الیکشن اور موجودہ سیاسی صورتحال

صدر آصف علی زرداری نے آنے والے عام انتخابات کے لئے تیاری کےلئے اتحادی جماعتوں کو آگاہ کیا اور ساتھ چلنے کا عندیہ دیا ۔موجودہ سیاسی صورتحال کے تحت صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ حکومت کسی بھی ادارے کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتی، تاہم، انہوں نے کہا کہ ان کی حدود کے تحت تمام ادارے آئین کے مطابق کام کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ آئین اور پارلیمنٹ کی سپریم ہے اور اس کی بالادستی کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے گا۔ اٹھائیس فروری سن دو ہزار آٹھ کو ہونے والے الیکشن نے سابقہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے جو راہ ہموار کی تھی اب ایسا دکھنے میں نہیں آتا۔یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے جیل میں رہ کر ایئر کنڈیشن کمرے میں تنہائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست، نفسیات، منطقکے علوم کا گہرا مطالعہ کیا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کو باریکی سے چھانا بہت غور و فکر کے بعد تصادم کے بغیر حکومت سازی کا فارمولہ تیار کیا اور اسے گزشتہ الیکشن میں آزمانا ، دنیا نے دیکھا کہ وڈیرہ آصف علی زرداری پاکستان کی سیاست اور ریاست میں سب سے جداگانہ نظر آیا ۔ عوام کے کچھ لوگ منفی انداز سے دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں ان منفی لوگوں میں زیادہ تر حزب الاختلاف کی سیاسی جماعتوں کے لوگ ہیں ،یہ پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ عوام الناس کے سامنے حقیقت نہیں لائی جاتی ، بالائی خانوں کو اوپر ہی بند کردیا جاتا ہے اور اگر مخلص ،سچے صحافی بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پہلے پہل پیشکش کرکے روکا جاتا ہے پھر دھمکی دی جاتی ہیں اور آخر میں وجود ہی کو ختم کردیا جاتا ہے ،اخبارات و ٹیلی ویژن کے مالکان ہوں یا ورکرز انہیں اس قدر مسائل و
دشوریوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ اگر کسی ایسے صحافی یا ورکر کی حمایت اور کوشش میں وقت لگایا گیا تو ادارے کو تہس و نہس کردیا جائے گا، ایسے حالات میں انتظامیہ و پولیس بھی صحافتی اداروں و ورکرز کو قطعی تحفظ فراہم نہیں کرتیں۔ دوسری بات ان واقعات کو عدلیہ تک پہنچنے بھی نہیں دیا جاتا۔ اب بلوچستان کو ہی دیکھ لیں کہ کئی سال گزر گئے آج تک لاپتہ انسانوں کو برآمد نہیں کیا جاسکا ہے اور اب تو شہر کراچی میں بھی قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے کوئی خاطر خواہ بہتری نظر نہیں آتی۔

صدر آصف علی زرداری نے آنے والے الیکشن کا نتیجہ واضع کرکے ثابت کردیا کہ الیکشن کس قدر شفاف ہونگے، دوسری جانب حزب الاختلاف جماعت بھی بڑی مطمعین نظر آتی ہے کہ جیسے اندرون خانہ سیٹوں کا ابھی سے سیٹ اپ کردیا گیا ہو ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے حزب جماعت اور حزب الاختلاف دونوں کو لٹو ہاتھوں میں بھرے تھے اور بھرے ہیں ،ماہرین کہتے ہیں کہ جب سب کو اپنا اپنا حصہ متواتر مل رہا ہوں تو کیونکر اس نظام سے چھٹکارا پائیں گے ، رہی بات عوام الناس کی تو ان میں نہ شعور ہے اور نہ شعور پیدا ہوگا کیونکہ انہیں چھوٹے چھوٹے زندگی کے بنیادی مسائل میں اس قدر دبوچ لیا گیا ہے کہ وہ ان سیاستدانوں کی چالوں کو نہ توڑ سکیں ، پی ٹی آئی، اے پی ایل، اے پی ایم ایل یہ وہ جماعتیں ہیں جو اس حکومت کے سامنے آکر ان کے غلط فیصلے کو رکوا نہ سکی اور دعوے تو اس طرح پیش کیئے جاتے ہیں کہ جیسے کوئی نیا پاکستان بنایا جارہا ہو ماہرین کے مطابق یہ بھی کئی دھوکوں میں سے ایک دھوکہ ہے اکثر سیاسی ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست جس انداز اور شکل میں مبتلا ہوچکی ہے ان حالات میں الیکشن کو ووٹنگ کے وقت نادرا سے منسلک کرکے انگوٹھے کی اسکینگ لازمی قرار دی جائے اس سے جعلی ووٹ کی روک تھام ممکن بن سکتی ہے لیکن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس فارمولہ کو پسند نہیں کرلیں گی کیونکہ اس میں حقیقت کا پہلو واضع ہوجاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی پسند اور ناپسند کا تناسب بلکل صاف شفاف نظر آجائیگا حقیقت تو یہ کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں تمام اپنے اپنے علاقوں میں انتہائی جعلی ووٹوں کا آزادانہ استعمال رکھتی ہیں اس سلسلے میں سیاسی ماہرین نے ٹنڈو محمد خان اور خیبر پختون خوا کے ضمنی انتخابات کی طرف اشارہ کیا کہ کس قدر دھونس و دھمکی اور جعلی ووٹوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور انتخابی اسٹاف کو کس قدر حراساں رکھا گیا ۔ میڈیا نے ان حقیقت کو حکومتی ذمہ دار ادروں کے سامنے پیش کیا مگر ایوان میں کوئی خاطر خواہ رد عمل نظر نہ آیا کیونکہ یہ امیدواران حزب جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے یوں تو از خود کئی نوٹس لیئے لیکن حیرت و تعجب کی بات ہے کہ انہیں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی نظام انتخابات پر قطعی نظر نہ گئی آخر کیوں؟؟ چیف جسٹس صاحب نے اپنے دور ملازمت میں ممکن ہے کئی تعداد میں بار کے الیکشن دیکھے ہونگے اور انہیں انتخابات کے عمل کی اہمیت کا ضروراحساس ہوگا دوسری جانب چیف جسٹس صاحب نے الیکشن کمشنر کو واضع کیا کہ انتخابی فہرستوں کو درست کیا جائے اور اسے نادرا سے منسلک کردیا جائے توسابقہ الیکشن کمشنر نے حیلے بازی کا سہارا لیا اور اُسے نادرا سے منسلک کرنے کی ٹیکنیکی معزوری ظاہر کردی شائد اس کے پیچھے بھی سیاستدانوں کے مفادات چھپے تھے ۔ موجودہ الیکشن کمشنر فخرو الدین جی ابراہیم کے متعلق حزب جماعت اور حزب اختلاف نے متفق ہوکر حکومت وقت کو نامزدگی کیلئے منظوری دی تھی ۔ ماہرین کے مطابق اگر فخرو الدین جی ابراہیم واقعی اس ملک و قوم کے مسقبل کیلئے بہتر راہ اور انصاف پر مبنی شفاف انتخابی نظام دینا چاہتے ہیں تو انہیں نادرا کے ساتھ ڈیٹا منسلک کرکے انگوٹھے کا اسکینگ سسٹم بھی لازم قرار دینا چاہئے اس سے آنے والے الیکشن میں وہی منتخب ہونگے جو عوام چاہتے ہیں اور بیرونی سیاسی قوتیں بے سود ہوجائیں گی یہ عوام با عزت با وقار زندگی گزار سکے گی پاکستان کا نام اور فلیگ محترم ہوجائیگا ۔ قرآن المجید و الفرقان الحکیم کی سورة الاحزاب آیت 57 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” بیشک جو لوگ اذیت دیتے ہیں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کو، لعنت بھیجی ہے ان پر اللہ نے، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اُن کیلئے رُسوا کردینے والا عذاب ہے “

