اے ایمان والوں ایسی بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں

تمام پڑھنے والوں کو اسلام وعلیکم اور دعائے خیر۔

سورہ الصف پارہ نمبر ٢٨ سورہ نمبر اکسٹھ میں آیت نمبر دو میں اللہ عزوجل ایمان والوں کو مخاطف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں

ترجمہ “ اے ایمان والو کیوں کہتے ہو منہ سے جو کرتے نہیں بڑی بیزاری ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ بات جو نہ کرو “

تو میرے مجھ سمیت تمام مسلمان بھائی اس آیت پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا ہم وہ کرتے ہیں جو کہتے ہیں یا یہ کہ ہم کہتے تو دوسروں کو ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو اور جب اپنی ذات کی باری ہے تو ہم اس سے پہل تہی کرتے ہیں۔ جیسے کہ کہتے تو ہم سب یہ ہیں کہ جھوٹ مت بولو، بے ایمانی مت کرو، انصاف سے کام لو اور وغیرہ وغیرہ اور جب خود کی باری آتی ہے تو ہم موقع ملتے ہی جھوٹ داغنے شروع کردیتے ہیں اور وہ بھی ایسے جھوٹ کہ جن کا کوئی فائدہ نہیں (فائدہ ہو بھی تو جھوٹ تو جھوٹ ہے)، بے ایمانی، بے انصافی اور بے راہ روی تو لگتا ہے ہماری قوم کے خون میں رچ بس گئی ہے اگر نہیں تو پھر ہماری اقوام عالمی میں اتنی بری حالت کیوں ہے جبکہ ہم کلمہ گو مسلمان ہیں اور ہمارے نبی کو تو مشرکین اور دشمن صادق اور امین کہتے تھے۔ تو بھائی اپنی اصلاح کا عمل ہمیں شروع کردینا چاہیے اور ظاہر ہے اگر کسی کو سمجھانے کے کوشش کریں گے تو وہ ناراض ہو گا اور آپ سے لڑنے لگے گا کہ مجھے جھوٹا، بے ایمان اور بے انصاف سمجھتے ہو، بھائیوں اپنی اصلاح پہلے اپنی ذات سے شروع کیجیے اور پھر اس کے دائرہ کار اپنے گھروں، محلوں، اپنے دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں اور پھر پورے معاشرے تک پھیلا دینے کے لیے کوشش کریں۔

برسبیل تزکرہ گذشتہ دنوں ہمارے ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر جناب قاضی حسین احمد کا بیان نظر سے گزرا اور بہت افسوس ہوا کہ ہمارے لیڈران ہی اصل میں ہماری قوم کی نمائندگی کرتے ہیں جیسے ہمارے لیڈران ہوتے ہیں ویسی ہی ہماری قوم ہو گی۔ محترم فرماتے ہیں

“قوم دفعہ ایک سو چوالیس کی پروا نا کرے اور جلوس میں شرکت کے لیے نکل پڑے، میں (قاضی حسین احمد) گرچہ نظر بند ہوں اور چاہوں تو اپنی نظر بندی توڑ کر تماشہ دکھا سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کرونگا “

خاصا غور طلب بیان ہے ہمارے ایک بڑی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر کا اور انہیں یہ بھی چاہیے کہ اوپر حوالہ دی گئی آیت قرآنی کی روشنی میں اپنے بیان کا جائزہ لیں اور اگر جرات مومن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قول و فعل کے درمیان تضاد پر نا صرف اللہ عزوجل سے بلکہ اپنی عوام و قوم سے بھی معافی مانگیں۔

یہ صرف محترم جناب قاضی حسین احمد صاحب ہی کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام وہ لیڈران بالخصوس اور عوام با العموم اپنے اپنے قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کریں خصوصا وہ لیڈران جو ایک مرتبہ سے زیادہ دھوکے اور ہاتھ ہونے کے الزامات دوسری جماعتوں پر لگا رہے ہیں وہ بھی زرا ایک حدیث پر غور کریں جسکے مطابق “ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا“ اس حدیث کی روشنی میں بار بار دھوکہ کھانے والا (ڈسا جانے والا شخص) کیا ایک مومن یعنی اچھا مسلمان ہو سکتا ہے۔

میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ اپنے قول و فعل میں پائے جانے والے تضاد کو ختم کرنے کے لیے جہاد کروں اور دوسروں سے بھی یہی التماس ہے۔

کہتے ہیں یہ وقت بھی نہیں رہے گا اور انشاﺀ اللہ پاکستان سولہ مارچ کے بعد بھی محفوظ رہے گا۔ باقی رہے نام اللہ کا اللہ اکبر۔

والسلام
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 494316 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.