تعصب کی حقیقت اور چیف جسٹس کے جرائم

 جب میں نے اس ویب پر آرٹیکل لکھنا شروع کیے تھے تو میرا مشن یہ تھا کہ میں موجودہ سیاست پر کم اور اسلامی موضوعات پر زیادہ لکھوں گا۔اور میں نے اس کی کوشش بھی کی لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ حقائق کو بالکل نظر انداز کر کے، سچائی کا خون بہا کر بڑی ڈھٹائی سے اپنے جھوٹے اور فضول موقف کو اس ویب پر پیش کرتے ہیں تو میں نے بھی یہ فیصلہ کیا اگر اب میں خاموش رہوں گا تو شاید میں اپنے آپ کو معاف نہیں کرسکوں گا کہ میرے سامنے ایک غلط بات ہورہی تھی اور میں اس کے مقابلے میں سچ کو بیان کرنے کی طاقت کے باوجود چپ رہا۔اس لیے میں نے یہ آرٹیکل لکنھے کا فیصلہ کیا۔ہر شخص کو اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنے کا حق ہوتا ہے لیکن اگر کوئی فرد اپنی ذاتی وابستگیوں کی بناء پر سچائی کا خون کرتا ہے اور انصاف سے کام نہیں لیتا تو دراصل وہ ایک اخلاقی جرم کرتا ہے ۔

تعصب کتنی بری چیز ہے اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں ہے تاریخ میں ایک کردار گزراہے “مسیلمہ کذاب“ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کردیا تھا اور اس کے اس دعویٰ کے باعث کتنے ہی نو مسلم گمراہ ہوگئے تھے۔مسیلمہ کذاب تعلق بنو ثقیف سے تھا بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہےکہ جب اس ملعون نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ پیش کیا تو اس کے قبیلے کے لوگ تذبذب کا شکار ہوگئے تھے اور انہوں نے تحقیق کے لیے اپنے ایک فرد کو بھیجا کہ جاؤ زرا معلوم تو کرو کہ مسیلمہ کہتا ہے میں بھی محمد کی نبوت میں شریک ہوں تو یہ بات کہاں تک درست ہے ؟وہ فرد گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات بھی کی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے دعویٰ کو جھوٹ قرار دیا ۔یہ فرد وہاں سے واپس اپنے قبیلے آنے لگا ۔چونکہ مسیلمہ جھوٹا تھا اس کو پتہ تھا کہ یہ فرد اصل خبر لیکر آجائے گا اس لیے یہ اس کے انتظار میں رہتا تھا۔یہ فرد جب واپس آیا تو اس وقت شام کا وقت تھا مسیلمہ نے اس کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ اس کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا بتایا ہے۔اس فرد نے کہا کہ محمد سچے نبی ہیں اور تم جھوٹے ہو تم نبی نہیں ہو ۔اس پر مسیملہ نے کہا کہ اب تمہارا کیا ارادہ ہے؟اس نے کہا کہ اگرچہ تم جھوٹے ہو لیکن میں قریش کے سچے نبی پر بنو ثقیف کے جھوٹے نبی کو ترجیح دونگا۔اور اس فرد نے محض قوم پرستی اور تعصب کی بناء پر اپنی قوم کو کہا کہ مسیملہ سچ کہتا ہے۔یہ ہے تعصب کی حقیقت! جھوٹے مدعیان نبوت از ضیاء تسنیم بلگرامی

تعصب کی بناء پر یہود آج تک اسلام کے مخالف ہیں کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی ان کی قوم یعنی بنی اسرائیل سے ہوگا لیکن نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق نبی اسمٰعیل سے تھا اس لیے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔اب ہم اپنی بات کی طرف آتے ہیں

عدلیہ بحالی تحریک جوں جوں آگے بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے صدر آصف علی زرداری صاحب اور مشیر داخلہ رحمٰن ملک صاحب کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پہلے کراچی میں لانگ مارچ کے شرکاء پر تشدد کیا گیا۔اس کے بعد پنجاب میں بھی گرفتاریوں سا سلسلہ چل پڑا ہے۔اسلام آباد کو سیل کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا پر پابندی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے اور پنڈی میں جیو کی نشریات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔پی پی پی ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناطے یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے کسی تحریک کو دبایا نہیںجاسکتا لیکن اس کے باوجود پی پی پی کا رویہ ناقابل فہم ہے۔اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ پی پی پی الگ ہے اور زرداری ٹولہ الگ ہے۔بہر حال اب یہ تحریک اپنے عروج کیجانب جارہی ہے اور صرف دو دنوں میں ہی یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ جیت کس کی ہوتی ہے۔

