سازشوں کی خوشبوئیں

وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک اپنے جس منطقی انجام کی جانب رواں دواں ہے اس سے عام و خواص سب اچھی طرح واقف ہیں۔ ریلیاں اور اسکے نتیجے میں ملک میں جو افراتفری اور بے چینی اور مشکلات پھیل رہیں ہیں ان کا اندازہ تو ان ہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو ان ریلیوں اور طوفان بدتمیزی کی وجہ سے مثاثر ہورہے ہیں اور جن عوام کی خاطر ہماری آزاد عدلیہ کے علمبردار روڈ اور راستے بند کیے بیٹھے ہیں۔ اگر حکومت ممکنہ نا خوشگوار واقعات کو روکنے کے لیے کچھ اقدامات کر رہی ہے تو اسے ہم بوکھلاہٹ اور غیر جمہوری اقدامات کیسے کہہ سکتے ہیں دنیا کے کیا مہزب معاشرے میں کسی بھی ملک میں دھرنے اور جلسے اور ریلیاں اس طرز پر ہوتی ہیں جیسے ہماری نام نہاد جمہوری پارٹیاں کرنے کی کوشش کر رہیں ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہماری وہ جمہوری پارٹیاں جو حکومت میں شامل نہیں ہو سکیں وہ دنیا کی دوسری جمہوری پارٹیوں سے زیادہ ہوشیار اور جمہوری اقدار رکھنے والی ہیں۔ دوسرے بات بھائی عرض یہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ موجود ہے اور اگر چند اختلاف رائے رکھنے والے جج جو پی سی او میں تو فوراً حلف اٹھانے والے بن گئے تھے اب سیاسی فائدے اٹھانے کے چکر میں حلف نہیں اٹھا رہے تو کیا ان گنتی کے ججز کے مخصوص مقاصد کے پورا نا ہو سکنے اور حلف نا اٹھانے کے عمل کی وجہ سے ہم یہ قرار دے دیں کہ عدلیہ بحال نہیں ہے۔ عدلیہ بے شک بحال ہے اور ان میں وہی جج حضرات موجود ہیں جنہوں نے چودہری افتخار معزول چیف جسٹس کے ساتھ اسٹینڈ لیا تھا اور ان حضرات کو شاید یہ اندازہ ہو گیا کہ چند حلف نا اٹھانے والے ججز حقیقتاً کن قوتوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اور ان کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ اب اگر جمہوری اقدار کو نظر میں رکھیں تو پچاس پچپن ججز ایک طرف اور تین چار ججز ایک طرف تو میرے بھائی انصاف سے فیصلہ کر کے اپنے دل میں اپنے آپ ہی کو جواب دے دو ایمانداری کے ساتھ کہ جمہوریت کی رو میں اسے کیا کہتے ہیں۔ جمہوریت میں ووٹ گنے جاتے ہیں نیت نہیں۔ 
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 494116 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.