مولانا آزاد۔ایک عظیم رہنما

ہندوستانی مسلمان ایک ایسی ملت کا نام ہے جس کا ماضی مہرباں اور درخشاں جس کا حال بے مہر اور ماتم کناں ہے ۔آئیندہ کے بارے میں یقین معدوم امید موہوم اور مستقبل غیر معلوم ہے ۔ ماضی گذر گیا‘ مستقبل پردہ غیب میں ہے جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ حال ہے اور حال میں صحیح سمت میں اور صحیح انداز میں کوشش کرنے پر روشن مستقبل کاانحصار ہے‘ صحیح سمت میں اور صحیح اندازمیں کوشش کس طرح کی جائے اس کا انحصار دو چیزوں پر ہے‘ ایک یہ کہ اپنے حالات سے متعلق مکمل شعور اور آگہی اور دوسرے اپنے مذہب کی روح سے مکمل واقفیت۔

جہاں تک حالات کا تعلق ہے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوﺅں کی احیائی تحریکوں نے مسلمانوں کو معاشی سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ مسلمانوں کا وجود بھی انہیں برداشت نہیں‘ مذہب اورتہذیب کو برداشت کرنے کا سوال تو بعد میں آتاہے‘ ہمارے اس نقطہ نظر کی سب سے بڑی دلیل گجرات کے فسادات ہیں جو حکومت کی نگرانی میں کرائے گئے اور جہاں وہ جماعت حکمراں ہے جس کی تشکیل کا بنیادی عنصر مسلمان دشمنی ہے آسام کے فسادات کو ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں ۔ اس ملک میں مسلمانوں کے مسائل کا تعلق بڑی حد تک اسی رویہ سے ہے جواحیائی تحریکوں نے اختیار کر رکھا ہے‘ چنانچہ مسلمانوں کی تہذیب ‘ ثقافت نعلیمی اداروں ‘ زبان اور پرسنل لا کو خطرہ اسی طرح کی تحریکوں سے ہے اور یہ عناصر مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔

یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب ہم ہندوؤں کی احیائی تحریکوں کانام لیتے ہیں تو اس سے ہماری مراد پوری ہندو قوم نہیں ہوتی ہے‘ ہندو قوم کی اکثریت احیائی ذہنیت نہیں رکھتی اور تمام ہندو مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے‘ ہندووں کے معتقدات اور سیاسی نظریات میں بہت فرق اورتفاوت پایا جاتاہے‘ زیادہ تر ہندو اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہندوستان کی سرزمین مختلف نسلوں اورتہذیبوں اور مذہبوں کے قافلہ کی منزل رہی ہے‘ سیکڑوں سال سے ہندوستان اس سانچہ میں ڈھل چکاہے اور اس سانچہ کو نہ توڑا جاسکتاہے اور نہ بدلا جاسکتاہے‘ صدیوں سے ہندوستان کی تقدیرمیں یہی رنگا رنگی ہے‘ ہندووں کی ایک اقلیت نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا جس طرح سے مسلمانوں کی ایک اقلیت نے اس صورت حال سے خود کو ہم آہنگ نہیں کیا‘ حال کے اس مجمل اور مختصر تجزیہ کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتاہے اسلام کی روح ان حالات میں کیا رہنمائی کرتی ہے اور اس تہذیبی اور مذہبی بو قلمونی میں ہندوستانی مسلمانوں کو کیا پیغام دیتی ہے‘ میرا خیال یہ ہے کہ مولانا آزاد کی بصیرت نے ان حالات میں اسلام کی روح کو سمجھتے ہوئے اور ہندوستان کے مخصوص مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے بہتر رہنمائی کی ہے اور یہ رہنمائی مولانا آزادکی ایک تقریر میں زیادہ صاف نظر آتی ہے‘ مولانا آزاد کہتے ہیں:
”میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں ‘ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں‘ میں تیار نہیں کہ اس کا چھوتے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم‘ اسلام کی تاریخ اسلام کے علوم وفنون ‘ اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہےکہ اس کی حفاظت کروں‘ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں ایک خاص ہستی رکھتا ہوں‘ اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے‘ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں‘ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی‘ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے‘ میں فخر کے ساتہ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں‘ میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ‘ میں اس کی تکوین کاایک ناگزیر عامل ہوں‘ میں اس دعوی سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا“۔
(خطبات آزاد مرتبہ شورش کا شمیر)

کیا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ صحیح ترین رہنمائی نہیں ہے جو اسلام کی روح سے واقفیت کے ساتھ حالات کے شعور اور تجزیہ پر مبنی ہے‘ کیا آج کے حالات میں ایک محب وطن مسلمان کا بعینہ یہی موقف نہیں ہونا چاہئے؟

