صدر صاحب اور پی پی پی میں اختلافات کی گمراہ کن سن گن

کچھ ہمارے بھائیوں کا یہ خیال باطل محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ تحریک کے نتیجے میں صدر صاحب کی اپنی پارٹی کے جو لوگ میڈیا پر مخالفت کرتے دکھائیں دے رہے ہیں اصل میں ان میں سے اکثریت کو عہدے اور سیٹیں نہیں دی گئی تو وہ تو جو واویلا کریں کم ہیں۔ تو سینیئر رہنا اپنی قیادت کے ان فیصلوں کی وجہ سے ناخوش ہیں کہ مذکورہ رہنماؤں کو ان کا حصہ بقدر جصہ نہیں مل پا رہا۔

اپنی صوبائی حکومت ختم ہوئی تو شکایات اور اختلافات کے انبار لگ گئے ورنہ جو فروری کے انتخابات کے بعد سے ہو رہا تھا اس پر زبانی کلامی بیانات چلتے رہے اور اپنی حکومت ہاتھ سے گئی تو تکلیف کے انتہا ہوگئی۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے بھوکے ہیں ورنہ ایک وقت میں سپریم کورٹ پر حملہ کروانے والی پارٹی اب سپریم کورٹ کی حمایت میں بات کر رہی ہے تو بھائی یاد رکھو کہ بھیڑیا کبھی بکری کا دوست نہیں ہوتا۔

ہم پتا نہیں کونسی دنیا میں رہتے ہیں قرآن میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے جسکا مفہوم کچھ اسطرح سے ہے کہ جیسی قوم ہوتی ہیں ہم ان پر حکمران بھی ویسے ہی مسلط کرتے ہیں تو بھائی قرآن کی اس بات سے نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ہم کو بحیثیت ایک قوم پہلے اپنی حالت بہتر بنانی ہے حکمران بھی بہتر آنے شروع ہو جائیں گے۔ ہم تو رہیں کرپٹ، بدنیت، بے ایمان، دھوکے باز اور حکمران ہمارے فرشتوں جیسے آئیں تو یہ تو ممکن نہیں۔

اور جناب محترم بھائیوں اب تک مسند صدارت پر جو بھی بیٹھا ہے نام لینے کی ضرورت نہیں کیا ان تمام کے قول و فعل میں یکسانیت تھی کسی ایک کا نام تو بتا دو سب عوام سے وعدے وعید کچھ کرتے رہے اور کرتے کچھ اور رہے۔

چلیں بسبیل تزکرہ چند نام لیتے ہیں ایوب خان نے کم و بیش سال دس سال تک حکومت کی کیا وہ محترم جب اقتدار پر قابض ہوئے تھے دس سال کا کہہ کر آئے تھے اور نواز شریف صاحب کے سیاسی سرپرست اعلی جناب ضیا الحق مرحوم نے کتنے دنوں میں انتخابات کا وعدہ کیا تھا اور اپنی زندگی کی آخری ساعت تک اقتدار چھوڑنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا اور جسطرح اپنی ہی سجائی ہوئی جونیجو حکومت کا جو حشر کیا تھا کیا وہ ہمارے محترم بھائیوں کو نظر نہیں آتا یا محض تعصب کی عینک لگا کر اور عصبیت کی چادر اوڑھ کر بیٹھے ہیں۔

اور جو اپنے منصب سے انصاف نہیں کر پا رہا اور اس کے قول و فعل میں تضاد کی خوشبوئیں لوگوں کو آرہی ہیں تو کیا غیر جمہوری طریقے اختیار کیے جائیں اور لوگوں کو آپ کی مرضی کے مطابق منصب پر فائز اور منصب سے ہٹایا جائے یا اس کا بھی کوئی قانونی طریقہ آئین میں موجود ہے۔ اس کا طریقہ کچھ اسطرح کا نہیں ہے کیا کہ جو اپنے منصب سے انصاف نہیں کر پا رہا عوام اسے دوبارہ منتخب نہیں کریں گے اور عوام کو اختیار ہے جسے چاہیں لے آئے اور جسے نا چاہیں اسے نا لائیں ہماری جمہوریت یہ ہی کہتی ہے نا یا کچھ اور کہتی ہے۔
غلط کرنے والا بالآخر اپنے ووٹر کے پاس جائے گا اور اسکے ووٹر اسے مسترد کردیں گے یہی ہو گا نا میرے بھائی یا ہماری اور آپکی پسند نا پسند کے مطابق فیصلے ہونے چاہیے۔ جنرل مشرف کی پالیسیوں کو اگر عوام نے مسترد کر دیا ہے تو وہ تو ماضی ہو گیا اب ہمیں مشرف فوبیا سے نکل آنا چاہیے یا پھر آزادی کے بعد سے ہونے والے تمام حالات و واقعات پر بحث اور نقطہ چینی کرنی چاہیے۔ مشرف کہیں ملک سے باہر تو نہیں گیا ہے اس کو لے آئیں کٹہرے میں اور لے لیجیے اس سے حساب وہ کیا کہے گا یہی نا کہ اگر میں جامعہ حفضہ میں غلط کر رہا تھا تو ملک کی اعلیٰ ترین اقدار رکھنے والی نوے فیصد جماعتیں انگلینڈ کے پرشکوہ ہوٹل میں جو اے پی سی ٹائب کا ڈرامہ کر رہیں تھیں اس میں کیا ہو رہا تھا اور اس کے نتیجے میں کیا ملک و قوم کے ساتھ اچھا ہوا ہمیں بھی تو پتا چلے نواز شریف صاحب نے کروڑوں روپے تین دن تک انگلینڈ کے مہنگے ترین ہوٹل کو بک رکھا اور سیاسی لیڈران جو غریب ملک کے غریب عوام کی نمائندگی کر رہے تھے وہاں جو گلچھڑے اڑاتے رہے وہ تین دن تک اس بھوکی قوم نے بخوبی دیکھا۔ اور آج اس اے پی سی اور اس لندن ڈیکلریشن کے ٹوٹ جانے کے گلے شکوتے اور طعنے دیے جا رہیں ہیں۔

امریکی تمام کے تمام صدور اور برطانوی حکومتوں کے سربراہوں نے اپنے کون سے وعدے پورے کیے ہیں اپنی قوم کے ساتھ اور ہمارے ساتھ عراق کا معاملہ ہو یا افتانستان کا، پاکستان کا ہو یا کسی اور کا۔ مگر شرم ہم کو مگر نہیں آتی، خود ہم جیسے بھی ہوں حکمران ہمیں فرشتے جیسے درکار ہیں اسے منافقت کہتے ہیں میرے بھائی۔

ووٹر اگر اپنے لیڈر سے اپنی قیادت سے متنفر ہوگا تو ظاہر ہے اگلی مرتبہ اس کو ووٹ نہیں دے گا آپ کا اور ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس پر تو آپ خوش ہونگے یا نہیں اس جمہوری حکومت کو پانچ سال سے پہلے ہی چلتا کر دینے کے چکر میں لگے رہیں گے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533012 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.