قوم سب کو پہچان چکی ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ کو اصغر خان کیس میں تاریخی فیصلہ سنایااس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 1990کے انتخابات میںدھاندلی کرنے پر سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس فیصلے کی ملک بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے فیصلے سے یقینا پاکستان خصوصاََ وطن عزیز کی عدلیہ کا وقار بلند ہوا ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم کے دو دن بعد لاہور میںچوبیس ہزار دوسو نوجوانوںنے دنیا کا سب سے بڑا انسانی جھنڈا بناکر پاکستان کا نام دنیا بھر میںبلند کردیایہ محض اتفاق ہے کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے ساتھ ہی لاہور میں نوجوان گینیز بک آف ورلڈ میں اپنا نام درج کرانے کا ریکارڈ قائم کررہے ہیں لیکن قوم سیاست دانوں اور حکمرانوںکی طرف سے بھی ملک کا نام روشن کرنے کے لیئے ایسے ہی تاریخی اقدامات کی منتظر ہے۔اس مقصد کے لیئے آصف علی زرداری کوسپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کاعہدہ چھوڑدینا چاہئے یا پھر صدر پاکستان کا،میاں نواز شریف اور دیگر کو1990 کے انتخابات میں رقم لینے کے الزام میںاپنے آپ کو قانون کے حوالے کردینا چاہئے ، متحدہ کے قائد الطاف حسین کو ملک اور قوم سے سچی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے میں فوری وطن واپس آجانا چاہئے، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیارولی کو غیرت مند پٹھان اور سچے پاکستانی ہونے کا مظاہرہ کرتے اپنی پارٹی کو ناکام اور بدنام حکومت سے علیحدہ کرلینا چاہئے اسی طرح دیگر تمام سیاسی اور تجارتی شخصیات کو بھی اپنی عزت اور حیثیت کے مطابق ملک کا وقار بلند کرنے کے لیئے اقدامات کرنے چاہئے ۔

لیکن سب سے پہلے سابق چیف آف آرمی جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کو مزید کارروائی کے لئے اپنے آپ کو ازخود متعلقہ حکام کے حوالے کردینا چاہئے ۔

وہ دن ویسے بھی دور نہیں کہ جب وہ نوجوان جنہوں نے دنیا کا سب سے بڑا پاکستانی جھنڈا بناکر جس اتحاد اور تنظیم کا مظاہرہ کیا ہے وہ جلد ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں گے۔

دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام متعلقہ شخصیات سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہنے اور تسلیم کرنے کے باوجود اس فیصلے کی لپٹ میںآنے سے بچنے اور اپنے آپ کو بچانے یا مستثنیٰ کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی ہیں۔

ملک کے تمام سیاست دان، جرنیل ،تاجر اور عام لوگ سب ہی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ محب وطن،قانون پسند اور ملک سے مخلص ہیں سب ہی کی خواہش ہوتی ہے کہ ملک کی عزت ،وقاراور نام بلند ہو ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درامد کرنے اور کرانے میں ہم لیت و لعل سے کام لیتے ہیں؟ ہمارے وزیر جھوٹے ، بددیانت اور بے ایمان قرار دیئے جانے کے باوجودکرسی نہیں چھوڑتے اور کوئی انہیں ہٹاتا بھی نہیںاور شائد ہٹابھی نہیں سکتا ۔۔۔۔کیوں ؟

2008 کے انتخابات کے بعد ملک میں جیسی تیسی جمہوریت قائم ہوئی تو اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے خود اقرارکیا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت بحال ہوگئی ہے،ہر طرف خصوصاََ سیاسی حلقوں میں شادیانے بجنے لگے۔قوم جو کم از کم پرویز مشرف کے ابتدائی دور تک ”ایک ہجوم“ بنی ہوئی تھی بے نظیر کے سرعام قتل سے دھل کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ جمہوریت ہی اس ملک کی ضرورت ہے اسی وجہ سے لوگوںنے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو منتخب کرکے ملک اس کے حوالے کردیا تھاتاکہ ملک ترقی کرے خوشحالی عام آدی کے چہرے سے ظاہر ہو، ہر طرف ترقیاتی کام ہوتے ہوئے نظرآئے ، بیروزگاری کا خاتمہ نہیں تو کم تو ہوجائے ،امن وامان بہتر ہوجائے ،ملک معاشی لحاظ سے دنیا کے دیگر ممالک کے قریب پہنچ جائے لیکن اس قوم نے جلد ہی دیکھ لیا کہ جمہوریت کے چمپیئن تو آمریت کے کپتانوں سے دو ہاتھ آگے ہیںیہ کھلم کھلا آئین اور قانون کامذاق اڑارہے ہیں،یہ لوگ اپنے ساتھ” دھری شہریت‘رکھنے والوں کو بٹھاکر اپنے آپ کو ملک اور عوام سے محبت کرنے والا ظاہر کرتے ہیں جبکہ یہ تو وہ ہیں جو اپنی اہلیہ کے قاتلوں کو نہیں پکڑسکے اور ہر روز لوگوں کی زندگیاں چھین لینے والوں کو جلد پکڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لوگ جان گئے ہیں کہ یہ تو وہ ہیں جو جمہوریت پہترین انتقام کا نعرہ لگاتے ہوئے ”قاتل لیگ“ کو نائب وزیراعظم کی ایک نئی کرسی دے چکے ۔یہ تو اتنے قانون پسند ہیں کہ این آر او جیسے کالے قوانین کو سفید کرنے کے چکر میں رہتے ہیں،لوگوں کو جلد ہی سمجھ میں آگیا کہ یہ سب تو وہ ہیں جو اپنے آپ کو بچانے کے لیئے آئین تک بدل دیتے ہیں پھر بھی قوم یہ امید لگائی بیٹھی ہے کہ یہ ان جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں گے جو سیاست دانوں کو خریدا کرتے تھے اور جنہیں ان ہی سیاست دانوںنے ایوارڈ اور سفارت کار ی سے نوازا تھا۔

قوم کو اب یقین کرلینا چاہئے کہ یہ ایسا کچھ کرنے والے نہیں ہیںجس سے ان کا مستقبل تاریک ہوجائے اور ملک روشن، ان کا ایجنڈا ملک اور قوم کو تاریکیوں میں دھکیل کرخود کو ہمیشہ اجالوں میں رکھنا ہے۔

بھلا یہ کسی جرنیل اور ان کے خاص ساتھیوںکے خلاف کیسے کاررروائی کرسکتے ہیں جو حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرویز مشرف حکومت کے لئے مذاکرات کرنے والی ٹیم کا ممبر تھے ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ ایک بار پھر وہ جرنیل جنہوں نے ماضی میں اپنے پیشرو کے حکم پر غیرآئینی خدمات انجام دیں اور سیاست دانوں سے مذاکرات کئے تھے حرکت میں آسکتے ہیں جس کی وجہ بھی یہ ہی ہوسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر سابق جرنیلوں کا احتساب نہ ہونے پائے۔

ملک کی تاریخ میں کسی بھی جرنیل کے خلاف کارروائی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے لیکن جرنلوں کی طرف سے جمہوریت اور جمہوری لوگوں کے خلاف کارروائیوں کی کئی مثالیں تاریخی میں ملتی ہیں جس کی وجہ شائد یہ ہی ہو کہ یہ لوگ ان نام نہاد جمہوریت پسندوں کو مظلوم بناکر ظالم کے روپ میں ان کی احیاءکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152718 views I'm Journalist. .. View More