سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں
اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ1990 ءکے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ایف آئی
اے پیسے لینے والے سیاستدانوں کے خلاف کاراوائی کرے۔سپریم کورٹ نے ایک بزعم
خود بڑے سیاسی آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف بھی کاروائی کا
حکم دیا۔سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس
آئی کا انفرادی فعل بحیثیتِ ادارہ فوج کی بد نامی کا باعث بنا۔فوج سیاست
میں حصہ نہیں لے سکتی۔آئی ایس آئی اور ایم آئی کا سیاسی عدم ِ استحکام میں
کردار نہیں ہو سکتا۔سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ ایف
آئی اے پیسہ لینے والے تمام سیاستدانوں کے خلا ف کاروائی کرے اور ان سے
لوٹی ہوئی رقم بمعہ سود واپس لی جائے۔
ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان پچھلے سولہ سال سے سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی
پیروی کر رہے تھے۔1965 ءکی پاک بھارت جنگ کا یہ ہیرو جب آئی جے آئی کا حصہ
تھا تو پیپلز پارٹی مخالف جوانوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔وہ فوجی تھا تو فوج
اس پہ فخر کیا کرتی تھی اور جب وہ سیاستدان بنا تو سیاست میں بھی لوگ اس کے
دیوانے تھے۔جب مارشل لا ءآیا تو اصغر خان سمجھوتہ کر کے مروجہ سیاست میں
زندہ رہ سکتے تھے لیکن اس باصول فوجی نے چور دروازے سے اقتدار میں آنے سے
معذرت کر لی۔مخالفین نے کہنا شروع کر دیا کہ اصغر خان اچھا فوجی تھا لیکن
ناکام سیاست دان ثابت ہوا۔اس زمانے میں جب ایک زمانہ ضیا ءالحق کی جوتیوں
میں بیٹھ کے لیڈر بن رہا تھا۔اس باکمال شخص نے ناکامی کا الزام اپنے سر لے
لیا لیکن اصولوں پہ کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ایسے لوگوں سے قدرت نے ہمیشہ کوئی
بڑا کام لینا ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے پہ اگر اس کی روح کے مطابق
عمل در آمد ہو گیا تو پاکستان میں آنے والے دنوں میں اپنی حد سے تجاوز کا
راستہ پوری طرح بند ہو جائے گا۔
سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف بھی
کاروائی کا حکم دیا ہے۔کاروائی کا حکم ہمیشہ مجرموں کے خلاف دیا جاتا
ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے نے یہ بات تو ثابت کر دی کہ یہ دونوں صاحبان اپنے
مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کے مجرم ہیں۔اگر سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی
ایس آئی کے خلاف واقعی کاروائی ہو جاتی ہے اور انہیں اپنے کئے کی سزا مل
جاتی ہے اور فوج اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کرتی تو ذرا سوچیئے کہ اس
کے بعد وہ سیاستدان جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے بچ پائیں گے۔سب ہی
پکڑے جائیں گے۔پیسے تو وصول ہوں گے ہی یہ لوگ آئندہ سیاست کے لئے بھی نا
اہل ہوں گے۔ہمارے ملک کے این جی او زدہ لبرل فاشسٹ بھلے ہی آئینِ پاکستان
کا مذاق اڑاتے ہوئے اس میں صادق و امین کی شق پہ استہزاءاڑایں لیکن ابھی تک
یہ شق پاکستان کے آئین میں موجود ہے اور ایک ایسا شخص پاکستان کا چیف
الیکشن کمشنر ہے جو بطور منصف اپنے آپ کے بھی خلاف فیصلہ دے سکتا ہے۔یہ
فیصلہ جن کے خلاف ہے ان کا مکو تو بہرحال ٹھپا ہی جائے گا اور ان کا گند تو
صاف ہو کے ہی رہے گا لیکن یہ فیصلہ ملکی تاریخ میں ایک نئی طرح بھی ڈالے
گا۔کوئی مانے یا نہ مانے اس ملک میں آرمی چیف اور اس کے بعد ڈی جی آئی ایس
