معصوم ملالہ پر حملہ …

بچپن میں یہ علم نہیں تھا کہ عصر کا مطلب وقت اور زمانہ ہے۔۔۔ یہی خیال تھا کہ سور العصر میں نمازِ عصر کے وقت کا ذکر کیا گیا ہے ۔آج بھی عصر کا وقت تھا جب ٹی وی پر ملالہ یوسف زئی پر حملے کی خبریں چل رہی تھیں اور ایک بچی اپنے باپ سے پوچھ رہی تھی کہ یہ وہی ہے جو بینظیر بھٹو کو گولی لگنے پر رو رہی تھی؟ اس نے اپنا نام بختاور یا آصفہ سے بدل کر ملالہ کیوں رکھ لیا ہے؟؟؟ بیٹی کا سوال بڑا معصومانہ تھا لیکن حقیقت کے قریب تھا ۔ یہی بات انقلابی شاعر حبیب جالب نے بھی کہی تھی ۔۔۔ہر بلاول ہے قوم کا مقروض ، پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے۔۔۔ جالب اور اس بیٹی کے سوال میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ یہ بچی توپوچھ رہی تھی کہ کیا بینظیر بھٹو کی بیٹیوں نے نام بدل لئے ہیں جبکہ اسے ان ناموں سے واقفیت بھی بینظیر بھٹو کی جمہوری شہادت کے وقت ہوئی تھی کہ جب میڈیا نے پہلی بار آصفہ اور بختاور کے آنسو دکھائے تھے ۔ حبیب جالب قوم کے بچوں کے انہی آنسوں کا حوالہ اس بچی کی پیدائش سے بہت پہلے اپنے مخصوص انداز سے دے چکے تھے ۔ باپ نے بالاخر اپنی بیٹی کو بتایا کہ یہ وہ بچی ہے جسے عالمی امن کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس نے اپنے جذبات اور گردوپیش کے حالات کی سچائی بیان کرنے کی جرات کی تھی۔

صاحبزادی نے'' نمانڑاں '' سا دوسرا سوال داغ دیا کہ ہمیں پھر یہ کیوں پڑھایا جا رہا ہے کہ سانچ (سچ ) کو آنچ نہیں آتی؟؟ ؟سچے انسان کا سب ساتھ دیتے ہیں اور سچ میں بڑی برکت ہے جبکہ گولی کون سی بابرکت چیز ہے جو سچائی کو مزید پختہ اور جرات مند بناتی ہے؟؟؟ہم ابھی ان مفروضوں پر مبنی جواب گھڑنے کی کوشش کر رہے تھے کہ نجی ٹی وی نے یہ بریکنگ نیوز بھی چلادی کہ تحریکِ طالبان نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور کہا ہے کہ اسے طالبان کیخلاف پروپیگنڈے کی سزادی گئی ہے۔ اس قبولیت یعنی اقبال جرم نے مجھے مزید مشکل میں ڈال دیا کیونکہ اس نے گھر والوں سے جان رکھا تھا کہ میں بھی ان طالبان کا حامی ہوں کہ جنہوں نے اسلامی معاشرت کا بیڑا اٹھایا تھا اور اپنے زیرِ کمانڈ علاقے میں امن بھی قائم کیا تھا مگر اسے اور گھر والوں کو یہ معلوم نہیں کہ میں ان طالبان کا حامی نہیں نہ انہیں طالبان ماننے کو تیار ہوں اور وہ طالبان ہو بھی نہیں سکتے جو بچوں اور خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کے دشمن ہوں کیونکہ طالبان کسی صورت نبی پاکۖ کے ان احکامات اور تعلیم کینفی کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ تعلیم حاصل کرو گود سے گور تک یعنی ماں کی گود سے لیکر مرتے دم تک ۔۔۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے نے پورے ملک کے بچوں اور بڑوں کو فکر میں مبتلا کردیا ہے۔ ۔۔کہ مخصوص سوچ کے برعکس یہاں شرعی احکامات کی تعمیل میں تعلیم حاصل کرنا اورسچ بولنا کتنا مشکل کام ہے۔۔۔ اور کیا اسے ناممکن بنایا جا رہا ہے؟؟؟ جو کچھ ملالہ کے ساتھ ہوا وہ آج ہر ذی شعور پاکستانی سمجھ رہا ہے کہ آصفہ ' بختاور ' مریم کے ساتھ ہوا ہے ۔ ۔ ۔ یہ بات انجانے میں ہی سہی لیکن ہے تو درست۔ ۔۔سوال تو یہ ہے کہ کیا حکمرانوں کو بھی اِس کا ادراک ہے کہ یہاں نہ تو ملالہ محفوظ ہے اور نہ لالہ کی جان خطرے سے خالی ہے ۔۔۔اس معصوم بچی کو تو سمجھ آگئی کہ ملالہ نہ تو آصفہ اور نہ ہی بختاور بھٹوزرداری اور نہ مریم نواز شریف ہے بلکہ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔ کہیں ملالہ آسمان اور کہیں زمین۔۔۔ حالانکہ پیدا کرنے والے کے مطابق یہ اصل تقسیم اور تخصیص نہیں کی۔اس بچی کو ناپختہ سا یقین ہے کہ مریم نواز شریف اور آصفہ و بختاور بھٹو زرداری جب ملالہ سے ملنے جائیں گی تو یہ یقین دہانی بھی کرائیں گی کہ اِس ملک کی ہر بچی کو انہیں جیسا تحفظ حاصل ہو گا' حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیئے جائیں گے۔۔۔اور پھر ۔۔۔خدانخواستہ ہم کسی اور ملالہ پر اِس طرح کے افسوسناک حملے پر ایسی ہی گفتگو کر رہے ہوں گے ۔ ۔ ۔( اللہ نہ کرے )

اب ذرا تصویر کے دوسرے رُخ کا حوالہ بھی ضرور سنیے گا کیونکہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جہاں ملک کے کونے کونے میں ملالہ یوسف زئی کے لئے دعائیں کی جارہی ہیں تو وہیں دوسری جانب مغربی میڈیا بھی اس کم سن اور دلیر بچی کی بہادری کے راگ الاپ رہا ہے ۔ حالات و واقعات میں کچھ تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں ' کل تک ملالہ کے راگ الاپنے والا پاکستانی میڈیا آج اسے '' سی آئی ایجنٹ '' قرار دے رہا ہے ۔ یہاں کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں مثلاً ملالہ نے رچرڈ ہالبروک و دیگر امریکی حکام سے ملاقات کیوں کی ؟ ملاقات کے پس پردہ کون سے عناصر کاربند تھے ؟ زخمی ملالہ کے پاس میڈیا کو کیوں نہ جانے دیا گیا؟ متحدہ عرب امارات کے لے جانے کی بجائے '' برمنگھم '' ہسپتال کیوں لے جایا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہیں-
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 61 Articles with 92047 views i like those who love humanity.. View More