زرداری ، وٹو پر لٹو

الیکشن نزدیک آتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے جماعت میں اکھاڑ بچھاڑ شروع کردی ہے ۔ زرداری کا یہ بیان کہ آنے والے وقتوں میں پنجاب میں جیالوں کی حکومت ہوگی ۔ اپنے اس فرمان کو پورا کرنے کے لیے عام انتخابات سے صرف چند ماہ پہلے صدر زرداری نے پنجاب میں ترپ کا پتہ کھیلا ہے ۔ انہوں نے یہ پتہ میاں منظور وٹو کی شکل میں پھینکا ہے۔ انہیں امتیاز صفدر وڑائچ کی جگہ وسطی پنجاب کا صدر بناکر آصف زرداری نے اپنی ترجیحات واضح کردی ہیں۔ اس فیصلے سے انہوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کا آئندہ الیکشن جیتنے میں سنجیدہ ہے اور اس مقصد کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف جیالا کلچر کو ہی اہمیت دی جائے۔ دراصل پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کی نئی تنظیم انتخابی سیاست کیلئے بنائی گئی ہے اور ایک ایسی شخصیت کو وسطی پنجاب کا صدر بنایاگیا ہے جو کم ازکم شہبازشریف اور پرویزالٰہی کے برابر کا ہے۔

میاں منظور احمد وٹو بڑے خوش قسمت سیاستدان ہیںجنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز ایوب خان کے دور میں ضلعی کونسلر بن کر کیا تھااور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پروہ سیاسی میدان میں نمایاں ہوتے چلے گئے۔ 1977ءمیں اگرچہ انہیں پیپلز پارٹی کا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگر بعد میں یہ ٹکٹ ان کی بجائے میاں غلام محمد مانیکا کو دیا گیا۔ منظور وٹو اس واقعہ کے بعد تحریک نظام مصطفیٰ میں شامل ہوگئے اور پھر اس جماعت سے تحریک استقلال میں شامل ہوگئے ۔ انہوں نے اس پارٹی کے صف اول کے لیڈروں کی فہرست میںاپنی جگہ بنالی۔ 1989ء میں ایم آر ڈی کے فیصلہ کے خلاف انہوں نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور ڈسٹرکٹ کونسلر منتخب ہوئے اور ضلع کونسل اوکاڑہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

میاں منظور وٹو سیاسی رابطوں اور جوڑ توڑ کے ماہرسمجھے جاتے ہیں۔ وہ ماضی میں بھی پنجاب میں نواز شریف کی سیاست کو ناکام بنا چکے ہیں۔ منظور وٹو نے 1992 میں بطور سپیکرپنجاب اسمبلی مسلم لیگ(ن) کی دو تہائی اکثریت ختم کیا اور کچھ عرصے کیلئے وزیراعلی بھی رہے۔ 1993 میں 18 ارکان صوبائی اسمبلی کا گروپ بناکر پیپلزپارٹی کے اتحادی بن کر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے تھے۔ وہ اب صدر زرداری کے بہت قریب ہوچکے ہیں۔

صدر زرداری نے اب تک پنجاب میں صرف چند ایک مقامات کے دورے کئے ہیںاور ان میں ایک اوکاڑہ کا دورہ بھی تھا جہاں منظور وٹو نے بھکر، خوشاب، راجن پور اور دیگر اضلاع کی بعض اہم سیاسی شخصیات کی صدر زرداری سے ملاقاتیں بھی کروائی تھیں۔شاید یہی وجہ ہے کی زرداری نے ان پر اعتماد کیا ہے اور ان کو پنجا ب میں پی پی کی حکومت بنانے کا ٹاسک دیا ہے۔

میاں منظور وٹو پنجاب میں چوہدری برادران سے مل کر شریف برادرارن کا مقابلہ کریں گے۔ میاں منظور وٹو شریف برادران کے اتنا ہی خلاف ہیں جتنا چوہدری برادران ہیں، یوں منظور وٹو اور چودھری برادران کا مشترکہ ایجنڈا پنجاب میں ن لیگ کو شکست سے دوچار کرناہے۔ ان کیلئے یہ بڑا چیلنج ہے، ایک طرف ورکر ہیں اور دوسری طرف انتخابی سیاست ہے۔کیا وہ دونوں کے درمیان پل بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

صدر اور جنرل سیکرٹری کے دونوں اہم عہدے دیہی علاقوں سے بنائے گئے ہیں اور یوں پیپلزپارٹی نے عملی طور پر پنجاب میں شہری سیاست کوبالکل چھوڑدیا ہے اور یوں محسوس ہورہا ہے جیسے شہری سیاست عمران خان پر چھوڑ دی گئی ہے۔

یہ سب اپنی جگہ مگر چوہدری برادران کو وٹو پر تحفظات بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کی ان کی نامزدگی کے فوراًبعد چوہدری برادران نے صدر مملک سے ملاقات کی اور ان کو اپنے تحفظات سے آگاہ بھی کیا ۔ جو مستقبل قریب میں ان کے اتحاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ منظور وٹو کا سیاسی قلابازیوں لگانے کا ریکارڈ بھی اتنا اچھا نہیں ہے کہ ان پر ہر کوئی اعتمادکر سکے۔میاںمنظوروٹو پر ایک اعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ انہوں نے کئی پارٹیاں تبدیل کیں، پیپلزپارٹی کے سابق دورحکومت میں جب میاں منظوروٹوکووزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا تووہ مسلم لیگ (ن) کے قائدنوازشریف کے گھر ماڈل ٹاﺅن پہنچ گئے اورپریس کانفرنس میںپیپلزپارٹی کی قیادت کوآڑے ہاتھوں لیا تھا۔ اس دوران میاں منظور وٹو نے ماڈل ٹاؤن شریف خاندان کی رہائشگاہ کے باہر جنگلے ہٹانے کا ذمہ داربھی پیپلزپارٹی کوقراردیا تھا۔میاں منظور وٹو کو پہلے پیپلز پارٹی میں اپنی قبولیت پیدا کرنا ہوگی۔ یہ بطور صدرپنجاب میاں منظوروٹو کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
پیپلز پارٹی سے اب آہستہ آہستہ بھٹوخاندان سے تعلق رکھنے والے لوگ دور ہوتے جارہے ہیں اور نئے اور مفاد پرست لوگ آگے آرہے ہیں۔ جن لوگوں نے پیپلزپارٹی کے لیے قربانیاںدی اور مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا اب ان کو فراموش کیا جارہا ہے۔ زرداری کے اس فیصلے سے جیالاکلچر خوش نہیں کیونکہ یہ وہی وٹو ہیں جو مشکل وقت میں پارٹی چھوڑ کرن لیگ سے مل گئے اور جب ن لیگ پر مشکل وقت آیا تو پیپلز پارٹی سے مل گئے۔ سیاستدان تو اپنے مفاد کی خاطر سب کچھ بھول سکتے ہیں مگر پارٹی کارکنوں کو ایسی باتیں نہیں بھولتیں۔ بحرحال یہ تو الیکشن کے وقت معلوم ہوگا کہ پی پی کے کوچیئرمین کایہ فیصلہ درست ہے یا غلط۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 147 Articles with 120867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.