کیا یہ اس کا پاگل پن نہیں تھا کہ عوام کی تابعداری کے باوجود وہ اپنی
حکومت کو تباہ و برباد کرنے میں کامیاب رہا۔۔۔۔۔؟؟
مگر اس نے اپنی حماقتوں سے خود کو عوام کی نظر میں ایک ناپسندیدہ اور
ناقابل قبول حکمران بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔محمد بن تغلق عجوبہ
روزگار شخصیت کا مالک تھا۔اس نے دارالسلطنت دہلی کو محض اس لیے برباد کرنے
کا فیصلہ کیا کہ چند لوگوں نے اس کی پالیسی پر نکتہ چینی کرنے کی گستاخی کی
تھی۔
وہ دارالسلطنت کو دہلی سے دیو گری لے گیا۔ سو دہلی اجڑ گیا۔ پورے پچیس سال
حکومت کے دوران اس کی پے در پے حماقتوں والے منصوبوں اور بھاری ٹیکسوں نے
ملک کو کمزور کر دیا۔عوام اس سے سخت متنفر ہو گئے۔اندر ہی اندر نفرت و
بیزاری اور انتقام کا لاوہ پکتا رہا ،قحط ایک وجہ بن گیا جو آتش فشاں بن کر
پھٹ پڑا۔ پے در پے بغاوتوں نے اس کے دیکھتے ہی دیکھتے سلطنت کے تمام صوبوں
کو الگ ہونے پر مجبور کر دیا۔
یہ اس کے دور حکومت کا آخری چیپٹر تھا۔ جو اس کے غلط احمقانہ فیصلوں اور
منصوبوں کی وجہ سے کلوز ہو گیا۔تاریخ نویسیوں نے جب اس کی ناکامی کی وجوہات
کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کی تباہی و بربادی کے پیچھے اس کے مشیران
تھے۔
اکبر مطلق العنانیت کی ایک زندہ مثال تھا۔ گو کہ وہ ناخواندہ تھا مگر
ناخواندہ ہوتے ہوئے بھی تعلیم یافتہ کہلاتا تھا۔ عجیب و غریب ذہن کا مالک
تھا۔ سلطنت کے سب ہی معاملات سے باخبر رہتا تھا۔ مگر اس نے خود کو اپنے خود
غرض ، مفاد پرست اور دین بیزار مشیروں کے ہجوم میں مقید کر لیا تھا۔ ان
مشیروں کے احمقانہ فیصلوں نے اسے اپنے عوام سے دور کر دیا تھا۔ اس کی خواہش
تھی کہ تمام معاملات کی طرح مذہبی معاملے میں بھی اس کی برتری تسلیم کی
جائے۔اس نے اسی سوچ کے پیش نظر دین الہی کی بنیاد رکھی۔ اور عوام کی ایک
بڑی تعداد کو خود سے متنفر کر دیا۔
عوام کی نفرتوں کی بھینٹ چڑھنے والا تاریخ کا تیسرا مسافر جرات و اعتماد کی
دولت سے مالا مال چھوٹے قد کا جرنیل جسے اس کے سپاہی پیارا ننھا کارپورل
بھی کہتے تھے ،نپولین بونا پارٹ تھا۔وہ بڑا سپہ سالار تھا۔مگر ساتھ ہی
لالچی ،خود غرض، مفاد پرست اور مغرور بھی تھا۔ اس کی زندگی کا مقصد کسی
اعلیٰ و ارفع مقصد کے بجائے محض ذاتی اقتدار تھا۔سترہ سو ایکسٹھ میں
کوریسکا کے جزیرے میں پیدا ہونے والا نپولین ساڑھے پانچ سال سینٹ ہیلینا
میں زندہ موت کا نظارا دیکھتا رہا ، بالآخر ذلت و مسکنت کی زندگی سے
چھٹکارا پا کر موت کی گھاٹیوں میں اتر گیا ۔
چوبیس سال کی عمر میں سپہ سالار بننے والے جرنیل نے منتخب حکومت کے اقدامات
سے تنگ قوم کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا وہ
اپنے لیے لوگوں کی جانب سے پسندیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قابض
ہو گیا۔اور رفتہ رفتہ اسے چاہنے اور اقتدار تک پہنچانے عوام اس کے ظالمانہ
اور مکارانہ اقدامات سے عاجز آگئے۔ بالآخر سینٹ ہیلینا کا جزیرہ اس کے لیے
موت کا جزیرہ ثابت ہوا۔
ساڑھے پانچ سال تک سینٹ ہیلینا میں زندہ موت کا نظارہ دیکھنے والے مطلق
العنان حکمران کے عبرت انگیز انجام کے ذمہ دار محض اس کے مشیران تھے۔جو اسے
عوام سے دور رکھتے تھے۔ ہمیشہ سب اچھا ہے کا نعرہ لگا کر اسے ملک میں سکون
و چین کی نوید سناتے تھے۔
گیارہ ستمبر انیس سو تہتر کو چلی کا دارلحکومت سان نیا گو دھماکوں سے گونج
