خواہشات کا عقل پر غلبہ

مشہور مفکر مجددالاسلام امام غزالی نے فرمایا تھا کہ جانوروں میں خواہش کی حس ہوتی ہے مگر عقل نہیں ہوتی ،فرشتوں میںعقل ہوتی ہے مگر خواہش نہیں،انسانوں میں خواہش او ر عقل دونوں ہوتی ہے،عقل خواہش پر غالب آجائے توانسان فرشتوں سے افضل اوراگر خواہش عقل پر غالب آجائے تو انسان جانوروں سے بدترہے۔

ہمارے حکمرانوں کی خواہشات عقل پر غالب نظر آتی ہے۔ان کی خواہشات ان کی ذات سے چپکی ہوئی اور رعایا کی ضرویات اور سہولیات سے مبرا ہے۔

حکومت کرتے ہوئے ساڑے چار سال سے زائدعرصہ گذرنے کے بعدان کو معلوم ہوا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیںاور معیشت کو سدھارنے کے دعوے کتابی ہیں۔

وفاقی کابینہ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس جس کی صدارت وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کی ، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تشویش کا اظہار کیا گیا جب کہ قیمتوں پر قابو نہ پانے پر وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ پر وزراءبرس پڑے۔

یہ ایک خبر ہے اوراسے اخبارات نے باالکل ایسے ہی شائع کیا جیسے حکمرانوں کی خواہش اور وزیراطلاعات کی ” ایڈوائس “ تھی۔

اس خبر کو پڑھنے سے یہ تاثر ملتاہے کہ حکومت اور حکومت میں شامل سارے وزراءاور مشیران عوام کے لیئے شدید پریشان ہیں اس پریشانی سے ان کی رات کی نیندیں اور دن کا سکون غارت ہوگیا ہے۔انہیں زندگی کا مقصد فضول محسوس ہونے لگا ہے۔

لیکن خبر کا دوسرا پیرا پڑھتے ہی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس خبر کا اصل مقصد کیا ہے۔ خبر کے اگلے پیرا میں لکھا تھا کہ وزیر خزانہ کو عام انتخابات سے قبل اشیاءخورد نوش میں کمی کرنے کا ٹاسک دے دیا گیااس حوالے سے وزیراعظم نے خصوصی ہدایت بھی جاری کردی ہے۔

”گیڈر کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑ پڑتا ہے“کا محاورہ ہمارے وزیراعظم اور ان کے تمام ساتھیوں پر صادق آتا ہے ۔ انہوں نے اس آمریت سے بدتر جمہوری حکومت کے طویل دور میں جو کچھ کیاہے اس کے باعث لوگوں کے ہاتھوں انہیں اپنی شامت کا ہی ڈر ہے۔آئندہ اتخابات ان موجودہ حکمرانوں سے عوام کی محبت یا نفرت کا کھلا اظہار ہونگے۔ اگر لوگوں نے ان سے نفرت کا اظہار کردیا توپھر موجودہ دور حکومت پیپلز پارٹی کا آخری دور ثابت ہوگا۔

وفاقی کابینہ کے مذکورہ اجلاس کی کارروائی سے بھی یہ اندازہ ہورہا ہے کہ آنے والے دنوں سے حکومت پریشان ہیں تب ہی وفاقی وزیر خزانہ کو مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور قیمتیں کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
خبر کے مطابق وزراءکی برہمی پر وزیرتجارت نے کہا کہ مہنگائی کا ذمہ دار میں نہیں بلکہ پوری حکومت ہے عوامی حکومت کے وزیر نے کہا کہ ساڑے تین کروڑ لوگوں کو کو ہر ماہ ایک ایک ہزار روپے دئیے جاتے ہیں جبکہ بلوچستان کوچالیس ارب روپے کی جگہ اب ایک سو دس ارب دیئے جاتے ہیں یہ فیصلہ میرا نہیں آپ سب کا ہے۔

اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران عوام سے کس حد تک مخلص ہیں ، وزیر موصوف کو یہ تو یاد رہا کہ ساڑے تین کروڑ لوگوں کو ہر ماہ ایک ایک ہزار روپے دئیے جاتے ہیں لیکن شائد یہ یاد نہیں رہا کہ کابینہ کے تمام اراکین اور وزیراعظم کے کل اخراجات کتنے ہیں؟یہ اخراجات یقینا ناقبل ِ بیان ہونگے۔

وفاقی کابینہ کا اچانک قوم سے ہمدردی اور مخلص ہونے کا اظہار دراصل انتخابات کی تیاری ہے۔ آخری ایام میں عمواََ ایسا رویہ ہی ہوتا ہے۔