اس آیت بارکہ میں واضع ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینا کس قدر پکڑ کی بات ہے یہ اذیت احکامات خدا اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی نافرمانی ہے پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا لیکن وقتاً فوقتاً ہمارے حکمران اور سیاستدان اسلام دشمن ممالک سے رہنمائی اور اطاعت برداری کرکے سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بہت اچھا کام کیا ہے اور ان سے بھیک حاصل کرکے پوری قوم کو ذلت کی دہلیز پر پہنچا کر فخر محسوس کرتے ہیں ، شراب نوشی کو فیشن اور بے حیائی کو اسٹینڈرڈ سمجھنے والے پاکستان کے وجود میں آنے کے چند سال بعد سے ہی پاکستان کی ریاست کے ٹھکیدار بنے رہے اس گروہ میں اضافہ بھی ہوا تو ان جیسوں کا!! پاکستان کی تقدیر بدلنے والے اتنے کمزور ہیں کہ اگر معمولی سا مرض یا کوئی مچھر ، مکھی بھی آجائے تو گھبرا جاتے ہیں کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو بھلا بیٹھے ہیں اور دنیا کی عیش و عشرت میں دھت ہیں ، انہیں ایک عام پاکستانی کی حالت کا اندازہ ہی نہیں !! آئے روز مگرمچھ کے آنسو بہاکر اپنے جرم کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بار بار عوام کو ڈس سکیں ۔ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان مزید دیوالیہ میں آجائے گا کیونکہ ان پانچ سالوں میں ہر سیاستدان کو بری طرح عوام کو ادھیڑ دیا ہے اور اب بچی کچی حالت کو قیمہ بنانے کے درپے ہیں ۔ایک قربانی کا بکرا صرف ایک بار ذبح ہوتا ہے لیکن پاکستانی عوام ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ہاتھوں روز ذبیح ہوتے ہیں ، ناقص پالیسیاں ، ناقص انتظامیہ ، ناقص اقتصادیات اور ناکام وزراءنے پاکستان کی یہ حالت بنا ڈالی ہے ، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں انتخابات کے سلسلے کو ووٹنگ کے وقت ووٹر کو اسکینگ کے مراھل سے نہ گزارا گیا تو کبھی بھی شفاف انتخابات نہ ہوسکیں گے وہ الگ بات ہے کہ” منہ میاں مٹھو “ یہ تو ازال سے ہی پاکستان میں چلتا آرہا ہے ۔پاکستان کی تمام قوم جو ووٹ کا حق رکھتی ہے اگر ووٹ بھی دے تو کچھ مثبت حاصل نہ ہوگا کیونکہ انتخابات کا نظام اس قدر ناپید ، فرسودہ، ناکارہ ہے کہ با ٓسانی اس میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے اور من مانے لوگ منتخب کیئے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والا الیکشن پاکستان کیلئے کو ئی خاص تبدیلی کا باعث نہ بن سکے گا بلکہ جو ہیں وہی اپنی کامیابی کا جشن دیکھیں گے۔۔۔!! لیکن پاکستان افسوس، افسوس کیا حال ہوگا!!!؟؟
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 247540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.