سیاسی حلقوں میں آج کل یہ بات
ایک بار پھرکہی اورسنی جارہی ہے کہ اگر ملک بچانا ہے تو تمام مسلم لیگوں
کوایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا ورنہ آئندہ الیکشن میں یہی کرپٹ
مافیاایک بار پھر ملک پر قابض ہوجائے گاجس نے پہلے ہی ملک کو تباہی کے
دہانے پر پہنچادیا ہے اس دورِ حکومت میں اگر کسی چیز میں ہم نے ترقی کی ہے
تو وہ صرف اور صرف کرپشن ہے جوکہ ہمارے لئے ایک شرم کی بات ہے جہاں تک مسلم
لیگوں کے اتحاد کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگوں کااتحاد
ملک کو ایک نئی سمت میں لے جاسکتا ہے اور مہنگائی،غربت،بیروزگاری اور کرپشن
کی ڈسی قوم کو صرف اسی صورت ایک نیااوربہتر پاکستان مل سکتاہے کہ تمام مسلم
لیگیں الگ الگ لڑ کراپنی طاقت تقسیم کرنے کی بجائے ایک پلیٹ فارم پر متحد
ہوں کیوںکہ مجھے یقین ہے کہ جس طرح پاکستان مسلم لیگ نے بنایا اسی طرح اس
کو ترقی کی راہ پر بھی پاکستان مسلم لیگ ہی ڈال سکتی ہے لیکن مسلم لیگوں کی
تقسیم اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کو دور کرنے کیلئے کئی کوششیں ہوچکی
ہیں لیکن شریف برادران کی ضد ، ہٹ دھرمی اور بادشاہانہ ذہنیت اس خواب کی
تکمیل نہیں ہونے دے رہی ۔اس بات میں کوئی شک نہیںکرسکتاکہ پاکستان مسلم لیگ
ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے جس کا ثبوت گزشتہ چارالیکشنوں میں سامنے آنے
والے نتائج باآسانی فراہم کرسکتے ہیں آپ دیکھیں کہ 1993ءکے الیکشن میں مسلم
لیگ نے 39%ووٹ حاصل کئے جب کہ پیپلزپارٹی نے 37%ووٹ حاصل کئے،1997ءمیں مسلم
لیگ کے ووٹوںکی شرح45%جب کہ پیپلزپارٹی کو صرف21%ووٹ ملے ،اس کے بعد
1999ءمیں مسلم لیگ کی حکومت کے خاتمے بعد شریف برادران کے بیرون ملک جانے
کے بعد مسلم لیگ میں پھوٹ ڈال دی اوریہاں سے مسلم لیگ ق کی بنیاد پڑی اور
2002ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن،مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ فنکشنل نے الگ
الگ اس میں حصہ لیا یہاں بھی اگران تینوں مسلم لیگوں کو ملنے والے ووٹوں کو
دیکھاجائے تو وہ پیپلز پارٹی کوملنے والے ووٹوں سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ
2002ءمیں پیپلزپارٹی کو ملنے والے25%ووٹوں کے مقابلے میں ان تمام مسلم
لیگوں کو ملنے والے ووٹ 35%تھے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت بھی
اگر مسلم لیگ ایک ہوتی تو یہی حکمران پارٹی ہوتی اسی طرح 2008ءمیں بھی مسلم
لیگ کی تقسیم کافائدہ ہمیشہ کی طرح پیپلزپارٹی کو ہوا یادرہے کہ ان
انتخابات میں مسلم لیگ ن،مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ فنکشنل کے حاصل کردہ کل
ووٹ 45%بنتے تھے لیکن اس اکثریت کے باوجود یہ حکمران جماعت نہ بن سکی اور
صرف 30%ووٹ لینے والی پیپلزپارٹی اقتدارمیں ہے یہ اعدادوشمار واضح کررہے
ہیں کہ مسلم لیگ کوسب سے زیادہ نقصان اس کے اپنے انتشار نے پہنچایا ہے ۔اگرہم
موجودہ اسمبلی اور سینٹ پر نظرڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں بھی مسلم لیگ