اس وقت ہم اس بات کا جئزہ لیں گے کہ اس تحریک میں درست کون ہے اور غلط کون ہے؟ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان کا دامن بھی صاف نہیں ہے۔اور انہوں نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔اس لیے اب ان کا یہ کہنا کہ پی سی او کو نہیں مانتا غلط ہے۔اور یہ کہ چونکہ وہ پہلے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکے ہیں اس لیے ان کو دوبارہ بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھا لینا چایئے تھا۔اور یہ کہ یہ ساری تحریک عدلیہ بحالی کی نہیں ہے بلکہ چوہدری افتخار اپنی ذات کے لیے یہ تحریک چلا رہے ہیں۔یہ اس تحریک کے مخالفین کا نقطہء نظر ہے۔انکے اس نقطء نظر کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کتنا درست ہے۔پہلی بات تو یہ کہ اگر افتخار محمد چوہدری کو اپنی ذات ہی عزیز ہوتی تو ان کو سابق صدر جنرل مشرف کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔کیوں کہ وہ تو اس وقت بھی چیف جسٹس تھے۔ایک فرد کو اپنی ذات عزیز ہوتی تو وہ اپنی نوکری ہی کو کیوں خطرے میں ڈالتا وہ بھی اسی طرح آنکھیں بند کرلیتا جس طرح پی پی پی کے اکثر لوگوں نے اقتدار کی خاطر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں صرف اس لیے کہ ان کی وزارتیں ان کے ٹھاٹ باٹ چلتے رہیں وہ اپنی محبوب لیڈر کے قتل کی ایف آئی آر نہیں درج کراتے کہ ان کو پتا ہےکہ اگر ہم نے اس معاملے پر زیادہ بولا تو ہم کو پیچھے کردیا جائے گا ۔جس طرح مسلم لیگ ن اور ق کے لوٹے اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہوئے صرف اپنی ذات کی خاطر اور اقتدار کی خاطر پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔جس طرح متحدہ کی قیادت نے صرف اقتدار اور اپنے فوائد کی خاطر اپنے شہداء کے قاتلوں سے اتحاد کیا ہوا ہے۔جس طرح اے این پی نے بھی اپنے شہیدوں کے لہو کو بیچ کر ان کے قاتلوں کے ساتھ حکومت میں بیٹھے ہیں صرف اور صرف اپنے ذاتی فوائد اور وقتی اقتدار کی خاطر۔ تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لیے تو یہ بہت آسان تھا کہ وہ ماضی کی طرح ایک بار پھر پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیتے۔لیکن پہلی بار اتنے ذمہ دار عہدے پر فائز کسی شخص نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور اپنی ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرنا شروع کی ۔ارباب اختیار سے یہ برادشت نہیں ہوا کہ کیوں کہ ان کو پتا تھا کہ جب کسی کا ضمیر جاگ جاتا ہے تو پھر اس کو جھکانا مشکل ہوتا ہے اس لیے ان کو معزول کردیا اوران کے نام پر سیاست کرنے والےاب ان کو بحال کرنے پر تیار نہیں، تو ثابت ہوا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ماضی میں جرم پی سی او کے تحت حلف اٹھانا اور ایک ڈکٹیٹر کا ساتھ دینا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل جرم مزید کسی کا آلہ کار بننے سے انکار کرنا ہے ان کا اصل جرم ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔ان کا اصل جرم عدلیہ کے دامن پر ماضی میں لگے ہوئے داغوں کو صاف کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ان کا یہ جرم ناقابل معافی ہے۔کیوں کہ ایک فرد نے اچانک اٹھ کر ایجنسیوں کے ذمہ داران کو عدالت میں طلب کرنا شروع کردیا ۔ان ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام کو جن اداروں کے ایک معمولی چپڑاسی سے بھی لوگ ڈرتے ہیں۔جن اداروں کا ایک معمولی اہلکار بھی اپنے علاقے کا بادشاہ اور ان داتا ہوتا ہے۔ان اداروں کے اعلیٰ افسران کو عدالت میں طلب کرنا کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اگر کسی تھانے کا ایک سب انسپکٹر بھی اگر کسی فرد کو اٹھا کر بند کردے تو وہ رشوت لیے بغیر نہیں آسکتا۔ایک معمولی سپاہی کسی بھی فرد کو سر راہ روک کر اس کی عزت نفس کو مجروع کرسکتا ہے۔ان اداروں کے اعلیٰ افسران کو عدالت میں گھسیٹا جائے چیف جسٹس کا یہ جرم کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔پھر دوسرا جرم جب چند بڑے مل کر ملک کے کچھ ادراوں کو اونے پونے بیچ رہے تھے پہلے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی اگر عوام نے کبھی اس پر آواز اٹھائی تو اس کو نظر انداز کردیا گیا کہ عوام کو کام ہی چیخنا چلانا ہے اور حکمرانوں کا کام ان کی آوازوں کو نظر انداز کرنا اور اگر زیادہ شور ہو تو اس آواز کو ختم کردینا ہوتا ہے لیکن میں عدلیہ نے کبھی ایسے “معمولی “ واقعات کو درخورد اعتناء نہیں جانا اس تناظر میں چیف جسٹس نے اگر اسٹیل ملز کے سودے کو منسوخ کردیا تو کیا یہ جرم معاف کیا جاسکتا ہے۔نہیں جناب یہ جرم قابل معافی نہیں ہے۔اس کی سزا تو ملنی تھی ۔ایک اور بڑا جرم ان کا یہ بھی تھا کہ عوام نامی مخلوق جو کہ افسر شاہی کے ظلم کا شکار تھی،جس کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا کیوں کہ قانون کے رکھوالے خود قانون کو بیچتے ہیں،قانون کے محافظ ایک بس میں سے ایک دیہاتی کو اٹھاتے ہیں کہ تم ڈاکو معشوق بروہی ہو اور اس بیگناہ کو مار کر انعام وصول کرلیا جاتا ہے وہ لاکھ چیختا رہا کہ میں معشوق بروہی نہیں ہوں لیکن اس کی بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیوں کہ وہ ایک عام فرد تھا عوام میں سے تھا۔ایسے ماحول میں اگر ہمار ایجنسیوں نے چند درجن افراد کو اٹھا کر بیچ دیا یا غائب کردیا تو عدالت کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس معاملے میں مداخلت کرے لیکن توبہ کریں صاحب یہ چیف جسٹس تو بالکل ہی انوکھا تھا اس کو تو ہر معاملے میں “پنگا “ لینے کی عادت تھی۔ان گمشدہ افراد کے لیے خود ہی ایکشن لے لیا۔کیا یہ کوئی معمولی جرم ہے ؟اب بھلا بتاؤ جو حکومت نے ایک ادارہ بیچ دیا خریدار نے خرید لیا تو آپ کو کیا ضرورت تھی بولنے کی لیکن نہیں فوراً سومو ٹو ایکشن لیکر اس سودے کو مسوخ کردیا کہ یہ ملک کا اثاثہ ہے۔بھولے بادشاہ کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اگر یہ ملک کا اثاثہ ہے تو ملک کس کا ہے ظاہر ہے ارباب اختیار کا ان کی مرضی بیچیں یا نہ بیچیں مگر انہوں نے تو رنگ میں بھنگ ڈال دیا کیا یہ جرم معاف کیا جاسکتا ہے؟ ایسے “نااہل “ اور “ غیر ذمہ دار“ فرد کہ جس کو ہوا کے رخ پر چلنے کا ڈھنگ نہیں آتا وہ اس لائق نہیں ہے کہ اس کو بحال کیا جائے۔اس کو ہمیشہ کے لیے معزول کردینا چاہیے اور اس کو قرار واقعی سزا بھی دینی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی سرپھرا اربا ب اختیار کے رنگ میں بھنگ نہ ڈال سکے۔اور نہ ہی ملک میں انصاف فراہم کرنے کی اور قانون کی بالادستی کا جرم نہ کرے۔

