اروندکیجریوال کا پونر جنم

سیاسی سردخانے میں بھیجی جانے والی لاشیں عام طور پر واپس نہیں آتیں لیکن کبھی کبھار حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ چمتکار ہونے لگتا ہے ۔ ایمرجنسی نے جئے پرکاش نارائن کو زندہ کردیا تھا اور اب اروند کیجریوال خودکشی کی ایک کامیاب کوشش کے بعد پھر سے زندہ ہوگئے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے اس پونر جنم میں اروند نے ماضی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔سب سے اولین سبق تو یہ ہے کہ کسی پر( بشمول انا ہزارے )بیجا انحصار نہ کیا جائے بلکہ اپنے بل بوتے پر تحریک چلائی جائے۔سنگھ پریوار کی بے جا حمایت نہ کی جائے یعنی کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے اور تیسرے دانشوروں کے بجائے عام آدمی کو ساتھ لینے کی کوشش کی جائے سوِل سوسائٹی پر اکتفا کرنے کے بجائے غیر مہذب عوام کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی جائے ۔

اس سے پہلے اروند کیجریوال نے ٹیم انا کے توسط سے بدعنوانی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور لوک پال بل کواس حل بنا کر پیش کیا لیکن کانگریس و بی جے پی نے مل کر انہیں اس مقصد میں ناکامی کی گہری کھائی میں ڈھکیل دیااور سیاسی اکھاڑے میں اتر کر مقابلہ آرائی کی دعوت دی ۔ سیاسی جماعتوں کو یہ توقع تھی کہ یاتو کیجریوال اس گندے تالاب میں قدم رکھنے کی ہمت نہیں کریں گے اور اگر وہ آؤ یا تاؤ دیکھے بغیر کود پڑے تو ڈوب مریں گے ۔اروند کیجریوال نے اپنے مخالفین کو ان دونوں محاذ پر مایوس کیا ۔وہ سیاسی میدان میں تو اترے لیکن اس بار انہوں نے اپنی ہانڈی پریشر کوکر کے بجائے ہلکی آنچ پر رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ وہ جان گئے ہیں کہ لمبی ریس میں کامیابی کے لئے دھیمے دھیمے مگر مسلسل دوڑتے رہنا ضروری ہے ۔ کوئلہ گھوٹالا،بجلی کے نرخ میں اضافہ،رابرٹ وڈرا،سلمان خورشید اور نتن گڈ کری کے خلاف یکے بعد دیگر کھولے جانے والے محاذاس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب اروند کیجریوال کو کوئی جلدی نہیں ہے ۔ان کی جدید تحریک ہندوستانی معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل مثلاًمہنگائی ،بدعنوانی اوراقرباپر وری کے اطراف گردش کرتی ہے۔

مہنگائی وطنِ عزیز کا وہ مسئلہ ہے جس نے غریب عوام کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ کی بھی نیند حرام کردی ہے ۔ اس ماہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ نے گزشتہ کئی سال کا ریکارڈ توڑ دیا ۔ویسے چدمبرم کے دوبارہ وزیر مالیات بن جانے پر سرمایہ کاروں نے جس مسرت کا اظہار کیا تھا اس سے توقع یہی تھی کہ عوام کے استحصال میں اضافہ ہو گا جس کے نتیجہ میں مہنگائی بڑھے گی ۔ عوام بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کے بڑھنے کی ایک اہم وجہ بدعنوانی ہے اس لئے جب اروند کیجریوال یہ کہتے ہیں کہ عوام بجلی کا اضافی بل ادا کرنے سے انکار کر دیں تو یہ عوام کو اپنے دل کی بات لگتی ہے ۔ بی جے پی کو چند دنوں کے بعد یہ خیال آتا ہے کہ انہیں بھی یہی بات دوہرانی چاہئے لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔ بدعنوانی کے خلاف جدو جہد میں جب تک بڑے نام نہ ہوں ذرائع ابلاغ اور عوام دونوں اس کی جانب توجہ نہیں دیتے ۔ مثلاً کوئلہ بدعنوانی میں وزیر اعظم کا ملوث ہونا یا ڈی ایل ایف کے ساتھ رابرٹ وڈرا کی سودے بازی ۔ اگر رابرٹ سونیا گاندھی کے بجائے ہریانہ کے وزیرِ محصول کے داماد ہوتے تو اس معاملہ کو اس قدر شہرت حاصل نہ ہوتی ۔اگر سلمان خورشید مرکزی حکومت میں وزیر قانون ہونےکے بجائے اتر پردیش کانگریس کے صدر ہوتے تو ان کے خلاف ۷۱ لاکھ کی بدعنوانی کسی شمار قطار میں نہ آتی۔