اکثریت میں نظرآئے گی کیوں کہ قومی اسمبلی میںمسلم لیگ ن،مسلم لیگ ق اور
مسلم لیگ فنکشنل کے کل ارکان کی تعداد 149ہے جبکہ پیلزپارٹی کے پاس
127ارکان ہیں ۔اسی طرح سینٹ میں تینوں مسلم لیگوں کے کل 29جبکہ پیپلزپارٹی
کے 27ارکان ہیںلیکن ہرجگہ اکثریت میں ہونے کے باوجود صدر،وزیراعظم،چیئرمین
سینٹ یاسپیکرشپ کوئی بھی بڑاعہدہ کسی مسلم لیگ کے پاس نہیں جس کی واحد وجہ
مسلم لیگوں کاایک پلیٹ فارم پراکٹھانہ ہونا ہے ۔مسلم لیگوں کے درمیان بڑھتے
فاصلوں کو کم کرنے کیلئے مسلم لیگ فنکشنل کی کوششیں قابل تعریف رہی ہیں
لیکن اس مقصد کی تکمیل اصل میں اسی وقت ہی ممکن ہوسکے گی جب مسلم لیگ ن اور
مسلم لیگ ایک دوسرے کے قریب ہوں گی اور یہ اس وقت ہی ہودا جب مسلم ن کی
قیادت میں لچک پیدا ہوگی کیوں کہ جب بھی مسلم لیگوں کے اتحاد کی باتیں
منظرعام پرآتی ہیں تو میاں صاحبان کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ
چوہدری برادران دس سال پرویزمشرف کاساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگیں
تواتحاد ممکن ہے میاں صاحبان یہ کہتے ہوئے قوم کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ
میاں صاحب نے اس مشرف کو ناجائزترقی دے کر آرمی چیف کیوں بنایا تھا کیایہ
اُن کاجرم نہیں ہے ؟ کیا وہ اپنی اس غلطی پرقوم سے معافی مانگ چکے ہیں جو
چوہدری صاحبان سے معافی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔اگر میاں نوازشریف یہ غلطی نہ
کرتے تو ہوسکتا ہے میرٹ کے مطابق آنیوالاآرمی چیف انہیں اقتدار سے نہ
نکالتا اور مسلم لیگ بھی اس طرح انتشارکا شکارنہ ہوتی اور دوسری بات یہ کہ
پرویزمشرف کاساتھ دینے کو جرم قرار دینے اوراس پر معافی مانگنے کامطالبہ
کرنے والے میاں برادران یہ بھی توقوم کو بتائیں کہ انہوں نے مشکل پڑنے پر
ملک ،قوم اور مسلم لیگ سب کچھ بھلاکراسی پرویزمشرف سے معاہدہ کرکے کیوںجدہ
روانگی اختیارکرلی تھی ؟کیااُن کایہ اقدام جائز تھا اگر نہیں تو پہلے وہ
قوم سے اس پرمعافی مانگیں پھر چوہدری برادران سے پرویزمشرف کا ساتھ دینے
پرغلطی کامطالبہ کریں ۔بعض ن لیگی حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ
مسلم لیگوں کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ چوہدری پرویزالٰہی ہیں حالاں کہ
یہ غلط تاثرہے جب کہ گزشتہ دنوں چوہدری شجاعت حسین صاحب کے دورہ امریکہ کے
دوران انہوں نے خود مجھ سے کئی مرتبہ اس بات کااظہار کیاکہ پاکستان کے وسیع
تر مفاداور سسٹم بچانے کیلئے ہم پیپلزپارٹی سے اتحاد کرسکتے ہیں تو مسلم
لیگ ن سے کیوں نہیں کریں گے ہمارے دروازے ہروقت ہرایک کیلئے کھلے ہیں ہمیں
ملک اور ملکی سلامتی اپنی ذاتی عزت اوراغراض سے زیادہ پیاری ہے یہی وجہ ہے
کہ ہم نے صرف جمہوریت کو بچانے کیلئے پیپلزپارٹی جیسی اپنی حریف جماعت کا
بھی ساتھ دینے میں کوئی برائی محسوس نہیں کی لیکن افسوس کہ شریف برادران کی
سیاست صرف اپنی ذات کے گرد ہی گھومتی ہے اوروہ اپنے مقابلے میں کسی کو بھی
