق یہ ہے کہ جب شاعر اپنا تعارف کراتا ہے یا کہیں اچھی شعر
شاعری کا ” ہنر “ دکھاکر جانے لگتا ہے تو بہت عزت اوراحترام سے لوگ پوچھتے
ہیں کہ” آپ شاعر تو بہت اچھے ہیں ویسے آپ کیا کرتے ہیں؟“
یہ کوئی پرانی بات نہیں صرف 20سال پرانی بات ہے جب میری شادی کی بات چلی تو
رشتے لگانے والی خاتون نے میری بہن سے دریافت کیا کہ تمھارا بھائی پڑھائی
تو مکمل کرچکا ہے اور اب سنا ہے صحافی بھی بن گیا ہے مگر یہ تو بتاﺅ وہ کچھ
اور بھی کرتا ہے مطلب کام کیا کرتا ہے؟
میری بہن نے کہا کہ ارے ہاں صحافت کررہا ہے ، خاتون نے کہا کہ ” کوئی اور
کام نہیں کرتا؟پھر کھائے گا اور اپنی دلہن کو کھلائے گا کہاں سے؟خاتون نے
یہ بات اس سادگی میں کہی تھی کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہممعاشرے
میں کیا ” تیر مارتے“ ہیں وہ تو ہماری ظاہری حالت سے ایسا ہی کچھ اندازہ
ہورہا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنے انداز میں کردیا۔
یہ تو بھلا کرے الیکٹرونک میڈیا کا جس کے آنے کے بعد صحافی بھی ماشاءاللہ”
صاحبِ حیثیت “ہوگئے یقین کریں ورنہ تو اخبار میں تنخواہ کب ملی اور کب ختم
ہوگئی پتہ ہی نہیں چل پاتا بس یہ یاد ہے کہ ہر ماہ کسی ایک تاریخ کو” یومِ
عید “ہوا کرتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ تنخواہ ملتے ہی قرض جن کا لوٹانا ہے
ان کے ناموں کی فہر ست آنکھوں کے سامنے ایسے چلنے لگتی تھی جیسے ٹی وی
پروگرام کے ختم ہوتے وقت End Cridet چلتا ہے۔
بہرحال بات ہورہی تھی دانشوری کی اور ایک ایس ایم ایس کی جس کے جواب میں
عبدالخالق بٹ کو فوری جواد دیا کہ” بھائی بات حقیقت میں بھی کچھ ایسی لگتی
ہے تب ہی تو پوری قوم بوٹوں والوں کے اقتدار میں صراطِ مستقیم پر چلتی ہے
بس ہم عوام کے درمیان چند سیاست دان بے چارے ” بے چین اور بے قرار “ نظر
آتے ہیں وہ بھی صرف اس لیئے کہ اس دور میں بھی ان کو ”پچھلے دروازے “ (Back
Door ) سے اقتدار میں آنے کا راستہ نہیں مل پایا تھا!۔
سیاست دان آخر کیا چاہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟جواب ملتا ہے کہ اگر کچھ
کرتے رہتے تو ۵۶ سال کی ملکی تاریخ میںکرنے کے لیئے کوئی ایشو بھی ان کو
تلاش کرنا پڑتا ۔۔۔۔۔۔اتنے سالوں میں مسائل ختم ہوہی جاتے نہیں ہوتے تو کم
از کم ایسے مسائل نہ ہوتے کہ 42 ارکان سے زیادہ کی وفاقی اور دو درجن سے
زائد ارکان کی صوبائی کابینہ کی ضرورت ہوتی ؟ویسے کابینہ کے اراکین کی لمبی
فہرست کاتعلق ملک کے مسائل سے کم ازکم ہمارے ہاں نہیں ہوتا ہمارے پاس تو یہ
مستحکم حکومت کا اشارہ ہوتا ہے ہاں البتہ ان کی تعداد کم ہوجائے تو حکومتی
مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
اس بات کا بھی خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حکومت ختم ہونے والی ہے۔اگر یقین نہ
آئے تو تجرباتی طور پر حکومت میں شامل اتحادیوں کے وزرا ءکی تعدا د موجودہ
تعداد سے نصف کرواکر دیکھ لیں!
