سپریم کورٹ کا صائب فیصلہ مگر

آزاد عدلیہ نے آئین و قانون پر عمل درآمد کے لئے جرأت مندانہ اقدامات اور بڑے ا ہم فیصلے کئے جس سے آئین کو تحفظ حاصل ہوا۔عوام میں ان فیصلوں سے انصاف کے ملنے کی امید پیدا ہوئی اور عدلیہ پر اعتمادکا اظہار ہونے لگا ۔عام لوگوں کو انصاف نہ ملنے کے دیگر وجوہات کے علاوہ وکلا کی بھاری بھر کم فیسوں کا میسر نہ ہونا بھی ہے تاہم آزاد عدلیہ امید کی ایک کرن وجود میں آچکی۔سپریم کورٹ نے بائیس سال کے طویل مدت کے بعد اصغر خان کیس کا فیصلہ کیا جسے ملکی تاریخ کااہم ترین فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے اس فیصلے سے جہاں ایجنسیوں کوسیاسی معاملات میں مداخلت سے روکا گیا ہے وہاں سیاست دانوں کو بھی اخلاقی اقدار سمجھا ئے گے۔اس تہلکہ مچادینے والے فیصلے نے حکومت کومشکلات میں ڈال دیاہے جوسپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد سے ہمیشہ گریزاں رہی اس فیصلے پر عمل کے لئے پریشان نظر آنے لگی کیونکہ اپنے سیاسی حریفوں کے لئے نادر موقعہ پا کر الزامات کی بو چھاڑ کرنا چاہتی ہے لیکن لوگوں کی نظر میں ابھی رقم لینے کے ثبوت موجود نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور تحقیقات میں ثبوت ملنے تک سیاسی مخالفین پر الزام تراشی کرنا بھی تو ہین عدالت ہے۔دوسری طرف سابق فوجی جرنیل ہیں جنہوں نے سیاست دانوں میں پیسے بانٹے اس کے با وجود اسلامی جمہوری اتحاد کی کمزور حکومت معرض وجود میں آئی جس کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بنے ۔ بے نظیر بھٹو کی حکو مت کے سابقہ دور کے اقدامات کے نتیجے میں بقول اس وقت کے M.I کے ڈاریکٹر برگیڈیئر (ر)حامد سعید ملکی مفادات کو اہم سمجھتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو حکوت سے باہر رکھا گیا۔ ۱۹۹۳ ؁ ء کے انتخابات میں دیگر عوامل کے علاوہ جنرل اسلم بیگ کی معاونت سے بے نظیر بھٹو کی کمزور حکومت بنی جو ملکی مفادات کے خلاف اقدامات کر نے کے قابل نہیں رہی حکومت کے بنا نے کی معاونت کے صلے میں جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت اور جنرل اسد درانی کو سفیر بنا کر باہر بھیج دیا گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت کو بہر حال تحقیقات کر انا ہوگی لیکن صدر زرداری اس تحقیقات کو بھی سیاسی سودے بازی کے لئے استعمال کریں گے اور فلسفہ یہ ہوگا کہ اگر سیا ست دان ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کر یں گے تو جمہو ریت خطرے میں پڑ جائے گی اور یہی رائے جرنیلوں کے خلاف مقدمات کر نے کے بارے میں بھی ہوگی۔ شفاف تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نظر ثانی کر تے ہوئے آزاد جوڈیشل کمیشن یا ایماندار آفیسرز کی ٹیم تشکیل دے جس پر سب کو اعتماد ہو۔یہاں ایک اہم پہلو کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ پاک فوج کا چیف ۔دنیا کا بہترین انٹیلی جنٹس ادارہ آئی.ایس. آئی کا چیف اور اس سے بڑھ کر صدر پاکستان آئین کی خلاف ورزی کرنے پر کیوں تیار ہوئے کیا وہ آئین کو جانتے نہیں تھے یا کہ کوئی بڑا خطرہ بھانپ رہے تھے جس کی وجہ سے بینظیر بھٹو کی حکو مت بنائیگئی۔اس کیس کے مرکزی کردار اس وقت کے ایم آئی کے ڈاریکٹر بریگیڈئر (ر) حامد سعید نے وقت نیوز کے پروگرام اپنا اپنا گریبان میں انٹر ویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں پاکستان کے حساس اد اروں میں الذوالفقار کے دہشت گردوں کو بھر تی کیاجنہوں نے ہندوستان میں عسکری تربیت حاصل کی اور نیوکلیئرپرکمپرو مائز کرنے پر تیار تھیں یہ کام اس لئے نہیں کر پائیں کہ ان کے پاس قانون سازی کے لئے اسمبلی میں اکثریت نہیں تھی اور اگر دوبارہ اکثریت حاصل کر لیتیں تو ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ صورت حال پیدا ہو جاتی انہوں نے کہا کہ ملک پہلے بنا اور آئین بعد میں ؟ لہٰذا ملک کے بچانے کے لئے آئین کی خلاف ورزی کوئی بڑا جرم نہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پیسے بانٹنے میں I.S.I کا کوئی کردار نہیں تھا ملکہ یہ کام M.I کے سپرد تھااور اس کے سربراہ جنرل اسد درانی تھے جو بعد میں ترقیاب ہو کر I.S.I کے چیف بنے تھے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ صدر مملکت کو غیر جانبدار ہونا چاہئے اور اگر کوئی ایجنسی کا سیل ایوان صدر میں ہے تو اس کو فوری طور پر بند کر دیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے لئے دھچکا ہے جس کا اظہار اٹارنی جنرل نے دوران سماعت اپنے دلائل میں کیا اور وہ آرڈی ننس پیش نہیں کر پائے جس میں ایوان صدر میں آئی۔ ایس۔ آئی کا سیاسی سیل قائم کرنے کا حکم تھا۔یاد رہے کہ یہ سیل مسٹر ذو الفقار بھٹو مر حوم نے قائم کیا تھا جس کے ذریعے مخالفین کو کچلا جاتا تھا اور اسی کے استعمال سے پاکستان کی تاریخ کے بد ترین انتخا بات کرائے گے اورستر فیصد دھاندلی کرائی گئی بھٹو مرحوم بھی دو تہائی اکثریت کے خواہان تھے تاکہ من مانی کر سکیں۔وہ ایسے جمہوریت پسند تھے کہ اگر ان سے اپنا ساتھی بھی اختلاف کرے یا تو قتل کرا دیا جاتا یا دلائی جیل میں ڈال دیا جا تا آج بھی جو لوگ بھٹو مرحوم کے ظلم و ستم کاشکار ہوئے ان سے داستان غم سنی جاسکتی ہے۔یہ خوش آیند بات ہے کہ سپریم کورٹ نے آئینِ پاکستان پر عمل درآمد کرا نے کے حوالے سے بلا تخصیص تمام اداروں کو بشمول فوج کے کڑے فیصلے کئے لیکن حکومت اس پر عمل درآمد کر نے کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آرہی ۔البتہ فیصلے مستقبل کو محفوظ بنارہے ہیں۔سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کر نے کا پورا حق ہے لہٰذاسپریم کورٹ کو آئین پاکستان کا ازسر نو جائزہ لینا چاہئے اور جو قوانین قرآن وسنت کے طے شدہ اصولوں کے مطابق نہیں آرٹیکل۲۲۷(۱) کی روشنی میں منسوخ کیا جائے بشمول آرٹیکل ۲۴۸(۲) کے جو اصول مساوات کے خلاف ہے۔ اور اسلام نے عام آدمی کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ خلیفہ وقت کو بھری مجلس میں پوچھے کہ عمرؓ یہ کرتا دو چادروں سے بنا ہے جبکہ آپ کے حصے تو ایک چادر آئی تھی ۔اورعمرؓاپنے بیٹے کی عطیۂ کی ہوئی چادر کی وضاحت کریں لیکن آج تو چوری کرنے کے بعد (۲۴۸) (۲) کے پیچھے چھپا جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے لیکن پارلیمنٹ میں جعلی ڈگریوں والے ہوں اور قانون سمجھنے کے بجائے عددی برتری کی بنیاد پر متعصبانہ قانون سازی کریں جودستور کے بنیادی نظریئے کے خلاف ہو تو ایسے میں سپریم کورٹ ہی دستور کی محافظ ہو سکتی ہے اور مو جودہ آزاد عدلیہ نے ایسا کیا بھی ہے جو قابل تحسین ہے۔سیاست دانوں کا F.I A پر عدم اعتماد بجا لیکن یہ مطالبہ کہ اصغر خان کیس کی تحقیقات اقوام متحدہ کے کسی ادارے سے کرائی جائے ناقا بل فہم اور عجیب ہے اپنا ننگا پن اغیار کے سامنے رکھنا کیوں پسند کیا جاتا ہے۔اس طرح کی بھونڈی حرکت حکومت نے بے نظیر قتل کیس میں بھی کی جس کا لب لباب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری خون شہید سے لا تعلق ظاہر کیئے گئے تاہم بے نظیر بھٹو شہید اپنی ہی پارٹی کی حکو مت میں انصاف سے محروم ہیں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک نجی ٹی وی کے نمائندے نے ڈاکٹر بابر اعوان سے چلتے چلتے پو چھا کہ کیا بی بی کو القائدہ نے شہید کیا تو بابر اعوان نے پیچھے مڑ کر انگلی کھڑی کرکے کہا القائدہ نے نہیں الفائدہ نے شہید کیاپرویز مشرف کی حکومت تو مخالف تھی حالانکہ آدی حکومت آج بھی پی پی حکومت کا حصّہ ہے لگتا ہے الفائدہ نے اپنا کام کر دکھایاموجو دہ دور میں قتل کے چھپانے کے لئے الزام القائدہ پر دھراجاتا ہے-
Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 33430 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.