صدر آصف زرداری بھی آئندہ الیکشن کی تیاری میں مصروف ہیں اگرچہ انہیں دیگر صوبوں کے ساتھ سندھ کی زیادہ فکر ہے لیکن سندھ کے لئے انہوں نے اپنے” ترپ کے پتے“ ماہر کھلاڑی کی طرح چھپاکر رکھے ہوئے ہیں جسے وہ الیکشن کے قریب یا نگراں حکومت کے دور میں ظاہر کریں گے ۔ان کی سیاست کا اصل امتحان بھی آنے والے آئندہ کے انتخابات ہیں۔ اس انتخابات میں بے نظیر کی عدم موجودگی میں کراچی کی لیاری نشست کو حاصل کرناپوری پارٹی ہی کے لیئے چیلنج ہے ۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیئے شائد انہوں نے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اور سینیٹر فیصل رضا عابدی کو چن لیا ہے۔

صدر زرداری کے لئے کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ پر پر فوری کنٹرول کرنا بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے انہیں یہ اندازہ ہے کہ اگر ٹارگیٹ کلر کو انتخابات کے اعلان سے قبل ختم نہیں کیا تو الیکشن کے دوران جیالے بھی ان کا نشانہ بن سکتے ہیںاور خوف کی وہی فضا پیدا ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں عام ووٹرخوف کے عالم میں ووٹ ڈالے گا یا ووٹ نہیں ڈالے گا ۔ایسی صورتحال میں انتخابی عمل کو نقصان اور ان کی پارٹی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آصف زرداری ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات پر سخت برہم نظر آتے ہیں۔ صدر کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ امن وامان کے حوالے سے جاری سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا فیصلہ کراچی میں فوجی آپریشن کی راہیں نہ کھول دے۔اس طرح کے فیصلے سے بھی انتخابی عمل متاثر ہوسکتا ہے۔تاہم فوج کی نگرانی میں انتخابات سے شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی ہوگا اور حقیقی نمائندوں کو سامنے آنے کا موقع ملے گا۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کی بازگشت میں اضافہ کے ساتھ جہاں سیاسی جماعتیں آئندہ کی حکمت عملی اور انتخابات کی تیاریاں شروع کرچکی ہیں وہیں پر متحدہ قومی موومنٹ قائد اعظم کے پاکستان کے نام پر ریفرنڈم کرانے کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ متحدہ اس عمل کے ذریعے عام انتخابات کے لیئے تحریکی ساتھیوں اور تحریک کا امتحان لینا چاہتی ہے۔

موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو باآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے حقیقی مسائل اور عوام کو پرامن و خوشحال ماحول فراہم کرنے کے لیئے صرف سپر یم کورٹ ہی سرگرم ہے۔عوام کے لیئے حکومت یا اپوزیشن کو جو کردار ادا کرنا چاہئے وہ مجبوراََ عدلیہ کو ادا کرنا پڑرہا ہے۔قوم کے مسائل اور مشکلات سے بے پرواہ رہنے والی پی پی پی اور اس کے اتحادیوںکی حکومت اپنے وجود کے ساتھ ہی عوام کو ریلیف دینے کے لیئے اقدامات کرتی اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ نواز ” فرینڈلی اپوزیشن “ کا کردار ادا کرنے کے بجائے عوام سے مخلص اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی تو شائد پھر کسی نئی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لیئے لوگ بے چین اور بے قرار نہیں رہتے۔

عوام سمجھتے ہیں کہ ملک بھر میں فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوئے تو یہ نہ صرف شفاف ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بلکہ پرامن ماحول میں بھی ہوسکیں گے۔

لیکن پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے فوج کی نگرانی میں انتخابات کی مخالفت کیئے جانے کا امکان ہے۔اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ایسی صورت میں متحدہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردے گی۔انتخابات فوج کی نگرانی میں ہونے سے سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ غیر موثر ہوجاتے ہیں اور یہ ہی وجہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسے انتخابات کی مخالفت کی ہوتی ہے۔

فوج کی نگرانی میں الیکشن کے انعقاد سے سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کی خواہشات کے مطابق نتائج کا حصول نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔لیکن جو کچھ نتائج ان انتخابات سے سامنے آئیں گے وہ ایک نئے اور عوام دوست نظام کی نوید سنائیں گے۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین ابراہیم پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ ”ضرورت پڑی تو فوج کو کوبھی انتخابات کے لیئے طلب کیا جاسکتا ہے“۔

لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب عوام اور سیاسی جماعتیں چاہیں ۔

مگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ایسے انسانوںپر مشتمل ہے جن کی عقل پر خواہشات غالب ہیں مگر ہم مجبور ہیں کہ ان جیسوں کو ہی کو برداشت کریں، قوم کے پاس آپشن بھی تو کوئی اور نہیں ہے نا؟۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152717 views I'm Journalist. .. View More