مشہورو معروف لوگوں کی اقربا پروری مثلاًرابرٹ یا لوئیسہ کے خلاف کھولا جانے والا محاذمیڈیا میں کشش کا باعث بنتا ہےاور لوک پال کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے ۔ آخر ی دلیل یہی سامنے آتی ہے کہ سیاسی مجرموں کے سزاسے بچ نکلنے کی بنیادی وجہ غیر جانبدار تفتیشی ادارے کی غیر موجودگی ہے اور اسی خلاء کو پر کرنے کیلئے جن لوک پال ضرورت ہے ۔ اروند کیجریوال اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے شور شرابے سے نہ ہی بدعنوانی پر لگام لگے گی اور نہ جن لوک پال بل پاس ہو گا لیکن خبروں میں رہنے کیلئےبدعنوانیوں کا بھانڈا پھوڑتے رہنے سے بہترکوئی تدبیرنہیں ہے ۔اروند کیجریوال کسی مسئلہ کو اٹھا کر اس کے انجام تک پہنچانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں عوام کی دلچسپی کو زیادہ دنوں تک کسی ایک معاملے کے ساتھ منسلک رکھنا ناممکن ہے ۔ ہندوستانی نفسیات میں مستقل مزاجی کی فقدان ہے ۔ عام ہندوستانی جلد نتائج کا خواہش مند ہوتا ہے بصورتِ دیگر مایوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے کسی معاملے کو وہ طول نہیں دیتے ۔ کوئلہ گھوٹالہ میں وزیر اعظم کے استعفیٰ کامطالبہ کیا نہیں ملا تو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ۔ رابرٹ وڈرا پر ہنگامہ ہوا جتنا کچھ شور ہو سکتا تھا کیا جب لوگ بور ہونے لگے تو سلمان پر نشانہ سادھا اور اس کے بعد نتن گڈکری کی جانب بڑھ گئے ۔ چونکہ میڈیا تنوع چاہتا ہے لوگ تفریح کیلئے یہ سب دیکھتے ہیں اس لئے سابقہ ناکامی کو یاد نہیں رکھتے جاری کشمکش سے بہت اوب جاتے ہیں ۔

سیاست کے بازار میں بھی جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے کا اصول کارفرما ہوتا ہے خاص طور پر شہروں کے متوسط طبقہ میں جن کی سوچ ذات برادری کے بندھن سے کسی ناکسی حد تک آزاد ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے زراعت کا شعبہ روبہ زوال رہا جس کے باعث عوام کی شہروں کی جانب ہجرت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ۔گلوبلائزیشن کے بعد اس عمل میں تیزی آئی جس کے نتیجہ میں شہروں کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ۔ اروند کیجریوال کی نظر فی الحال اسی طبقہ پر ہے ۔ بدقسمتی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا اثرو رسوخ اسی شہری طبقہ تک محدود ہے ۔ دیہاتوں میں اس جماعت نےاپنے حلیفوں کی مدد سے یا جذباتی ایشوز جیسے رام مندر وغیرہ کے توسط سے جو اثرات قائم کئے وہ قابلِ اعتبار نہیں ہیں ۔ بی جے پی کے سارے حلیف تیسرے محاذ کے بنتے ہی بغاوت پر اتر آتے ہیں اور اس لئے کہ علاقائی سطح پر بی جے پی ان کی محتاج ہے ۔ اڑیسہ میں پٹنائک کے بعد بہار کےنتیش کمار کی نیت بھی فی الحال ڈانواڈول ہے ۔ایسے میں اروند کیجریوال کا بی جے پی کے خلاف محاذ کھولنا دراصل سیدھے سیدھے اس کے ووٹ بنک پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔

