لانگ مارچ اپنے عروج کی جانب گامزن ہے۔ اور اس میں بڑی حوصلہ افزاء صورتحال
سامنے آئی ہے۔ حکومت کے تمام تر آمرانہ، غیر جمہوری، اور ظالمانہ ہتھکنڈوں
کے باوجود ہزاروں افراد کا جم غفیر لاہور کی سڑکوں پر نکل آیا اور یہ
آرٹیکل لکھنے تک یعنی پندرہ مارچ رات ساڑھے آٹھ بجے تک عوام کا جوش و خروش
بڑھتا جارہا ہے۔اور عوام اس میں جوق در جوق شرکت کر رہے ہیں۔جماعت اسلامی
کے لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، پاکستان بار کونسل کے سابق صدر اعتزاز احسن،
نواز شریف اور کئی دیگر لوگ نظر بندی کے احکامت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
سڑکوں پر آگئے۔ نظر بندی کی خلاف ورزی کی خبر سے میرے ان بھائیوں کے
ارمانوں پر اوس پڑ گئی ہوگی جن کا خیال تھا کہ لیڈر تو نظر بندی یا گرفتاری
کے بعد ہاتھ ہلاتے ہوئے چلے جائیں گے اور اصل ٹکا ٹک لاٹھیاں تو عوام کو
پڑیں گی ( اب ہر کسی کا تعلق ایک مخصوص تنظیم سے تھوڑی ہے کہ ملک سے باہر
بیٹھ کر صرف بیان دیدیا )۔حکومتی اقدامات سے یہ تحریک دبنے کے بجائے اور
ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس کے رہمناؤں کا موڈ اس کو کسی نتیجہ پر پہنچانے
کا لگ رہا ہے۔اس حوالے سے اعتزاز احسن صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ
اگر سولہ مارچ کو دھرنا اور لانگ مارچ نہ ہوسکا تو تو کوئی بات نہیں جس دن
اسلام آباد کے راستے میں کھڑے کنٹیر اور رکاوٹیں ہٹائی گئیں اسی دن لاکھوں
لوگ دھرنا دیں گے حکمران کب تک اسلام آباد کو سیل رکھیں گے؟
وکلاء تحریک اپنے کلائمکس کی طرف جارہی ہے۔لاہور میں عوام کے جوش و خروش کی
ایک وجہ گورنر صاحب کے اقدامات بھی ہیں کیوں کہ گورنر صاحب نے عدالتی
احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بسنت منانے کی اجازت دی تھی ان کا خیال تھا
کہ پولیس کی نفری، جبر اور اس کے ساتھ ساتھ گردن پر ڈور پھرنےکا خوف لاگوں
کو گھروں کے نکلنے نہیں دے گا لیکن یہی چیز انکے خلاف گئی اور معصوم بچیوں
کی ہلاکتوں کے بعد عوام نے اپنے غم وغصہ کا اظہار لانگ مارچ میں شریک ہوکر
کیا ہے۔
بات ہورہی تھی نوشتہ دیوار کی تو جناب دو دن پہلے پنجاب میں ایک تھانیدار
نے خلاف قانون احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا۔یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ڈی سی او لاہور نے بھی وکلاء پر تشدد اور شیلنگ
پر احتجاجاً استعفیٰ دیدیا ہے اور لانگ مارچ میں شرکت کے لیے اچھرہ پہنچ
گئے اس کے علاوہ جب نواز شریف کا قافلہ تمام رکاوٹوں کو توڑتا ہوا جب جی پی
او چوک پر پہنچا تو ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے نواز شریف زندہ باد
کے نعرے لگائے اور ڈیوٹی کرنے سے انکار کردیا۔راولپنڈی
میں پولیس نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو گرفتار کرنے سے انکار
کردیا ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل لاہور ہائی کورٹ عبد الحئی گیلانی نے بھی اپنے
عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے ۔حکمران جماعت کے عہدے داران خود اپنی پارٹی کے
اقدامات سے متنفر ہورہے ہیں۔اور احتجاجاً استعفیٰ دے رہے ہیں ۔شیری رحمان
صاحبہ اس کی بڑی مثال ہیں۔اگر حکمرانوں اس کے بعد صرف ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہی اقتدار پر قابض ہوسکتے ہیں ورنہ اخلاقی جواز تو ختم
ہوگیا
اس تمام صورتحال کے بعد کے بعد زرداری صاحب اور رحمان ملک صاحب کویہ قافلے
روکنے کا اخلاقی طور پر کوئی حق نہیں ہے۔جب انکی پارٹی کے لوگ، انکی حکومت
کے عہدے داران، ان کے ساتھ نہیں ہیں۔اور پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں
پہلی بار پولیس افسران اور اہلکاروں نے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار
کردیا ہے۔اور عوام تمام رکاوٹوں اور جبر کے باوجود وکلاء تحریک کے ساتھ ہیں
تو اب انکو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے اور ججز کو بحال کردینا چاہیے۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس ساری صورتحال کے بعد اب چاہے دھرنا ہو یا نہ ہو
لیکن دراصل یہ اس تحریک کی کامیابی ہے۔ |