اگر مولانا آزاد کی تقریر کا یہ اقتباس اہم ہے تو اس کی اہمیت کا احساس کتنے لوگوں نے کیاہے‘ یہ اقتباس اس قابل ہے کہ خوبصورت طریقہ سے اسے لکھوایا جائے‘ چھپوایا جائے آسمان سے برسایا جائےٍ اور گھروں میں اور ڈرائنگ روم میں دیوراروں پر فریم کرواکے اسے آویزاں کیا جائے تاکہ صحیح راستہ کا تصور ذہن اور دماغ میں واضح رہے اور پورے طور پر راسخ ہوجائے‘ مسلمانوں کے لئے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ غیر مسلم اکثریت کے ساتھ ان کی زندگی نوشتہ تقدیر بن چکی ہے‘ وہ چاہیں یا نہ چاہیں ان کو اس ملک میں اسی حال میں رہنا ہے‘ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح وہ اس ملک کی آبادی کا ناقابل انکار حصہ ہیں‘ یہی قدرت کا فیصلہ ہے‘ اور اسلامی علوم کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ قدرت کا یہ فیصلہ عظیم امکانات کا حامل ہے‘ بشرطیکہ مسلمان اپنے اندر وہ صفت پیدا کرلیں ان کامذہب جس سے متصف ہونے کی انہیں دعوت دیتا ہے‘ مسلمانوں کو حیرانی اور سرگشتگی کے عالم سے بلاتاخیر باہر آجانا چاہئے ‘ اور ایک محب وطن مسلمان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے‘ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ معلوم‘ لیکن مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے کی ذمہ داریوں کو اس ملک میں ادا نہیں کر رہے ہیں‘ کیا ہمارے اعمال وکردار میں وہ خوبصورتی پیدا ہوگئی ہے اسلام نے جس کا ہم سے مطالبہ کیاہے کیاہمارے اندر وہ اخلاقی خصوصیات موجود ہیں جن کا تجربہ کرکے برادران وطن یہ محسوس کریں کہ مسلمان ایک شریف انسان اوربہتر پڑوسی اور اچھا شہری ہوتاہے‘ اس کا پڑوسی ہونامحلہ کے لوگوں کے لئے اطمینان کی بات ہوتی ہے‘ اس کو اپنے کارخانہ میں اور اپنی کمپنی میں ملازم رکھنا کا رخانہ اورکمبنی کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے‘ کیونکہ وہ دوسروں سے زیادہ فہیم‘ مخلص ‘ محنتی‘ کارگذار اور امانت دار ہوتاہے‘ کیا ہم مسلمانوں نے خدمت ایثار اور قربانی اوراخلاقی بلندی کا کوئی نقش قائم کیاہے‘ ہم مسلمانوں کا حال بحیثیت مجموعی اقبال کے اس شعر کے مرادف ہے:
جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو

کاش کہ ایسا ہوتاکہ برادران وطن کے سامنے مسلمانوں کی بہت اچھی تصویر ہوتی‘ وہ سمجھتے کہ مسلمان بے ایمانی اور کام چوری نہیں کرسکتاہے‘ انصاف اور سچائی کا راستہ اسے پسند ہے‘ انسانی اور ورحانی اقدار کے اعتبار سے وہ دوسروں سے بلند ارو زیادہ ممتازہے‘ وہ مسجد میں عبادت بھی کرتاہے ارو ایمان داری کے ساتھ کام کرنے کو بھی عبادت کا درجہ دیتاہے‘ وہ کمزوروں کا مددگار اور غریبوں کا غم خوار ہوتاہے۔وہ شریف اور تعلیم یافتہ ہوتا ہے ۔وہ مذہبی تنگ نظری سے دور ہوتا ہے اور تمام انسانوں کو خدا کا کنبہ سمجھتا ہے لیکن اسی کے ساتھ اسے اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بھی ہے اور وہ اپنے مذہب کو اپنے ہم وطنوں کے لئے سوغات نجات بھی سمجھتا ہے ۔ اور حکومت میں ان لوگوں کو بر سراقتدار لانے کی کوشش کرتا ہے جو منصف مزاج ہوں اور مذہبی تنگ نظری سے دور ہوں ۔

مولانا آزاد کا جو اقتباس اوپر نقل کیا گیاہے وہ صحیح ترین راستہ ہے جو اسلام کے مطالعہ پر مبنی ہے‘ اور گرد وپیش کے حالات کے گہرے تجزیہ پر بھی مبنی ہے‘ اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کا دستور بہت اچھا دستور ہے ۔ اسی دستور کی روح ہے جس کی بدولت دیر سے سہی مولانا آزاد کے نام سے اردو کی ایک یونیورسیٹی قائم ہوسکی ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس ملک میں دیر سویر باہمی رواداری کی فضا عام ہوگئی‘ تلخیوں اور کدورتوں کا خاتمہ ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی ممکن نہیںہے‘ فیض احمد فیض کی طرح ہمیں بھی انتظار ہے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
Mohsin Usmani
About the Author: Mohsin Usmani Read More Articles by Mohsin Usmani: 6 Articles with 10589 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.