نتن گڈکری کے خلاف جو الزامات لگائےگئے وہ اس لحاظ سے سنگین نوعیت کے ہیں نتن نہ صرف بی جے پی صدر ہیں بلکہ آر ایس ایس کے آشیرواد سے صدارت کی کرسی پر فائز ہوئے ہیں۔اس لئے سنگھ کے ترجمان رام مادھو نتن گڈکری کی حمایت میں کوئی تاخیر نہیں کی ۔رابرٹ وڈرا کا کانگریس پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں کوئی اہم مقام نہیں ہے۔ سلمان کا استعفیٰ لے کر معاملہ ختم کیا جاسکتا ہے لیکن گڈکری کا معاملہ اس قدر آسانی کے ساتھ سلجھ نہیں سکتا ۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب بی جے پی کی شناخت واجپائی اور اڈوانی سے تھی ۔ اس وقت بنگارو لکشمن کے استعفیٰ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا لیکن فی الحال کوئی ایسا قدآور رہنمابی جے پی میں نہیں ہے ۔ اڈوانی کے پر خود سنگھ پریوار نے کتر دئیے ہیں اور ان کی قوت پرواز ختم ہو چکی ہے ۔ ایسے میں پارٹی کے صدرنتن گڈکری پر لگائے جانے والے الزامات کی اہمیت بڑھ جاتی ہےجو اس طرح ہیں:
• نتن گڈکری ایک سیاستداں کم اور بیوپاری زیادہ ہیں
• ان کی ذاتی ملکیت میں گزشتہ سالوں کے اندربے شمار اضافہ ہوا
• اپنی خوشحالی میں اضافہ کیلئے انہوں نے صدر کی حیثیت سے اپنے رسوخ کا استعمال کیا ہے
• گڈکری کے تجارتی مفادات کسانوں سے ٹکراتے ہیں
• انہوں نے کسانوں کی ۱۰۰ ایکڑ زمین ہڑپ لی ہے
• حکومت ِ مہاراشٹر نےسینچائی کے منصوبے کی خاطر کسانوں سے زائد ازضروری زمین لی اور
• اور سنیچائی کا پانی کسانوں کو دینے کے بجائے گڈکری جیسے صنعتکاروں کو مہیاکیا
• سرکاری مراعات کے حصول کی خاطر نتن گڈکری نے بر سرِ اقتدار این سی پی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کی

مہاراشٹر میں سینچائی منصوبوں میں ہونے والی بدعنوانی سے انکار ناممکن ہے اس لئے کہ ۷۰ہزار کروڈ کے اس گھوٹالے سے خود شرد پوار بھی اپنے بھتیجے اجیت پوار کو نہ بچا سکے اور انہیں بے آبرو کر کے چھٹکارا حاصل کیا ۔ اب اکیت پوار جیسےبدعنوان سیاستداں کے ساتھ جس کی سانٹھ گانٹھ ہو وہ بدعنوان نہ ہو یہ کیونکر ممکن ہے ۔ نتن گڈکری آرٹی آئی کارکن ڈاکٹر انجلی دامنیا کو عدالت میں جانے سے روکنے کی
کوشش کی اور ان کے سامنےیہ اعتراف کیا کہ وہ شرد پوار کے بزنس پارٹنر ہیں ۔

