ایشیاءکی تاریخ کو اگر دیکھا
جائے تو بر صغیر کو ایک نا قابلِ فراموش مقام حاصل ہے۔تقسیم ہند سے پہلے ہی
دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں برصغیر پاک و ہند میں دلچسپی رکھتی تھیں۔اور بڑی
طاقتیں نہ صرف اپنا سکہ جمانے کے خواب دیکھتی تھیں ساتھ ہی اس خطے پر مکمل
قبضہ حاصل کر نے کی ایک جدوجہد سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان چل رہی
تھی۔چھوٹے ممالک کی تاریخ کا مطالعہ اس راز سے پردہ اٹھاتا ہے کہ چھوٹے
ممالک اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے بنیاد پر بڑی طاقتوں
کو اپنے خطے کے ممالک میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا ہی تقسیم ہند کے
بعد پاکستان اور بھارت نے کیاتھا۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنے اقتصادی مسائل
کاحل جان کر اس خطے میں لانے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ پاکستان بھارت کے خلاف
کھڑے ہونے والے تمام تر ممالک کو ایک جگہ اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔اور اس میں
وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا۔امریکہ سے نہ صرف اسلحہ خریدنا شروع
کر دیا بلکہ ساتھ ہی مالی معاونت کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ چل
نکلاتھا۔جو آج تک نہ جانے کیوں اور کیسے جاری ہے۔بھارت بھی بقاءکی اس جنگ
میں کسی سے پیچھے نہ رہا۔اس نے بھی پہلے سوویت یونین اور پھر برطانیہ سے
اسلحہ اور دیگر جنگی سامان کی خرید و فروخت شروع کردی۔خطے میں بھونچال اس
وقت آیا جب پاکستان نے امریکہ سے پہلے جہاز اور ہیلی کاپٹر خریدے۔مگر اس سے
دور رست فوائد حاصل نہ کیے جاسکے۔کیونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان چھڑنے
والی جنگ نے امریکہ پر نہ صرف بین الاقوامی دباﺅ بڑھا دیا ساتھ ہی بھارت سے
تعلقات کی مزید کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کو نہ صرف جدید ہتھیاروں کی
فروخت بند کر دی ساتھ ہی بھارت کی امداد کا ایک خفیہ پروپیگنڈا تیار
کیا۔ایسے میں پاکستان کی حالت کمزور بھی ہو سکتی تھی مگر اس وقت کی حکومت
نے چین سے بہترین تعلقات قائم کرکے اس سے امداد وصول کی۔اس جنگ میں جیسے
تیسے کامیابی پاکستان کا مقدر بنی ۔مگر ایسے میں امریکہ کا کردار کھل کر
سامنے آگیا۔اس کی وفاداریاں پاکستان سے کس قدر تھیں اس پر مزید کچھ کہنے یا
لکھنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔ہم ماضی سے سبق نہیں سیکھتے۔تاریخ کے تلخ
حقائق کو ہم محض ایک ڈراﺅنا خواب سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔بھارت نے اپنے ماضی
سے سبق سیکھا جس کی بدولت وہ کسی بھی شعبے میں پاکستان سے پیچھے نہ
رہا۔بھارت اور چین کے مابین جنگ نے پاک چین دوستی کو ایک نیا عزم دیا۔مگر
بھارت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین سے سفارتی تعلقات میں اضافہ کیا۔اور
امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
مصروف رکھنا ہی بہتر ہے۔بھارت نے امریکہ کے ساتھ معاہدے کرنے اور تعلقات
بڑھانے میں ذیادہ وقت صرف نہ کیا۔اب ایک بار پھر پاکستان ایک کشیدہ صورت
حال سے دوچار ہے۔ملک میں قانون اور انصاف کی بالا دستی تک کو قائم کرنا ایک
مسلہ ہے۔اگر ایسے حالات میںبھارت کے ساتھ سرحدی امور پر کوئی بھی معاملہ
بگڑتا ہے تو اب کی بار نہ صرف امریکہ ہمارا ساتھ چھوڑ چکا ہے ساتھ ہی اب
چین بھی بھارت کے خلاف کوئی بھی اقدام اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ملکی
انتظامیہ نے روس کا ہاتھ تھامنے کی ایک کوشش کی۔ملاقاتیں بھی ہوئیں۔مگر ان
ملاقاتوں کے بعد روس کا بھارت کو اس بات کا یقین دلانا کہ بھارت کے خلاف
کسی بھی ملک کو اسلحہ نہ بیچا جائے گا۔نہ ہی بھارت کی سالمیت کے خلاف بننے
والے کسی اتحاد کا ساتھ دیا جائے گا۔یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے۔کہ ہم اب
روس پر بھی انحصار نہیںکرسکتے۔طالبعمانہ سوچ اس بات کے گرد کھومتی ہے کہ
اگر بھارت کے روایتی دشمن اس کے دوست بن سکتے ہیں۔اگر امریکہ ،روس اور چین
بھارت کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔تو پاکستان نے ماضی کے دشمن کو دشمن ہی
کیوںرکھا؟کیا ہمیں اب برطانیہ کی طرف دیکھنا ہوگا۔اور ہم پھر کئی سال پیچھے
جائیں گے۔یا امریکہ کو اس بات کا احساس دلایا جائے گاکہ دہشت گردی کی جس
دلدل میں اس ملک کو دھکیلا گیا ہے۔اس میں صرف پاکستان نہیں بلکہ امریکہ کو
بھی جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ماضی میں بھی باہر سے آنے والی تمام طاقتیں
دونوں ملکوں کو آپس میں گتھم گتھا کرا دینے کے بعد خود اس کھیل سے یکسر بری
نظر آتی ہیں۔جنوبی ایشیا کے امن کو اگر اولین ترجیح نہ بنایا گیا تو یہ نہ
صرف برصغیربلکہ یورپی اور خلیجی ممالک میں بھی قیام امن کی تمام تر کوششیں
ناکام ثابت ہوں گی۔ماضی کے حالات کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ تو بخوبی
لگایاجا سکتا ہے۔کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی میں
تبدیلی نہیں لائیں گے تو ہم ایک بار پھر 1971کے کے لیے تیار رہیں۔جس کی
تیاریاں جاری ہیں۔مگر اس کے لیے کوئی بھی ہرگز تیار نہ ہے۔اور نہ ہی
پاکستان کا گرتا اٹھتا جمہیوری نظام اس حالت میں ہے کہ اس پر مزید ضرب
لگائی جائے۔تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے ، اپنا آج
اپنے گزرے ہوئے کل سے اور اپنا آنے والا کل اپنے آج سے بہتر نہیں کرتے تو
وقت کے ظالم قدموں تلے روند دیے جاتے ہیں۔ |