سچ کی جیت – افتخار محمد چوہدری کی بحالی

آج، 16 مارچ 2009 ، ایک تاریخی دن ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی ایک تقریر میں یہ اعلان کیا ہے کہ حکومت عدلیہ کو 3 نومبر 2007 والی حالت میں بحال کررہی ہے۔

کل لاہور کے شہر زندہ دلان میں لانگ مارچ کی کال پر ہزاروں لوگ نکلے۔ دفعہ 144، سڑکوں کی ناکہ بندی، پولیس کی بھاری نفری، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ساری رکاوٹیں ان لوگوں کو ڈرانے اور روکنے میں ناکام ہوگئیں۔ عوام کے سیلاب کو روکنا ممکن نہیں تھا۔ یہ قافلہ لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا۔ ابھی گوجرانوالہ تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ وہ فیصلہ آگیا جس کے لیے وکلاء، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں 2 سال سے جدوجہد کررہی تھیں۔

جھوٹ کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو، سچ کو نہیں ہرا سکتا۔ جھوٹ کبھی سچ کو دبا نہیں سکتا۔ حق اور باطل کی جنگ میں آخری فتح صرف حق کی ہوتی ہے۔ انصاف اور ناانصافی کا مقابلہ ہو تو ناانصافی کو منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ 9 مارچ 2007 کو ایک آمر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو حق پرستی اور انصاف پسندی کے جرم میں مستعفی ہوجانے پر مجبور کیا۔ آفرین اس شخص پر جس نے حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہا اور اس کے حکم پر گردن جھکانے سے انکار کردیا۔ اسی قصور کی پاداش میں چیف جسٹس آف پاکستان، جناب افتخار محمد چوہدری کو قہر و عتاب کی سزا سنادی گئی۔ پھر خلق خدا نے دیکھا کہ اس لائق احترام اور اعلیٰ ترین مسند کے حامل شخص کو کس بے دردی سے پولیس اور انتظامیہ کے ہاتھوں بے توقیر کیا گیا۔ چیف جسٹس کے اہل خانہ کو ان کے گھر میں مقید کردیا گیا۔ کسی بھی شخص کو ان سے ملنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔ لیکن ابھی دنیا میں سچ کہنے اور سچ کا ساتھ دینے والے موجود ہیں۔ حق کا ادراک اور حق شناسی کی روایت کی حالت درگوں سہی، لیکن وجود رکھتی ہے۔ چیف جسٹس کی جرات انکار نے انہیں قوم کا ہیرو بنادیا۔ اور یکایک وہ دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ ان کی حمایت کرنے والوں اور ان کے لیے سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی رہی۔

افتخار محمد چوہدری کو 9 مارچ 2007 سے قبل شاید ہی کوئی عام آدمی جانتا ہو۔ پاکستان کے اکثر لوگوں نے ان کا نام تک نہ سنا تھا۔ لیکن 10 مارچ 2007 کو سارا پاکستان اس مرد جری سے آشنا ہوگیا۔ ہر گزرتا دن افتخار محمد چوہدری کی مقبولیت میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ 20 جولائی 2007 آمر کی شکست اور منصف کی فتح کا دن تھا، جس دن افتخار محمد چوہدری کو سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ان کے عہدے پر بحال کردیا۔ لیکن آمروں کے اندر طاقت کا غرور اور زعم انہیں فرعونیت کے اظہار پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ اسی آمر نے 3 نومبر 2007 کو مارشل لاء لگا کر سپریم کورٹ کے ان تمام ججز کو عملی طور پر قید کردیا جنہوں نے مارشل لاء کو ماننے اور آمر کی اطاعت سے انکار کردیا۔ باطل کی اطاعت سے انکار کرنے والوں کے امام افتخار محمد چوہدری ہی رہے۔

حق اورانصاف کے حصول کی اس جدوجہد کے راستے میں آمر اور اس کے پروردہ دہشت گردوں کی سفاکی اور انسانیت سوزی کا نوحہ خواں، 12 مئی 2007 کا خون آشام دن بھی آیا۔ اس دن کراچی کی سڑکوں پر آمر کے پروردہ دہشت گرد انسانی جانوں سے ہولی کھیل رہے تھے اور آمر اسلام آباد میں کھڑا مکے دکھا کر طاقت کا مظاہرہ کررہا تھا۔ بےگناہ انسانوں کے کشت و خون پر نازاں یہ آمر زیادہ دیر تک اپنی طاقت برقرار نہ رکھ سکا، اور اقتدار کے ایوانوں سے بے آبرو اور بے وقعت کر کے نکالا گیا۔ لیکن 12 مئی اور لال مسجد کے سینکڑوں لوگوں کا یہ قاتل ابھی مواخذے کی گرفت میں نہیں آرہا۔ ان بے گناہ مقتولین کے ورثاء ابھی تک بے چین ہیں، کہ ان کو سکون تو اسی وقت نصیب ہوگا جب مجرموں کو جرم کی پوری پوری سزا ملے گی۔ اگر موجودہ حکمران کرسی بچانے کی حرص سے آزاد ہوکر 12 مئی کے دہشت گردوں کا سراغ لگائیں اور انہیں قرار واقعی سزا دیں تو شاید ان معصوم اور بے گناہ لوگوں کو انصاف مل سکے۔
Zahid Sharjeel
About the Author: Zahid Sharjeel Read More Articles by Zahid Sharjeel: 5 Articles with 37746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.