آئی ہی سب سے طاقتور لوگ ہوتے ہیں۔صدر وزیر اعظم اور باقی کے سارے حکومتی
کا رندے اپنے کرتوتوں کی بناءپہ ان کے سامنے کبھی آنکھ نہیں اٹھاتے۔اس لئے
کہ ہمارے ملک میں فوج ادارے کے طور پہ کام کرتی اور سیاست دان" ڈنگ ٹپاﺅ
"کام کرتے ہیں۔فوج کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے جبکہ سیاست دانوں کے پاس سوائے
فردِ جرم کے کبھی کچھ نہیں ہوتا۔یہ دو طاقتور ترین افراد اگر انصاف کے
کٹہرے میں لائے جاتے ہیں اور فوج اس سے لا تعلق رہتی ہے تو یہ بات اظہر من
الشمس ہو گی کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو فوج کی بھی اشیرواد حاصل ہے۔یہی
سے ایک نیا سورج طلوع ہو گا۔اس فیصلے پہ آج جو بغلیں بجا رہے ہیں ان کے
اوپر تو کرپشن کے اتنے کیسز ہیں کہ ان کی تو شاید آنے والی نسلیں بھی سیاست
نہ کر سکیں۔
اصغر خان کا اپنی سیاست کے جوبن کے زمانے میں ایک نعرہ تھا کہ "چہرے نہیں
نظام کو بدلو"میں سمجھتا ہوں کہ اس ضعیف لیکن اولوالعزم آدمی نے پاکستان کی
سیاست کا بالآخر نقشہ بدل کے رکھ دیا ہے۔اب نظامِ کہن رخصت ہونے کو ہے۔اب
وہی اس ملک میں سیاست کر پائے گا جو پاک اور صاف ہو گا۔جس کے دامن پہ کوئی
چھینٹا اور جس کے خنجر پہ کوئی داغ نہ ہو گا۔اب داغی اور بے داغ علیحدہ
علیحدہ کر دیئے جائیں گے۔وہ جو اگلی باریوں کے انتظار میں تھے اب پھر قلعوں
کی سیر کریں گے۔وہ جو ہر باری میں باری والے کے ساتھ ہوتے تھے لندن سے جاری
ان کے بیان بتا رہے ہیں کہ انہیں بھی اب اپنے مستقبل کی فکر پڑ گئی ہے۔کل
تک فوج کے ترانے گانے والے آج فوج کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہے ہیں تو یہ
کل کا خوف ہے جو انہیں فوج کے خلاف پیش بندی پہ مجبور کر رہا ہے۔باقی رہی
ٹانگہ پارٹیاںان کے لئے اس سردار کا وہ لطیفہ جسے شادی کے فوراََ بعد کہیں
دور جانا پڑ گیا۔پانچ سال بعد واپس آیا تو گھر میں پانچ بچے کھیل رہے
تھے۔اس نے سردارنی سے پوچھا تو اس سیانی سردارنی نے چار کے بارے سردار کو
مطمئن کر دیا ۔پانچواں جو سب سے چھوٹا تھا اور ایک پلیٹ میں پڑا دہی کھا
رہا تھا۔سردار نے اس کے بارے استفسار کیا تو سردارنی نے بڑی چاہت سے سردار
کے گلے میں ہاتھ ڈال کے کہا کہ اسے چھوڑیں یہ غریب تو دہی کھا رہا ہے۔اس سے
آپ کو کیا؟ تو یہ غریب تودہی کھا رہے تھے ان کا کیا قصور؟
ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کا شکریہ! چیف جسٹس افتخار چوہدری کا شکریہ!
اسلم بیگ اور جنرل درانی کا شکریہ ۔آرمی اور آرمی چیف کا شکریہ اگریہ سباس
فیصلے کو اس کی روح کے مطابق اپنی راہ لینے دیں۔یہ فیصلہ ہماری اور آپ کی
آنے والی نسلیں سنوار دے گا۔یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔اس فیصلے سے ہم استحکام کی
طرف بھی جا سکتے ہیں اور عدم استحکام کی طرف بھی۔قوم کو اب بیدار رہنا ہے
اور ان طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں جو پاکستان بنانا چاہتی ہیں۔پاکستان
کے دشمنوں کے ہاتھ توڑنے کا وقت سر پہ ہے۔اب بھی اگر آپ نے عشروں کے بنائے
اپنے اپنے خداﺅں کے بت نہ توڑے تو پھر وہی ہوتا رہے گا جو پچھلے تریسٹھ
سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔آئیے حق اور سچ کا ساتھ دیں۔حق آگیا اور باطل چلا
گیا بے شک باطل کو جانا ہی ہوتا ہے۔
پرانے بت ٹوٹیں تو بتکدے لرزہ بر اندام ہوا ہی کرتے ہیں۔قوم کے یہ مجرم اب
آپ کی پناہ میں آنے کی کوشش تو ضرور کریں گے۔جس طرح تریسٹھ سال تک انہوں نے
آپ کو ننگا کیا ہے۔اب آپ کی باری ہے۔انہیں قطعابچنے اور چھپنے نہ دیں۔شاعر
سے معذرت کے ساتھ
یہی خبیث جلیں گے تو روشنی ہو گی |