نہ رہے بانس نہ بجے بانسری

اللہ گواہ ہے کہ میں جمہوریت کا عاشق ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ میرا حکمران میں نے خود چنا ہو۔وہی شخص میرے لئے قانون سازی کرے جسے میں نے یہ اختیار دے کے قانون سازی کے ایوانوں میں بھیجا ہو۔وہ شخص میرے اور میرے جیسے دوسرے عامیوں کے مسائل سے واقف ہو۔اس نے کبھی بھوک بھی دیکھ رکھی ہو۔کبھی اسے بجلی کے بڑھے ہوئے بل نے جھٹکا بھی دیاہو۔کبھی اسے گیس کی لوڈ شیڈنگ نے بھوکے پیٹ دفتر جانے پہ بھی مجبور کیا ہو۔کبھی زندگی میں حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کے اس نے خود کشی کا بھی سوچا ہو۔میرا نمائندہ وہ ہو جس کے بچوں نے کوئی ایک آدھ ایسی بھی گذار رکھی ہو جس میں وہ انہیں نئے کپڑے نہ دلوا سکا ہو اور بہانہ یہ لگایا ہو کہ بڑی عید پہ تو کوئی بھی نئے کپڑے نہیں پہنتا۔جس کی بچی کو کبھی دوائی کی ضرورت پڑی ہو تو اس نے محلے کی نکڑ والے دوکاندار سے پیسے ادھار مانگیں ہوں۔کبھی ایسا بھی ہوا ہو کہ ہر ایک نے اسے ادھار دینے سے انکار کر دیا ہو۔یہ ہم عوام کے دکھ ہیں اور یہی ہمارے مسائل۔

ایک آدمی جسے خبر ہی نہ ہو کہ بھوک کیا ہوتی ہے؟پیاس کسے کہتے ہیں؟افلاس اور غربت کس بلا کا نام ہے؟بجلی جانے پہ جس کے ہاں آٹو میٹک جنریٹر چلتا ہو۔جس کا لونی میں اس کا گھر ہو وہاں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہ ہو۔جس کے کتے بھی شہر کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں علاج کے لئے بھیجے جاتے ہوں۔جو اپنا علاج کرامویل ہسپتال کے علاوہ کہیں اور سے کروانا اپنی تو ہین سمجھتا ہو۔جس کے سوٹ اٹلی سے سلتے ہوں اور جس کی خوشبویات فرانس سے آتی ہوں۔جسے مٹی کی خوشبو سونگھنے کی کبھی توفیق ہی نہ ہوئی ہو۔جو دوسروں کو اپنے ظلم اور جبر سے خود کشی پہ مجبور کرتا ہو۔جس کے نوکر بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کے وفادار ہوں اور سر عام اس کی آل اولاد کی خوشنودی کے لئے لوگوں کو پیٹتے ہوں اور جو موت پہ بھی سیاست کرتا ہو۔جسے ہمہ وقت اپنے اقتدار کی فکر ہو۔اسے میں بھلا کیوں منتخب کروں گا؟عوام اسے اپنے سر کیوں بٹھائے گی؟

اجتماعی عوامی شعو رعموماََ صحیح فیصلے کرتا ہے۔ہم نے بارہا اپنے جیسوں کو ووٹ دے کے ایوانوں میں بھیجنے کی کوشش کی لیکن نتیجہ آیا تو پتہ چلا وہ جو بڑا بد معاش تھا۔بڑا نوسر باز تھا۔بڑا سمگلر تھا۔وہ جو سب سے بڑا رسہ گیر اور بد عنوان تھا وہ جیت گیا ہے اور وہ جو ہم جیسا تھا چالیس یا پچاس ووٹوں سے ہار گیا ہے۔ساری عمر حیرت ہی رہی کہ رات کو ہر پولنگ سٹیشن سے جیتنے والا صبح ہوتے ہی ہار کیسے گیا؟یہ کیسی صبح ہوئی ہے جس نے ہر سو ہمارے ارمانوں کے آنگن میں اندھیرے ہی اندھیرے پھیلا دئیے ہیں۔ووٹ تو ہم نے ساجھے ماجھے اور گامے کو دیئے تھے اور جیت ملک صاحب چوہدری صاحب اور خان صاحب گئے ہیں۔ہم ساری زندگی ایک دوسرے ہی پہ شک کرتے رہے کہ آخری دن وہ بک گیا۔اس نے دھوکہ کر دیا۔وہ وعدہ کر کے مکر گیا۔انہی شکوک نے ہمیں آپس میں ایک دوسرے کا دشمن بھی بنایا اور ہمارے درمیان نفرت کی دیواریں بھی کھڑی کیں۔بھائی کو بھائی سے لڑایا اور ہمیں تقسیم در تقسیم کر دیا۔

اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہمیں یہ آگاہی دی کہ ہم میں سے کوئی بھی دو نمبر نہ تھا۔کسی نے کسی سے دھوکہ نہیں کیا تھا۔کسی نے کسی سے وعدہ خلافی نہیں کی تھی۔یہ تو ہمارے اوپر ہمیشہ سے بیٹھے وہ گدھ تھے جو ہر انتخاب کے موقع پہ ہمارے مینڈیٹ کی بوٹیاں نوچ نوچ کے کھاتے رہے۔جنہوں نے ہم جیسے بھوکے ننگوں کو اقتدار سے دور رکھا۔جو ہر دفعہ ہمیں جانور سمجھ کے ہماری رائے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کے ہمارے اوپر اپنی رائے مسلط کرتے رہے۔ہم ہر الیکشن سے پہلے" اب راج کرے گی خلقِ خدا "کے نعرے ہی لگاتے رہے اور ہر دفعہ خلق خدا کی بجائے کرپشن کے یہ خدا پیسے کے بل بوتے پہ ہمارے حکمران بنتے رہے۔فارسی کا ایک شعر ہے کہ
خشتِ اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج

اگر عمارت بنانے والا بنیاد کی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو دیوار ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہتی ہے بھلے وہ آسمان تک کیوں نہ چلی جائے۔ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ہم نے جب بھی دیوار بنانے کی کوشش کی ہمارے معماروں نے ہر اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی اور نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت اپنے ہی بوجھ تلے لڑکھڑا رہی ہے۔ہم اپنا ایک بازو تو پہلے ہی مینڈیٹ چوری کرنے کی وجہ سے کٹوا چکے تھے لیکن ہوش ہمیں پھر بھی نہیں آیا۔ہمارے معماروں نے ہمیں کبھی کوئی ایسا نمائندہ منتخب ہی نہیں کرنے دیا جو ہمارے لئے قانون سازی کرتا۔جو بھوک ننگ اور افلاس ختم کرنے کی کوشش کرتا۔یہاں جو بھی آیا چور دروازے ہی سے آیا۔کروڑوں کی انویسٹمنٹ کر کے آیا۔انتخاب کے بعد ان انویسٹروں کی ساری دلچسبی قانون سازی کی بجائے ترقیاتی فنڈز ہی میں رہی۔

آج جب ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے تووہی لوگ جو ہمارے مینڈیٹ کو چوری کرتے رہے ہیں۔دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص کسی کو قتل کرے اور پھر اس کے کیس کا مدعی بھی خود ہی بن جائے تاکہ بعد میں عدالت سے بھی وہ فیصلہ اپنے حق میں کروا سکے۔اب یہ دونوں گروہ آپس میں باہم جوتم پیزار ہو کے ہمیں یہ تائثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دونوں مکے کے حاجی ہیں حالانکہ انہوں نے باریاں بانٹی ہوئی ہیں۔ہم ہر دفعہ چونکہ اپنے لٹ جانے پہ خاموش ہو کے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اس لئے ان بزدلوں کو ہلا شہری ملتی ہے اور یہ من مانیاں کرتے ہیں۔اصغر خان کیس کے فیصلے نے جس پہ اب ملک کی اشرافیہ کے پیٹ میں مروڑ پہ مروڑ اٹھ رہا ہے ہمیں یہ تو باور کروا ہی دیا ہے کہ جمہور کے ساتھ تو ہر دفعہ ہاتھ ہی ہوتا ہے۔اس دفعہ ہمیں ملک میں جمہوریت لانی ہے۔اصلی جمہوریت،ہم اس دفعہ انجینئرڈ جمہوریت پہ ہزار دفعہ لعنت بھیجیں گے اور اس دفعہ اگر جمہور کا نمائندہ ہارا تو ہم ان فیکٹریوں ہی کو آگ لگا دیں گے جہاں سے یہ بدقماش جنم لیتے ہیں تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291930 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More