آوے ہی آوے تے جاوے ہی جاوے

"دعا کیجیئے گا کہ جو بھی آئے خدا کرے کہ وہ ہمارے ملک کے حق میں بہتر ثابت ہو"۔

اتنا کہہ کر اس نے گھڑی میرے ہاتھ میں تھما دی اور میں نے اسکی مقررہ اجرت یعنی کل 3 ڈالر اسکی طرف بڑھا دیئے جسے اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا۔اور میں سارے راستے یہ ہی سوچتا رہا کہ آخر اس نے مجھے کہ جسے امریکا آئے بمشکل چند روز ہی تو ہوئے ہیں یہ کیوں کہا کہ:۔۔

۔"دعا کیجیئے گا کہ جو بھی آئےخدا کرے کہ وہ ہمارے ملک کے حق میں بہتر ثابت ہو"۔

اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں میں ماموں کے پاس پہنچا اور انکے ہاتھ میں گھڑی تھما دی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوال کرتے میں نے بناء کسی توقف کے ان پر سوال داغ دیا۔۔

۔"ماموں، اس گورے دکاندار جسکے پاس آپ نے مجھے گھڑی میں بیٹری دلوانے کو بھیجا تھا مجھ سے یہ کیوں کہا کہ:۔

۔"دعا کیجیئے گا کہ جو بھی آئےخدا کرے کہ وہ ہمارے ملک کے حق میں بہتر ثابت ہو"۔

میری بات کے جواب میں ماموں کے چہرے پر ایک بڑی ہی بھرپور مگر معنی خیز سی مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر قدرے توقف کے ساتھ وہ میری جانب دیکھتے ہوئے ہولے:۔۔

۔" ارے بھئی جیسے کہ تم خود بھی جانتے ہو کہ ابھی تمھارے امریکا آنے سے غالباً دو روز قبل ہی صدارتی انتخابات ہو ئے ہیں اور امریکی ریاست فلوریڈا میں پڑھنے والے چند مشکوک ووٹوں کے سبب امریکی صدارت کے دونوں امیدواران جارج بش اور الگور کے درمیان حقیقی فاتح کا فیصلہ نہیں ہو پارہا ہے اور معاملہ امریکی سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے۔ تو اب یہ گورے صاحب جنھیں اپنے ملک سے بہت ہی زیادہ محبت ہے، ہر روز اس وجہ سے مسلسل روزے رکھ رہے ہیں کہ خواہ کوئی ہی کیوں نا صدر بنے لیکن جو بھی آئے وہ ملک کے حق میں بہتر ثابت ہو اور ہر ملنے جلنے والے کو بھرپور تاکیدکرتے ہیں کہ وہ خدا سے یہ دعا کرے کہ اس تنارعہ کے طے ہوجانے کے بعد جو بھی بطور صدر آئے وہ ملک کے مفاد میں بہتر تابت ہو"۔

ماموں کچھ دیر سانس لینے کو رکے ہی تھے کہ میں نے ایک عدد اور سوال ان پر داغ دیا:۔۔

۔"کیا عیسائی بھی روزہ رکھتے ہیں؟"۔۔"ہاں بھئی، کیوں نہیں، وہ محض کھانے سے گریز کرتے ہیں البتہ پانی اور جوس کی ممانعت نہیں ہوتی اور ہاں یہ جو گورا ہے نا ، بھائی بڑا ہی ایماندار اور مخلص ہے، یہ ہی دیکھ لو نا کہ گھڑی میں نئی بیٹری ڈالنے کے محض 3 ڈالر ہی لیتا ہے۔"

ماموں نے بڑے ہی فخر و مسرت کے ساتھ انکشاف کیا۔

۔"ارے ماموں جان، کچھ تو خدا کا خوف کریں، "محض 3 ڈالر"۔

میں نے "محض 3 ڈالر" پر خاص الخاص روز ڈالتے ہوئے نہایت ہی تعجب آمیز لہجے میں کہا:

۔"آپکو کچھ معلوم بھی ہے کہ 3 ڈالروں کے 180 پاکستانی روپے بنتے ہیں اور اتنے میں تو پاکستان میں ایک نئی گھڑی خریدی جا سکتی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں محض تین ڈالر"۔ (2000 میں ایک امریکی ڈالر 60 روپوں ہی کا ہوا کرتا تھا)۔