نتن گڈکری نے حسبِ توقع ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ ودربھ کے کسانوں کی فلاح بہبود کیلئے کام کررہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے ان کی تمامتر کوششوں کے باوجود پچھلے دس سالوں اس علاقہ کے ہزاروں کسان خودکشی کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس معاملے میں سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ کسانوں کی بازآبادکاری کیلئے جو کثیر رقم مرکزی حکومت کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے اسے بھی یہ سیاسی بچولئے آپس میں بانٹ کر کھا جاتے ہیں ۔ انڈیا اگینسٹ کرپشن کی اس مہم نے ایک جانب تو یہ ثابت کیا کہ کانگریس اور بی جے پی نہ صرف یکساں طور پر بدعنوان ہیں بلکہ لوٹ کھسوٹ کے اس گورکھ دھندے میں ایک دوسرے کے معاون ومدد گار بھی ہیں۔ نتن گڈکری کا دفاع جس طرح سشما اور ارون جیٹلی نے کیا اس نے بھی کانگریسی ترجمانوں کی یاد تازہ کردی ۔کل تک جو لوگ اروند کیجریوال کے الزامات کی بنیاد پر کانگریس کو کٹھہرے میں کھڑا کرتے تھے اب خود اروندکوکانگریس کا ایجنٹ قرار دے رہے ہیں ۔
بی جے پی کے ترجمان نے پچھلے دنوں اروند کیجریوال کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا وہ ایک فیوزڈ بلب ہے لیکن جب کیجریوال نے نتن گڈکری کو نشانہ بنایا تو بی جے پی لائٹ گل ہوگئی اور بی جے پی والوں کو دن میں تارے نظر آنے لگے ۔ یہ بیہ کہا گیا تھا کہ وہ ایک سماجی کارکن ہیں سیاسی رہنما نہیں ہیں اب نوبت یہ آئی کہ بی جے پی کے صدر کو اپنی صفائی میں یہ کہنا پڑا کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں جو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کررہا ہوں ۔ کیجریوال پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ وہ ودیشی تعاون سے سودیشی تحریک چلا رہے ہیں لیکن سودیشی کسانوں کے منہ کا نوالہ چھین کر اپنا پیٹ پھلانے سے تو بہتر ہے کہ ان پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر ان کو استحصال سے بچانے کی جدو جہد کی جائے ۔

ارون جیٹلی چونکہ سلمان خورشید ہی کی مانند پیشہ سے وکیل ہیں اس لئے ان دونوں کے لب و لہجہ میں پائی جانے والی تلخی کے اندر غیر معمولی مشابہت دیکھنے کوملی۔ اس طرح بی جے پی نے خود ثابت کردیا کہ اس میں اور کانگریس میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے ۔ اب سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں ہزار اختلاف کے باوجود وہ کون سی شہ مشترک ہے جس نے انہیں ایک دوسرے کا معاون اور مدد گار بنا دیا ؟ اس سوال کا آسان ترین جواب ہے سیکولر جمہوریت۔ یہی وہ مشترک قدر ہے جس کی علمبردار یہ دونوں جماعتیں ہیں اور اس سیاسی نظام نے سبھی سیاسی جماعتوں کوبدعنوانی کی لڑی میں پرو دیا ہے ۔اسی لئے الکشن کمیشن ہر سیاسی جماعت کے اندر یہ ضرور جانچ لیتا ہے کہ آیا اس نے لامذہبیت کا کلمہ پڑھا یا نہیں ۔ دیگر معاملات میں مصالحت برداشت کی جاتی لیکن اگرکیا سیاسی جماعت اپنے دستور میں سیکولر جمہوریت پر یقین کا اظہار نہیں کیا تو انتخابی کمیشن کے رجسٹر میں اندراج نہیں ہو پاتا ہے ۔

