10 اپریل 1986 ایک ایسا تاریخ
ساز لمحہ تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی جلا وطنی کو خیر باد کہہ کر وطن
واپس تشریف لائیں تھیں اور جنرل ضیاا لحق کی آمریت کے خلاف ایک فیصلہ کن
تحریک کا آغاز کیا تھا۔ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان پیپلز
پارٹی کا یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھااور اگر میں یہ کہوں کہ اس دھرتی پر کسی
بھی انسان کے استقبال کا سب بے نظیر، اور بے مثل منظر تھا تو بے جا نہیں ہو
گا ۔18اکتوبر کا اجتماع بھی ایک ایسا ہی تا ریخ سازلمحہ تھا لیکن کارساز
میں دھشت گردی کے واقعے نے اس اجتماع کی اہمیت کو سوگ میں بدل دیا تھا ۔جنرل
پر ویز مشرف اور ان کے حواریوں کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی کسی
بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھی کیونکہ اس کی آمد سے ان کے اقتدار کا محل
زمین بوس ہونے کا خدشہ تھا۔ ان کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ محترمہ بے
نظیر بھٹو کی واپسی کو روکنے کا اہتمام کرتے یا پھر اسے اپنے راستے سے ہٹا
دیتے۔انھوں نے دونوں حربے آزمائے۔ پہلے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو ڈرایا
دھمکایا کہ وہ وطن واپس نہ آ ئیں لیکن جب بی بی نے د ھمکیوں سے مرعوب ہو کر
واپسی کو موخر کر دینے سے انکار کر دیا تو پھر انھیں جان سے مار دینے کی
سازش تیار کی گئی۔وہی ہاتھ جو ذولفقار علی بھٹو کے قاتل تھے وہی ہاتھ
محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی قاتل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت پاکستان
قومی اتحاد نے یہ کام سر انجام دلوایا تھا اور اس دفعہ جنرل پرویز مشرف کے
تیار کردہ دھشت گردوں کے ٹولے سے یہ کام لیا گیا تھا ۔ اس وقت بھی مذہبی
پیشوائیت پیش پیش تھی اور اس دفعہ بھی مذہب کے علمبردار گروپ سر گرمِ عمل
تھے۔۲ مئی کے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں مو جو دگی کے بعد کسی کو اس
بات میں کو ئی شک و شبہ نہیں رہا کہ جنرل پرویز مشرف امریکنوںکے ساتھ ڈبل
گیم کھیل کر اپنی جیبیں بھر رہا تھا۔امریکہ کو دھشت گردوں کا ہو ادکھا کر
پیسے بٹور رہا تھا جب کہ دھشت گردوں کا سرغنہ اسامہ بن لادن خفیہ ا یجنسیوں
کے سائے میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پر امن زندگی گزار رہا تھا جس کی حکومت
کو مکمل خبر تھی۔اسامہ بن لادن مذہبی پیشوائت کے بہت قریب تھا تبھی تو اس
نے 1990 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحر یکِ عدمِ اعتماد میں اربوں
روپے لگا کر اسلامی جمہوری اتحاد کی پیش کردہ تحریکِ عدمِ ا عتماد د کی
کھلم کھلا حمائت کی تھی ۔یہ الگ بات کہ بات پھر بھی نہ بن سکی اور یہ تحریک
ناکام ہو گئی لیکن فوجی جنتا نے اس کا بدلہ ۶ اگست 1990 میں محترمہ بے نظیر
بھٹو کی حکومت کی برخاستگی کی صورت میں لیا۔مذہبی پیشوائت بھی عجیب و غریب
شہ ہے ہر وقت بکنے کے لئے تیار رہتی ہے ۔ پہلے جنرل یحی خان کے ہاتھوں بکی
پھر جنرل ضیا ا لحق کے ہاتھوں بکی اور آخر میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں
بکی اور اٹھارویں ترمیم کا تحفہ دے کر قوم کو جنرل پرویز مشرف کی بے رحم
آمریت کا اسیر بنا ڈالا۔ لیکن جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسی آمریت کے محل
کو زمین بوس کرنے کے لئے اپریل 1986 کو وطن تشریف لانے کا فیصلہ کیا تو اسی
مذہبی پیشوائیت نے ان کی وہ کردار کشی کی انسانیت بھی اپنی نگاہیں جھکا
لے۔اس وقت کے اخبارات میرے دعوے کی صداقت کے ثبوت کے لئے کافی ہیں ۔ آج کل
مذہبی پیشوائیت کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قا تلوں کی گرفتاری کا غم کھائے
جا رہا ہے حالانکہ اس قتل میں تو وہ خود شامل تھی لیکن اس کا اقرار کبھی