کوئی اختیار دینے پر راضی نہیں ہوتے ۔اورواقعی چوہدری صاحب کی یہ بات درست
بھی ہے کیوں کہ شریف برادران نے چوہدری صاحبان اور پارٹی میںموجود اپنے
خاندان کے علاوہ کبھی کسی کو خاص ترجیح نہیں دی جاوید ہاشمی صاحب اس کی ایک
بڑی مثال ہیں جو بے شمار قربانیوں کے باوجود اس لئے پارٹی چھوڑ گئے کہ ان
کی کوئی بات اور تجویز قابل غور نہیں سمجھی جاتی تھی اورخود چوہدری شجاعت
صاحب جو کہ 1986ءسے نوازشریف کے قریبی ساتھیوں میں شامل رہے لیکن نوازشریف
صاحب نے کبھی اُن کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا صرف ایک دفعہ اُن کو وزیرداخلہ
بنایا گیا لیکن یہاں بھی اُن کی وزارت کے اختیارات سیف الرحمان استعمال کیا
کرتے تھے اس کے علاوہ 1997ءمیں جب مسلم لیگ نے دوتہائی اکثریت حاصل کی اس
وقت چوہدری پرویزالٰہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار تھے لیکن
میاں صاحبان نے وفاق اور پنجاب میں دونوں حکومتیں اپنے گھرمیں ہی رکھ لیں
مگراس کے باوجود چوہدری صاحبان نے بے وفائی نہیں کی اور شریف برادران کا
ساتھ نبھاتے رہے اوریہ ساتھ اب تک جاری رہتا اگر میاں صاحبان پرویزمشرف سے
معاہدہ کرکے باہر جانے کی بجائے ملک میں رہ کر مقدمات کاسامناکرتے ۔شریف
برادران کی سب عہدے اپنے پاس رکھنے کے مقابلے میں چوہدری شجاعت حسین صاحب
کی یہ خوبی ہے کہ وہ کبھی بھی بڑے عہدوں کے طلب گارنہیں رہے جس کاایک ثبوت
2002ءکے انتخابات کے بعداس وقت دیکھنے کوملا جب اُن کی پارٹی اکثریت میں
تھی اوروہ باآسانی وزارت عظمیٰ کی کرسی اپنے خاندان میں رکھ سکتے تھے لیکن
انہوں نے کہاکہ وزیراعظم بلوچستان سے ہوگا تاکہ اس کا احساس محرومی دور
ہوسکے اور پھرانہوں نے یہ وعدہ جمالی صاحب کو وزیراعظم بنواکرپوراکردیا ۔امریکہ
میں ایک ملاقات کے دوران چوہدری صاحب نے یہ دلچسپ بات بھی کی کہ نوازشریف
ہمیں پرویزمشرف کاساتھ دینے کی وجہ سے مجرم قراردیتے ہیں اور مسلم لیگوں کے
اتحاد کیلئے شرط قراردیتے ہیں کہ ہم قوم سے معافی مانگیں جبکہ دوسری جانب
جس مسلم لیگ ہم خیال سے اتحاد کیلئے نوازلیگ ایک عرصے سے ترلے کرتی رہی ہے
کیا یہ وہی پرویزمشرف کے ساتھی نہیں ہیں ۔صرف اسی ہی اندازہ لگایاجاسکتاہے
کہ میاں برادران پوری پارٹی کو صرف خود تک محدود کرنا چاہتے ہیں باقی سب
بہانے اور ڈرامے ہیں جن سے قوم خوب واقف ہے۔لیکن ان تمام باتوں سے ہٹ کر
ایک اچھی بات یہ ہے کہ دونوں سربراہوں یعنی نوازشریف اور چوہدری شجاعت حسین
صاحب نے ایک دوسرے کیلئے باہمی احترام کا رشتہ نہیں چھوڑا کیوں کہ چوہدری
شجاعت حسین صاحب کی والدہ کے انتقال پر میاں نوازشریف فواراََ اُن کے
گھرتعزیت کیلئے گئے اور تمام تراختلافات کے باوجود چوہدری شجاعت صاحب کو
میں کئی باریہ کہتے ہوئے سناکہ وہ میاں شریف صاحب کی اپنے والد کی طرح عزت
کرتے تھے ۔اللہ کرے ان دونوں رہنماؤں کے درمیان احترام کا یہ رشتہ ہی مسلم
لیگوں کے اتحاد کا ذریعہ بن جائے کہ یہی اقدام پاکستان میں حقیقی اور مثبت
تبدیلی لاسکتاہے۔ |