کسی ناخوشگوار واقعات سے بچاؤ کا راستہ

کل کلاں کو کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو گیا تو کچھ بھائی یہ کالم لکھنے میں مصروف ہونگے کہ حکومت کو کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ اور میرے بھائی کراچی میں گیارہ مارچ کی شب سے جو گرفتاریاں اور ٹول پلازہ سے جو گرفتاریاں کی گئیں تھیں ٹی وی اور اخبارات کی خبروں سے معلومات یہ ہوئیں ہیں کہ ان تمام حضرات کو کراچی میں لا کر رہا کر دیا گیا ہے تو میرے بھائی کراچی کے امیج کو مزید خراب کرنے کے لیے کراچی کی بات اس طرح کرنے سے ہمیں بچنا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ قطعہ نظر اس بات کے کہ دفعہ ایک سو چوالیس صحیح نافذ کی گئی یا غلط کیا اگر حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایسی دفعات نافذ کرتی ہے تو آپ کیسے قانون کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قانون کے نام نہاد نگہبان ہی جب قانون شکنی پر اتر آئیں اور انہیں ہم جیسے مہربان لوگوں کی حمایت حاصل ہو جائے تو ان کو اور کیا چاہیے۔ اور زرا ہمت اور انصاف سے ان اہم رہمناؤں کے نام بھی بتا دیں جو گرفتار ہوں اور دوسرے یہ کہ ہماری معلومات کے مطابق بہت بڑے بڑے اور نامی گرامی رہنما اس چکر میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے اور نظر بند کر دیا جائے تاکہ وہ جلسوں اور ریلیوں اور دھرنوں کے زحمت سے بچ نکلیں آپ ہمارے سیاستدانوں کو شاید جانتے نہیں ہیں کہ کس قماش کے رہنما ہماری سیاسی پارٹیوں میں موجود ہیں جو ہر وقت اپنی ذات کو تکلیف سے بچانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔

اور موازنہ صرف پی پی پی حکومت کا نہ کریں بلکہ نواز لیگ کا بھی کریں ان کی سیاست اختلافات اور لڑائی جھگڑے کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔ جب امیر المومنین بننے کے چکر میں لگے تو جنرل کرامت سے کشیدگی، سجاد علی شاہ سے لڑائی، سپریم کورٹ آپ پاکستان پر حملہ، فاروق احمد خان لغاری سے جھگڑا، صدر اسحاق خان سے زبردست اختلافات، کارگل پر سابق صدر پرویز مشرف سے اختلاف، اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کی پاکستان میں غیر موجودگی کے وقت ان کو برطرف کرنے کے احکامات اور پھر طیارہ سازش کردار اور بالاخر درمیاں مین ضامنوں کو پڑوا کر اپنی ن لیگ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر صندوق کے صندوق بھروا کر ملک سے معافی نامے لکھ لکھ کر بھاگ جانا اور اور جس پارٹی کے اپنے دور حکومت میں اتنوں سے اختلافات اور جھگڑے ہوں تو وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے کیا کچھ کر دے کم ہے۔

آج ان معافی نامہ کا انکار۔ جو شخص اپنے معاہدوں کو پورا نا کرسکا ہو آج وہ ایک منتخب صدر کیا اسکے وعدے یاد دلاتا کیا اچھا لگتا ہے۔ اگر کوئی معاہدے کر کے ملک سے نہیں گئے تھے تو بھائی آٹھ سال تک کیا کرتے رہے سعودیہ میں مسئلہ یہ ہے کہ جب اندازہ ہوا کہ مشرف ایک جمہوری سوچ رکھنے والا اور اعتدال پسند حکمران بنا بیٹھا ہے تو ہمت کر کے واپس آگئے اور گزشتہ وعدوں سے مکر گئے اور عوام بھولی عوام کہاں سمجھتی ہے ان جھمیلوں کو۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 492907 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.