نہیں کرے گی۔ اگر مذہبی پیشوائیت ذولفقار علی بھٹو کے قتل میں ملوث نہیں ہے
تو پھر میں مان لوں گا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا حصہ
نہیں ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ وہ دونوں قتلوں میں برابر کی شریک ہے لیکن اس کا
اعتراف کبھی نہیں کرے گی کیونکہ حقائق کا جھٹلانا اس کا ہمیشہ سے ہی وطیرہ
رہا ہے۔۔
1977 کے انتخابات میں دھاندیوں کا رونا کس نے رویا تھا اور ذو لقار علی
بھٹو کے خلاف تحریک کس نے چلائی تھی؟امریکی اشاروں پر کون محوِ رقص ہوا تھا
اور امریکی سر پرستی پر کس نے بیعت کی تھی؟
1988 کے انتخابات میں تو پی پی پی کی دو تہائی اکثر یت کو کوئی مائی کا لال
روک نہیں سکتا تھا لیکن ایک سازش کے تحت پی پی پی کو سادہ اکثریت سے بھی
محروم رکھا گیا ۔اپنی شکست کو تسلیم نہ کرنا مخالفین کی پرانی روش ہے جس کا
اعا دہ 1988 کے انتخابات میں کیا گیاتھا ۔وہ ساری جماعتیں جو پاکستان قومی
اتحاد کا حصہ تھیں انھیں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا
گیا تاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جیت پر ڈاکہ ڈالا جا سکے۔ فوجی جنتا اور
ان کے حو اریوں کو خوف دامن گیر تھا کہ اگر پی پی پی کو دوتہائی ا کثریت مل
گئی تو پھر یہ انتقامی کاروائی پر اتر آئےگی لہذا اس کا ایک ہی حل ہے کہ
انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے پی پی پی کو دو تہائی اکثریت سے محروم کر
دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ذولفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی
کی جیت نوشتہ دیوار تھی لیکن اس جیت کو دھاندلی کے ذریعے کم کیا گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں کہ 1988 کے ا نتخابات مجھ سے چھینے گئے
تھے تو ہمیں اس بات کا ادراک نہیں ہوتا تھا کیونکہ ہما رے پاس معلومات کا
وہ خزانہ نہیں ہوتا تھا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس تھا لیکن یونس حبیب
کی پریس کانفرنس کے بعد بہت سے پارسا چہرے بالکل برہنہ ہو گئے ہیں اور کمال
یہ ہے کہ وہی مخصوص لابی ان برہنہ تعفن شدہ جسموں کو ڈھانپنے کا فرض ادا کر
رہی ہے جس نے عوامی مینڈیٹ کو چرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنرل حمید
گل،جنرل اسلم بیگ، جنرل اسد درانی اور 1988 کے انتخابات کے کچھ دوسرے اہم
کردار اس ڈاکہ زنی کا کھلے عام اعتراف کر رہے ہیں۔ یونس حبیب نے تو چیدہ
چیدہ کرداروں کے نا م لے کر انھیں بے نقاب کیا ہے لیکن پھر بھی انھیں شرم
نہیں آرہی۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ انھوں نے انتخابات پر ڈ اکہ
ڈالا تھا اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کی تھی وہ تو اب بھی قومی مفاد کے نام
پر اپنے کردار کو حق بجانب ٹھہرا رہے ہیں ۔1988 کے انتخابات ذو لفقار علی
بھٹو کے ساتھ اظہارِ محبت کے ا نتخابات تھے اور پوری قوم نے ا ظہار محبت کا
فیصلہ کر رکھا تھا لیکن اس محبت پر جسطرح سے ڈاکہ ڈالا گیا وہ ایک علیحدہ
شرمناک داستان ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ صوم و صلواة کے پابند ان جغادریوں کو
بالکل احساس نہیں رہا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ان پر تو ذاتی دشمنی میں
حسابات چکانے اور برابرکرنے کی دھن سوار تھی ا ور اس کے لئے وہ ہر حربے کو
جا ئز تصور کرتے ہیں ۔۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ریتائرڈ اصغر خان کی بپٹیشن پر سالہا سال کے
انتظار کے بعد ایک تاریخی فیصلہ صادر کیا ہے جس میںاس بات کا اعتراف کیا
گیا ہے کہ 1990 کے انتخابات میں پیسے کے بے دریغ استعمال،فوج اور ایجنسیوں
کی مداخلت سے پی پی پی کے خلاف ایک سازش تیار کی گئی اور اس سازش کا سرغنہ
ایوانِ صدر تھا۔سابق صدر ِ پاکستان غلام اسحاق خان اور اس وقت کے آرمی چیف