۔"بھائی تم ابھی نئے نئے امریکا آئے ہو، تمھیں ابھی امریکی آٹے دال وغیرہ کا بھاؤ کچھ نہیں معلوم، دوسری جگہوں پر بیٹری بدلونے کے 10 اور کہیں کہیں تو 15 ڈالروں تک بھی وصول کیئے جاتے ہیں"۔

میرا زہن ایک بار پھر گھڑی کی بیڑی بدلوانے کے بھاؤ تاؤ سے باہر آکر اس امریکی گورے اور امریکی صدرارتی انتخابات کے تانے بانے میں جا الجھا۔

میں امریکی انتخابات سے صرف دو روز قبل ہی امریکا میں ماموں جان کے پاس وارد ہوا تھا اور آنے سے قبل ہر لمحہ اپنے تصورات میں امریکی صدرارتی انتخابات اور امریکا میں انکی گھماگھمی، امیدوارن کے انتخابی نعروں سے لبریز بینروں کو سڑکوں اور شاہراؤں پر آویزاں ، گلی کوچوں اور چوراہوں پر قائم ان کے جماعتی پرچموں سے سجے سجائے کیمپوں میں حمایتی و کارکنان کو لاوڈ اسپیکروں پر اپنے اپنے من پسند لیڈران کے حق میں نعرے بلند کرتے:۔

۔"میرا لیڈر آوے ہی آوے تے تیرا لیڈر جاوے ہی جاوے"۔

اور پھر سر پھرے و جیالے سیاسی کارکنان لاؤڈ اسپیکروں پر اپنے مد ِمقابل قائم کیمپ میں موجود اپنے ہی جیسے دیگر سیاسی کارکنان کو برسر ِعام للکارتے اور انکی شان میں وہ کچھ کہتے سنائی دیتے کہ کچھ نا ہی پوچھیں تو ہی بہتر ہے۔ یادش بخیر، یہ میری نوجوانی کے دور کا واقعہ ہے، نئی نئی جوانی اور دماغ میں انقلابی خیالات، ایسے میں ایک سیاسی جماعت کے خیالات اپنے انقلابی خیالات سے بہت قریب نظر آئے، کوئی 25 ایک سال پہلے کا قصہ ہے، انتخابات کا دور تھا اور مزار ِقائد پر اس جماعت کا عظیم الشان جلسہ متقد کیا گیا تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ میں پیچھے رھ جاتا، اپنے دیرینہ دوست منیر علی کے ہمراہ اپنے سینے پر اس سیاسی جماعت کے پرچم کا بیج آویزاں کیئےجلسے میں جا شریک یوا اور ہر زندہ باد و مرباد اور آئے ہی آئے تے جاوے ہی جاوے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جلسے کے اختتام پر ہم دونوں پیدل ہی گھر کی جانب روانہ ہوئے۔ رستے میں ایک اسیے علاقے سے گزر ہوا کہ جو اس مخصوص سیاسی جماعت کے مخالفین کا گڑھ تھا۔ میرے اور منیر کے سینے پر آویزاں پرچمی بیج کو دیکھ کر چند شریر نوجوانوں نے اس سیاسی جماعت کے لیڈر سے وہ وہ رشتے جوڑے کہ اگر اسکا زکر میں نے یہاں کردیا تو بہت سے دوست مجھے اپنی فیس بک سے فوری طور پر خارج کردینگے لہذا اس ہر ہردہ ہی پڑا رہنے دیں۔ ہاں البتہ اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ہم نے اس دن سے بعد سے میں نے اور دوست منیر علی نے عوام الناس کی اسقدر بھرپور سیاسی رواداری کا کھلم کھلا مظاہرہ دیکھ کر نا صرف اس قسم کے سیاسی بیجوں سے اور پھر دھیرے دھیرے سیاسی جماعتوں سے بھی مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی۔

بہرکیف، جب وہ نعرے لگاتے لگاتے تھک جاتے تو پھر اسی لاوڈ اپسپکر پر پاکستانی فلموں کی پیروڈی میں انکے لیڈران اور انکی جماعت کے حق میں بنائے گئے نغمات نشر کیئے جارے ہیں مثلاً:۔

مظلوموں کا ساتھی ہے میرا لیڈر

تیرا اور میرا ساتھی ہے میرا لیڈر

جیئے جیئے جیئے جیئے جیئے میرا لیڈر

ہارے ہارے ہارے ہارے ہارے تیرا لیڈر

ملک بھر کے در و دیوار سیاسی لیڈران اور انکی جماعت کے انتخابی نعروں سے سیاہ ہورہی ہونگی اور ہر بجلی کا کھمبہ، کھمبہ کم اور سیاسی جماعنوں کے پرچموں سے لدا پھندا کوئی آفیشیل فلیگ پوسٹ نظر آرہا ہوگا۔