رہا تھا۔ایک جنرل کی قیادت میں فوجی دستے محل میں داخل ہوئے اور کمیونسٹ
منتخب صدر اسلواڈور ایلیندے کو قتل کر دیا ۔اس فوجی انقلاب کے نتیجے میں
جنرل آگوسٹے پنوشے نے اقتدار پر قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے گرد مفاد
پرست مشیران کے مشورے پر کم از کم چار ہزار افراد کو پچیس سال کے دوران
وقتا فوقتا قتل کیا،تیس ہزار افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا ۔ جبکہ
ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جلا وطنی کی زندگی گذارنی پڑی ۔
آغوسٹے پنوشے کی زیر سرپرستی چلی کی خفیہ ایجنسی DINAکے ہاتھوں کئی نامور
صحافیوں سمیت سینکڑوں کارکن لاپتہ ہوئے۔ قتل ہونے والوں کی لاشیں تک نہ مل
سکیں۔
صدر پنوشے 83سال کی عمر تک آرمی چیف بنا رہا۔ 10مارچ 1998کو شدید علالت کے
باعث اسے ریٹائر ہونا پڑا۔دسمبر2006میں عارضہ قلب کے باعث چلی کے ملٹری
ہسپتال میں دم توڑ گیا۔آخری مہینوں میں پنوشے ذلت و عبرت کی ایک علامت بن
چکا تھا۔اس کی یادداشت ختم ہو چکی تھی۔ اس کا واحد سہارا اس کی بیوی تھی جو
اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ روزانہ کوئی نہ کوئی منچلا اس کے گھر کے باہر
گالیاں اور گندے نعرے لکھ کر چلا جاتا۔ اس کے اقتدار کے دنوں میں اس کے گرد
موجود مفاد پرستوں کا ٹولہ اسے نوید سناتا تھا کہ اس نے چلی کی تباہ حال
معیشت سنوار دی ہے۔ مگر چلی کے عوام اس دوران انتہائی بدحال ہو چکے تھے۔
ایرانیوں کو جدید اور مہذب دنیا سے روشناس کرانے کا دعوی کرنے والا شہنشاہ
رضا شاہ پہلوی امریکی آشیر باد سے ایران کے اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ جسے
عرب صحافی برملا مشرق وسطی میں امریکا کا پولیس مین قرار دیتے تھے۔ شاہ کا
یہ بھی دعوی تھا کہ میرے عوام کو وہ سب کچھ میسر ہے جس سے مغربی دنیا کے
بہت سے باسی محروم ہیں۔
37
سال ایرانی عوام کی گردن پر پیر تسمہ پا کی طرح سوار ایرانی شہنشاہ اپنے
مشیران کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔اس کی شکست کے پیچھے ایران کی سڑکوں اور
گلیوں میں بہنے والا عوام کا لہو تھا۔ انہیں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی میسر
نہیں تھی لیکن نائٹ کلبس میں، ساحل سمندر پر اور دیگر مقامات پر جنسی بھوک
مٹانے کا سامان میسر تھا۔ شاہ کے زوال پر ایک برطانوی دانشور نے بڑا دلچسپ
اور معنی خیز تبصرہ کیا۔ اس نے لکھا کہ، بادشاہوں اور آمروں کا بنیادی
مسئلہ ان کے درباری اور خوشامدی مشیران ہوتے ہیں جن کے جلو میں گھرے وہ ملک
و قوم میں موجود اضطراب دیکھنے کے قابل نہیں رہتے ۔ ملک کا چپہ چپہ مایوسی
اور نفرت سے بھرا ہوتا ہے اور پورا سماج لاوے کی مانند کھول رہا ہوتا ہے۔
مگر عین اس وقت ایسے بادشاہوں کے درباری اور آمروں کے مشیران اپنی دانست
میں مخالفین کو شکست فاش دے کر فتح عظیم کے گیت گاتے نظر آئیں گے۔ وہ ان
مصنوعی سکون اور چین کی فصیلوں میں محصور مگن رہتا ہے۔ پھر ایک دن اچانک وہ
فصیلیں مسمار ہو جانے پر ایسے حکمرانوں کا واسطہ غیض و غضب سے بھرے عوام سے
پڑتا ہے۔ اس وقت ذلت اور رسوائی کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔
26
سال تک عراق کے سیاہ و سفید کا مالک عراقی آمر صدام حسین اپنے فوجی اور
سول مشیران کے ہاتھوں اپنی شرمناک گرفتاری سے لے کر عبرتناک انجام تک اپنے