جنرل مرزا اسلم بیگ نے باہمی گٹھ جور سے پی پی پی کو شکست دینے کے لئے ایک
شرمناک منصوبہ بندی کی۔ غلام مصطفے جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بھی بنوایا
ور انھیں اسلامی جمہوری اتحاد کا سربراہ بھی بنوایا لیکن ان کی ساری امیدوں
پر اس وقت اوس پڑ گئی جب میاں محمد نواز شریف نے انتخابی نتائج کے بعد
وزارتِ عظمی سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا۔صدرِ پاکستان غلام اسحاق
خان غلام مصطفے جتوئی کو وزیرِ اعظم پاکستان دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی
حواہشوں کو اس وقت سخت دھچکہ لگا جب اسلامی جمہوری اتھاد کی ٹکٹ پر پنجاب
سے منتخب ہونے والے ارکانِ اسمبلی میاں محمد نواز شریف کے وفادار
نکلے۔انھوں نے غلام مصطفے جتوئی کو وزیرِ اعطم تسلیم کرنے سے انکار کر
دیا۔در اصل صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی بننی تھی اور اس کے
وزیرِ اعلی کا حلف میاں شہباز شریف نے ہی اٹھا نا تھا لہذا ان ممبرانِ
اسمبلی کا فائدہ اسی میں تھا کہ میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیرِ اعظم ہو
تے تا کہ انھیں فنڈز کے حصول میں کوئی رکاوت پیش نہ آئے۔ ان کی یہ خواہش
اسی صو رت میں پوری ہو سکتی تھی جب میاں برادران ان سے خوش ہوتے اور اس کے
لئے ایک ہی راستہ تھا کہ ممبرانِ اسمبلی اپنا وزن میاں برادران کے پلڑے میں
دال دیتے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اسلامی جمہوری ا تحاد میں مسلم لیگ (ن)
کے ممبرانِ اسمبلی کی تعداد بہت زیادہ تھی، مذہبی جما عتیں حسبِ معمول بہتر
کا ر کردگی کا مطا ہرہ نہیں کر پائی تھیں لہذا ان کا کوئی خاص کردار نہیں
تھا ۔مسلم لیگ (ن) نے اپنی اس عددی اکثریت کا بھر پور فائدہ اٹھا یا اور
یوں میاں محمد نواز شریف کو وزارتِ عظمی کےلئے نامزد کردیا جس کے بعد غلام
مصطفے جتوئی کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو گئی۔انھوں نے جس عہدے کےلئے
پی پی پی کے سا تھ بے وفائی کی تھی وہ ان کو دغا دے گیا۔انھوں نے اک گناہِ
بے لذت کا ارتکاب کیا جس سے ان کی شخصیت کا وقار ہمیشہ کےلئے ختم ہو
گیا۔وفا داری خود اپنا صلہ ہوتی ہے اور انسان کو ایسا وقار عطا کرتی ہے جس
کے سامنے سارے عہدے بالکل حقیر ہو تے ہیں لیکن اگر عہدوں کی خواہش وفاداری
پر غالب آجائے تو پھر انسان عہدہ رکھتے ہوئے بھی بالکل بے آبرو ہو جاتا ہے
اور یہی سب کچھ غلام مصطفے جتوئی کے ساتھ بھی ہوا تھا کیونکہ اس نے دھر تی
کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بے وفائی کی تھی ۔ صدرِ پاکستان غلام
اسحا ق خان اپنی ہار ماننے کےلئے تیار نہیں تھے لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا
راستہ نہیں تھا۔ غلام اسحا ق خان نے بد دلی کے ساتھ اس فیصلے کو قبول تو کر
لیا لیکن میاں برادران کے خلاف ان کے دل میں بغض و عناد نے جنم لے لیا۔
غلام اسحا ق خان کو پتہ تھا کہ انھوں نے سارے انتخابی نتائج اپنی نگرانی
میں تیار کروائے ہیں لہذا وہ میاں محمد نواز شریف کو حقیقی وزیرِ اعظم نہیں
سمجھتے تھے ۔ غلام اسحا ق خان کی سوچ تھی کہ میاں محمد نواز شریف کا مینڈیٹ
جعلی ہے اور ان کی ساری مقبولیت ایجنسیو کی عطا کردہ ہے اس لئے انھوں نے
میاں محمد نواز شریف کو وہ اختیارات دینے سے گریز کیا جو وزیرِ اعظم کا
استحقاق ہو تا ہے۔ صدرِ پاکستان غلام اسحا ق خان نے نئے آرمی چیف کی تقرری
کے وقت وزیرِ اعظم سے مشورہ کرنا مناسب نہ سمجھا اوروزیرِ اعظم کے مشورے کے
بغیر نئے آرمی چیف عبدالو حید کاکڑ کی تقرری کر دی جس نے وزیرِ اعظم میاں
محمد نواز شریف کو آگ بگولہ کر دیا اور یہی سے ان دونوں کے درمیاں نہ ختم
ہونے والی اس مخا صمت نے جنم لیا جو اپریل 1993 میں دونوں کی اقتدار سے
محرو می کی شکل میں سامنے آئی۔۔ |