لیکن جب ہوائی اڈے سے ہاہر آنے کے بعد ہوسٹن جیسے عظیم الشان شہر اور پھر کم و بیش چار گھنٹے تک مسلسل گاڑی میں منزل ِمقصود کی جانب رواں دواں رہنے کے باوجود انتہائی شدید کوشش کے بھی اوپر بیان کردہ میرے تصوراتی مناظر میں سے کوئی ایک بھی منظر ڈھونڈے نا نظر آیا تو مجھے اپنے پاکستانی اخبارات کی ان تمامتر خبروں پر شک ہونے لگا کہ جسکے مطابق 6 نومبر کو امریکی صدرارتی انتخابات منعقد کیئے جانے والے ہیں۔

بھلا بتائیں، جس ملک اور ملک بھی کونسا کہ جسکے انتخابات پر دنیا کا بچہ بچہ یوں نگاہین جمائے بیٹھا ہوتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان انتخابات میں امریکی مستقبل کا فیصلہ نہیں بلکے خود اسکے اپنے مستقبل کو فیصلہ ہونے کو ہو اور خود اس ملک کی اپنی فضاء کا عالم بقول شاعر کچھ یوں ہے:۔
جانے نا جانے گل ہی نا جانے باغ تو سارا جانے ہے

اور اس بھی بڑھ کر حیرت تو مجھے عین اس روز ہوئی کہ جب وہ معرکہ بپا ہوتا تھا یعنی 6 نومبر کو۔ میں صبح اس امید سے بیدار ہوا کہ آج تو امریکا بھر میں عام تعطیل ہوگی اور لوگ باگ آج میری اس حسرت کو پورا کرتے نظر آئیں گے کہ جسکا تصور دل و دماغ میں لیئے امریکا آیا تھا لیکن یہ جان کر شدید مایوسی ہوئی کہ آج کوئی عام تو کیا خاص تعطیل تک نہیں، سب لوگ اپنے کام کاج پر آ جا رہے ہیں اور اسی دوران جس کو جیسے موقعہ مل رہا ہے وہ اپنا ووٹ بھگتا رہا ہے۔ نا کوئی سیاسی کارکنان اور نا ہی کوئی انتخابی کیمپ آفس اور تو اور اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کیلئے وٹروں کو گھیر گھار کر لے جانے کی نیت سے چلائیں جانے والی بسیں تک بھی کہیں دکھائیں نا دیں، نا سڑکوں پر گشت کرتی پولیس یا فوج ہی نظر آئی۔

میں دل ہی دل میں امریکی قوم پر افسوس کرتا رہ گیا کہ انہوں نے کس آسانی سے ہاتھ آیا عام تعطیل کا موقعہ کس کمال لاپروائی سے گنوا دیا اور انہیں اس چھٹی کے چھٹ جانے کا چنداں کوئی غم نہیں بقول حضرت علامہ اقبال:۔

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

آج اس بات کو کوئی 12 برس کا عرصہ بیت چکا ہے اور آج پھر 6 نومبر ہے اور صبح بسلسلہ روزگار اٹلانٹا شہر کی سٹرکوں اور شاہراوں سے گرزتے ہوئے میں نے ایک بار پھر اسی سابقہ بےپروائی اور لاتعلقی کے وہی دیرینہ مناظر کو دیکھا اور خلاف ِ معمول ایک سڑک کے کنارے قائم شدہ چرچ کی عمارت کی باونڈری کو امریکی پرچموں سے آرستہ دیکھ کر مجھے وہ گورا امریکی یاد آگیا جس نے مجھ سے کہا تھا کہ:۔

۔"دعا کیجیئے گا کہ جو بھی آئے خدا کرے کہ وہ ہمارے ملک کے حق میں بہتر ثابت ہو"۔

پاکستان میں بھی انتخابات قریب ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ یہاں امریکا میں اس صدرارتی انتخاب کا فاتح کون ٹھرتا ہے (کیونکہ اس وقت شام کے کچھ چار بجے ہیں اور انتخابی معرکہ ہنوز جاری ہے)۔

لیکن میرا دل اپنے وطن ِاول اور وطنِ ثانی کے لیئے یہ ہی دعا مانگ رہا ہے:۔

۔"جو بھی آئے خدا کرے کہ وہ ہمارے ملک کے حق میں بہتر ثابت ہو"۔

آمین
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 51110 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.