گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی دھجیاں بکھیرتے
ہوئے لاہور میں چودہ مارچ کی شام پانج بجے تا پندرہ مارچ شام بجے تک بسنت
پر عائد پابندی اٹھالی ہے۔اور اس کےساتھ ساتھ یہ ظلم کیا گیا کہ موٹر
سائیکل پر اس دوران پابندی لگادی گئی ہے یہ تو وہی مثال ہوگئی کہ سنگ و خشت
قید اور سگ آزاد۔ یعنی ایک فضول اور غیر اسلامی تہوار کہ جو ہر سال درجنوں
انسانی جانوں کو چاٹ جاتا ہے اسکو منانے کے لیے ایک تو عدالتی احکامات کی
خلاف ورزی کی گئی اور اس کے ساتھ عوام کو پابند کیا گیا کہ وہ موٹر سائیکل
پر سواری نہ کریں۔موٹر سائیکل مڈل کلاس اور غریب عوام کی سواری ہے اب اس
حکم کے بعد وہ یا تو اپنے تمام کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں یا پھر ان کاموں
کو نمٹانے کے لیے ٹیکسی رکشہ میں مہنگا کرایہ ادا کریں اور اگر کوئی یہ
کرایہ افورڈ نہیں کرسکتا تو وہ بسوں میں خوار ہو اور بسوں میں دھکے کھاتا
پھرے۔تادم تحریر یہ خونی تہوار لاہور میں چار قیمتی انسانی جانیں لے چکا ہے
اور اس میں دو جانیں معصوم بچیوں کی تھیں۔مزید سو سے زائد افراد کے زخمی
ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔اور یہ تو اب سولہ مارچ کو ہی صحیح پتا چلے گا کہ
یہ خونی تہوار کتنی جانوں کو بھینٹ لے چکا ہے۔ اب چونکہ اس وقت عدلیہ آزاد
نہیں ہیں بلکہ حکمرانوں کے کاسہ لیس افراد عدلیہ میں موجود ہیں اس لیے
ہمارا قوی خیال یہی ہے کہ ان ہلاک شدگان کو انصاف نہیں مل سکے گا۔یہ خون
خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوگا۔کہیں اس کی داد رسی نہیں ہوگی کیوںکہ ایک بد
ایسا فرد گورنر بنا ہوا ہے جس نے قانون کو اپنا کھلونا بنایا ہوا ہے۔اور
عدالتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گیں اس لیے ان ہلاک شدگان کے لواحقین رو
دھو کر چپ ہوجائیں گے
اب اگر غور کریں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عدلیہ کی بحالی کیوں ضروری
ہے۔عدلیہ کی بحالی اس لیے ہی تو ضروری ہے کہ کوئی طاقتور فرد اپنے اختیارات
کا فائدہ اٹھا کر اپنی من مانی نہ کرسکے۔تاکہ غریب اور امیر کے لیے ایک ہی
قانون ہو۔تاکہ ارباب اختیار بالکل ہی بے قابو نہ ہوجائیں۔اگر آج عدلیہ آزاد
ہوتیں تو کسی حکمران کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ وہ عدالتی احکامت کو ماننے سے
انکار کردے ۔اور یہ جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کے ذمہ دار گورنر تو ہیں ہی
لیکن ایک حصہ ان لوگوں کا بھی ہے جو اس تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے معاشرے
میں انصاف اور عدل اور مساوات کا سسٹم رائج نہیں ہونے دے رہے ہیں۔
عدلیہ بحالی تحریک کے مخالفین کیا اس بارے میں اپنے ضمیر کو آواز دیں گے یا
یہاں بھی صرف ہمارے آرٹیکل کی مخالفت میں ایک آرٹیکل مزید لکھ ماریں گے۔
نوٹ :بسنت کے تہوار کی حقیقت ہم نے اپنے ایک کالم بسنت یا جشن بہاراں میں
بیان کرچکے ہیں۔اس کالم کے ساتھ اگر اس کا بھی مطالعہ کریں گے تو اس تہوار
کی پوری حقیقت سامنے آجائے گی۔ |