بہرحال ہمارے ملک میں حکومتی کنٹرول سے آزاد عدلیہ کی کوشش ہے کہ کابینہ کے
اراکین کی تعداد کسی بھی طرح کم ہوجائے تاکہ قوم کے کچھ پیسے بچ جائیں مگر
کیا کریں ہمارے ہاں کسی وزیر کو ناہل قرار دیا جائے تو وہ مشیر کے روپ میں
سامنے آجاتا ہے، ویسے ایسی سہولت کسی اور ملک میں دستیاب ہونےکی اب تک
اطلاع نہیں ہے ۔
وطن ِعزیز میں عدلیہ نے تو وفاقی وزیر داخلہ کو جھوٹا، بد دیانت اور بے
ایمان بھی قراردیدیا مگر کیا کیا جائے کہ مذکورہ وفاقی وزیر یہ سمجھنے لگے
ہیں کہ یہ کوئی ایوارڈ یا اعزازی ڈگری ہے جیسے انہیں گذشتہ سال گورنر سندھ
نے جامعہ کراچی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی تھی ،بے چارے سیدھے سادھے
آدمی ہے ابھی چند روز قبل ہی انہوں نے کہا کہ دھری شہریت والے بہت سے
اراکین اس پارلیمنٹ میں موجود ہیں اگر عدالت نے فہرست طلب کی تو عدالت میں
پیش کردونگا اور جب عدالت نے ”نیکی وہ بھی پوچھ پوچھ “ کے مثل کے متراد ف
اس بیان کا نوٹس لیا اور وزیر موصوف سے فہرست طلب کرلی تو وہ عام الفاظ میں
” ہائیں بائیں شائیں “ کرنے لگے ، بہرحال لگتا ہے کہ وہ اب اپنے مستقبل سے
ڈرنے لگ گئے ہیں؟مستقبل میں اگر گائے کو” آنکھوں میں چھریاں پھرتی ہوئی نظر
آئے“ تو وہ بھی ڈر جاتی ہے۔جیسے ان دنوں ان کی آنکھوں کے سامنے یہ منظر چل
رہا ہوگا عیدالاضحٰی جو قریب ہے۔
وزیر موصوف کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ جب بھی اپنا ذکر کرواتے ہیں تو ٹائم
بہت لیتے ہیں۔
نااہلی کی بات چلی تو مجھے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی یاد آنے لگے،
پرویزمشرف کے دورِ حکمرانی میں انہوں نے جو کچھ بویا وہ آصف زرداری کے دور
میں یا پیپلز پارٹی کی حکومت میں کاٹا۔حالانکہ انہوں نے پرویز مشرف کے دور
میں جیل کاٹی تھی، بعض دانشور کہتے ہیں کہ انہوں نے پرویز مشرف کے ” یس
باالکل صحیح ہے“ والے دور میں سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کے لے لیئے بہت کچھ
بویا تھا اس لیئے ضروری تھا کہ اس کا پھل وزیراعظم بن کر ہی کاٹا جائے، سو
وہ کسی بھی طرح وزیراعظم بھی بن گئے اور ایک ہی وکٹ پر ”آﺅٹ“بھی ہوگئے ساتھ
ہی آئندہ کے لیئے نااہل بھی قرار پائے کچھ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے
وزیراعظم کی حیثیت سے رات دن محنت کی تھی اور پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ
بھی ہوا تھا صرف اس کا حساب برابر کیا تھا اب ان بے چاروں کو کیا معلوم تھا
کہ” حساب برابر “کرنے کی بھی اس ملک میں سزا ملتی ہے۔
یوسف رضا گیلانی نے چند روز قبل حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ ” پیپلز پارٹی کی موجودگی میں سندھ کو کوئی بھی تقسیم
نہیں کرسکتا“۔
میں نے ان کے یہ الفاظ بار بار پڑھے اور پھر سوچا کہ ہاں بات تو یہ ہی درست
لگتی ہے کہ پیپلزپارٹی موجود ہو اور سندھ کی تقسیم کا کام کوئی اور کرے۔۔۔۔؟۔اب
ہمیں بھی جواب مل گیا کہ آخر ہمارے سیاست دان کیا چاہتے ہیں؟۔ |