رابرٹ وڈرا کا معاملہ سلمان خورشید کی بنسبت خاصہ سنگین تھا اس کے باوجود جلد دب گیا اس کی وجہ یہ تھی کانگریسیوں نے جلد ہی اسے نظرانداز کرنا شروع کردیا وہ تو راجیش کھیمکا کے تبادلے نے اس میں نئی جان ڈال دی ورنہ وہ پوری طرح دم توڑ چکا تھا ۔ سلما ن خورشید کے معاملے بینی پرساد ورما جیسے احمق حمایتی اور سلمان خورشید کی جذباتیت نے اسے رکھا ۔بینی پرساد ورما کا یہ کہنا اگر یہ ۷۰ کروڈ ہوتا تو ہم اسے قابلِ اعتناءسمجھتے کسی مرکزی وزیر کیلئے ۷۱ لاکھ بہت کم ہے نہایت شرمناک ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعنوانی کی قباحت ہمارے سیاسی نظام میں بالکل ختم ہوچکی ہے ۔ بینی پرساد ورما کا کیجریوال کو دیا جانے والا مخلصانہ مشورہ کہ روز روز کا بھونکنا نقصان دہ ہوتاہے کیونکہ لوگ عادی ہو جاتے ہیں اس لئے بہتر ہے شیر کی طرح ایک بار گرجا جائے،اہمیت کا حامل ضرور ہے لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہندوستانی عوام تمام گرج برس کو بہت جلد بھول جاتی ہے نیز اگر سُربدل بدل کربار بار بھونکا جائے تووہ اس پر کان دھرتی ہے ۔ بینی پرساد ورما اس گر سے واقف نہیں ہیں مگر کیجریوال اسےخوب جانتے ہیں ۔

سلمان خورشید کا بدعنوانی کے الزامات پر تیوری چڑھانا ۔ ڈرانا دھمکانا اور بوکھلاہٹ کا شکار ہونا چور کی داڑھی میں تنکا کے مترادف ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے اجیت پوار کی مانند ان کی بلی چڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے اس لئے ان کی حماقتوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ۔ سلمان خورشید کا ٹی وی کیمرے کے سامنے یہ کہنا کہ کیجریوال فیروز آباد آنے کی جرأت نہ کریں اور اگر وہ آتے ہیں تو واپس نہ جاسکیں گے کسی وزیر قانون تو کجا مافیا ڈان کے بھی شایانِ شان نہیں ہے لیکن جب انسان کا برا وقت آتا ہے تو اس کی عقل ماری جاتی ہے اور ایسا ہی کچھ فی الحال سلمان خورشید کے ساتھ ہو رہا ہے ۔سلمان خورشید نے برسوں کی محنت سے جو اپنی شریفانہ شبیہ بنائی تھی اسے وہ اپنی حماقتوں سے ازخود سرِبازارنیلام کر رہے ہیں۔

سلمان خورشید کے معاملے میں سب فرضی ہے ۔حکومت سے مدد حاصل کرنے کی خاطر کی جانے والی درخواست پر فرضی دستخط ۔امدادی کیمپوں کی فہرست میں ایسے فرضی مقامات کے نام جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔معذوروں کی فہرست میں ایسے نام ہیں جن کا انتقال کیمپ کے انعقاد سے قبل ہو چکا ایسے بھی ہیں جو سرے سےمعذور ہی نہیں ہیں اور ایسے معذوروں کے نام جومذکورہ آلات سے ہنوز محروم ہیں ۔ وہ تو اچھا ہی ہےکہ بیچارےمحروم ہیں ورنہ اس فرضی مایا جال میں جو نقلی آلات انہیں ملتے ان سے رہی سہی قوتِ سماعت یا بصارت بھی جاتی رہتی ۔ ایسا لگتا ہے اس فرضی فلاح وبہبود کے علمبردار جمہوری نظام نے عوام و خواص کی ساری بصارت اور بصیرت ان سے چھین لی ہے۔اس لئےوطنِ عزیز میں فی الحال کیا فرضی نہیں ہوتا۔فرضی دہشت گرد ایجاد کئے جاتے ہیں۔ فرضی دھماکے کرائے جاتے ہیں۔ فرضی ملزمین کو گرفتار کر کے ان کےخلاف فرضی چارج شیٹ داخل کی جاتی ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے فرضی کہانیاں نشر ہوتی ہیں۔ فرضی گواہ پیش کئے جاتے ہیں اور فرضی انکاؤنٹر میں معصوم لوگوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔جہاں لوگوں کی جان سے فرضی بنیادوں پر کھیلا جاتا ہو وہاں فرضی گھوٹالوں کی بھلا کیا اہمیت؟ کاش کے اروند کیجریوال فرضی بدعنوانیوں کے ساتھ فرضی انکاؤنٹر بھی نظر آتے لیکن اس میں بھلا کسی سیاسی جماعت کا بھلا کیا فائدہ ہے ؟
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1454141 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.