شاہی محل جس میں وہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا تھاسے چند فٹ کے فاصلے پر
دس بائی تیرہ فٹ کی ایک کوٹھری میں مقید تھا۔پلاسٹک کے سینڈل اور عربوں کے
روایتی چوغے میں ملبوس کبھی کبھی وہ دکھی لہجے میں کہتا، میں آج سوچتا ہوں
کہ کاش میں سیاستدان کے بجائے محض ایک ڈاکٹر ہوتا۔
جب امریکی فوجیوں نے بغداد پر چڑھائی کی تو صدام حسین کے وفادار ساتھیوں
اور مشیروں کی وفاداری کی قلعی کھل گئی ۔سب اسے اس مشکل وقت میں تنہا چھوڑ
گئے۔ یہ وہ مشیران ہوتے ہیں جو اپنی عیاریوں ، شعبدہ بازیوں اور مکاریوں کی
بناء پر حکمرانوں کو ہمیشہ ملک و قوم کی حقیقی صورتحال سے بے خبر رکھتے
ہیں۔انہیں ہر وقت سب اچھا ہے کا راگ سناتے رہتے ہیں۔ وہ بادشاہوں اور آمروں
کی نفسیات سے خوب آگاہ ہوتے ہیں۔ لہذا یہ مشیران اور ساتھی حکمرانوں کی
حکمرانی کے دور میں مفادات سمیٹتے ہیں اور جب ان حکمرانوں کا انجام قریب
آتا ہے تو ایک ایک کر کے اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
میں جب ان حکمرانوں کی ہوس اقتداراور ان کے مشیروں کی عیاری و مکاری کی
تاریخ کا مطالعہ کر رہا تھا تو مجھے بے اختیار روم کے ایک حکمران کیلی گولہ
کا گھوڑا یاد آیا۔
کیلی گولہ اپنی ایک گھوڑے سے بے حد پیار کرتا تھا۔اس نے اپنے گھوڑے کے لیے
ایک خوبصورت محل بنا رکھا تھا۔جس کے دروازے پر سونے کا کام تھا۔ وہ اکثر
اپنے گھوڑے کو روم کے اہم ادارے سینیٹ کے ممبران کے درمیان بٹھا کر گھوڑے
کی صحت کے جام سونے کے پیالے میں نوش کرتا تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کو بہترین
چراگاہ میں چرانے کے لیے کسی نہ کسی سینیٹر کی معیت میں روانہ کرتا۔
سینیٹ کے اراکین کو گھوڑے کی اہمیت کے بارے میں پتا تھا۔ وہ گھوڑے کے متعلق
معلومات جمع کرتے اور اس کی بناء پر کیلی گولہ کی قربت حاصل کرتے۔
جو سینیٹر گھوڑے کو پچکار کر اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتا،وہ
دربار میں اہمیت حاصل کرتا۔ اگر گھوڑا کسی وجہ سے بدک جاتا تو اس سینیٹر کی
شامت آجاتی۔ لہذا کیلی گولہ کے مصاحبوں اور سینیٹرز میں گھوڑے سے متعلق
زیادہ سے زیادہ معلومات کے حصول کے لیے ایک کشمکش جاری رہتی۔
پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو اس کے گرد جمع ہونے والے وزراء اور
مشیروں نے کیلی گولہ کے مشیروں اور سینیٹرز کی طرح اپنا کردار نبھایا۔
پرویز مشرف نے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ بلند کیا تو ان وزراء
اور مشیروں نے بھی کیلی گولہ کے گھوڑے کی طرح روشن خیالی اور ا عتدال پسندی
کا ڈھول اپنے گلے میں باندھ لیا اور گلا پھاڑ پھاڑ کر اعتدال پسندی و روشن
خیالائی کا راگ الاپنے لگے۔ غرض مفادات کی خاطر ہر فرد پرویز مشرف کی
خوشنودی کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں ایک ہی حمام میں ننگا
کھڑا تھا۔
اور جب پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہونا شروع ہوا تو اس کے سارے
قصیدہ خواں آہستہ آہستہ کائی کی طرح چھٹنے لگے۔ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے
جو اسے وردی میں دس دس سال تک منتخب کرانے کے خواہشمند تھے ۔ آج کیلی گولہ
اور اس کے گھوڑے کی طرح پرویز مشرف یا اس کی روشن خیالی و اعتدال پسندی کا
تذکرہ تک نہیں۔اب یہ سار ے مفاد پرست عناصر دست بستہ ہاتھ باندھے عوامی
کیلی گولہ اور اس کے گھوڑے این آر او کا قصیدہ پڑھ رہے ہیں۔ |