ان تمام باتوں پر غور کریں اور پھر بتائیں کہ کیا ایک کرپٹ انسان اچھا ہوتا ہے یا وہ کہ جس کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ اس کی تلافی کرنا چاہے۔؟افتخار محمد چوہدری کو اس کے ماضی کے حوالے سے معطون کرنے والے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر ان کا کوئی پیارا کسی برائی میں مبتلا ہو یا کوئی غلطی کرلے تو کیا وہ اس کو اصلاح کا موقع نہیں دیں گے؟آج پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں پہلی بار عدلیہ فعال ہوئی ہیں ان کو اپنی ماضی کی غلطیوں کو احساس ہوگیا ہے اور وہ اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتے ہیں کیا اس کو موقع نہیں ملنا چاہئے؟ آخر میں ایک بار پھر ہم یہی کہیں گے کہ اگر معزول چیف جسٹس اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل کرنا چاہتے تو وہ ارباب اختیار سے ٹکراؤ نہیں مول لیتے بلکہ ماضی کی طرح خاموش رہتے۔لیکن انکی تحریک اپنی ذات کے لیے نہیں ملک کے استحکام کے لیے ہے کہ جہاں ہر ظالم کو، ہر قاتل، ہر مجرم کو یہ احساس ہو کہ وہ اپنے جرم کی سزا پائے گا۔اس کے بغیر وہ نہیں رہ سکتا تو پھر ہی اس معاشرہ میں سدھار پیدا ہوگا ۔اور اگر خدانخواستہ یہ تحریک ناکام ہوتی ہے تو یاد رکھیں ایک طویل عرصے تک اس معاشرے میں کوئی کسی مظلوم کےلیے آواز نہیں اٹھائے گا۔کسی ظالم کا ہاتھ روکنےکی کوشش نہیں کرے۔پھر اس ملک میں صرف ظلم کا اور طاقت کا راج ہوگا۔اللہ ہمیں اس وقت سے بچائے اور جو لوگ اپنی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگائے بیٹھے ہیں تو ان کے لیے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے کہ وہ حق اور باطل میں فرق محسوس کر سکیں۔آخری بات کہ اس تحریک کے مخالفین کیا ماضی تو ماضی بلکہ حال کیا ہے اس پر ہم ان شاء اللہ اپنے اگلے کالم میں بات کریں گے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1451869 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More