اگر ایران پر حملہ ہوا

د نیا کے نقشے پر ایران کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔مسلمان ممالک نے جیسے ہی جوہری ہتھیاروں کی جانب اپنے قدم رواں دواں کیے یورپ میں ان کے خلاف ایک مہم جاری ہوگئی۔جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو عالمی طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے روکا جاسکے۔ایران کے ایٹمی توانائی کے حصول نے یورپ کے سفاکانا عزائم کو کھول کر سامنے لایا۔دوسری مسلمان ایٹمی طاقت کے خلاف سازشوں کے انبار لگائے گئے۔اسرائیل اور امریکہ نے اس کے خلاف کھل کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔اور اور اشتراک کی بنیاد پر انہوں نے نہ صرف ایران پر سفارتی پابندیاں عائد کردیں ساتھ ہی ایران پر حملے کی تیاری بھی شروع کردی گئی۔مگر امریکہ اور اسرائیل کے موقف ان جوہری خطرات پر الگ الگ ہیں۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن باہو نے 2012میں کہاتھا کہ ایران اگلے چھ سے آٹھ ماہ میں اتنا ےورینیم جمع کر لے گا کہ اس سے بمب بنایا جا سکے۔جبکہ امریکی صدرباراک اوبامہ کے مطابق ایران ایسے کرنے کی قابلیت 2014 سے پہلے حاصل نہیں کرسکتا۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران پر بھاری سفارتی پابندیاں لگا کر اس کو مذاکرات پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔مگر اسرائیل کا موقف اس کے برعکس ہے۔ان کے نزدیک عسکری کاروائی ہی معاملے کا حل ہے۔اور اسرائیل کے وزیراعظم کے نزدیک مشکل وقت 2013ہے 2014نہیں۔کیونکہ جب ایران اتنا یورینیم جمع کر لے کہ اس سے بمب بنایا جاسکتا ہو تو ایران فوراََ سے قبل ایسا قدم اٹھائے گا ۔اور کسی کو کاروائی کا موقع نہیں دےگا۔اس کے جواب میں امریکہ کا یہ ماننا تھا کہ کوئی بھی کاروائی اس وقت کی جائے گی جب ایران کی اعلیٰ انتظامیہ اس بات کا اعلان کرے گی کہ انہوں نے اتنا یورینیم اکٹھا کر لیا ہے جس سے وہ ایٹمی ہتھیار تیار کر سکیں۔مگر اسرائیل کے حکام امریکہ کے اس فیصلے سے خوش نظر نہ آئے۔ان کا اسرار تھا کہ عین ممکن ہے ایران کی انتظامیہ ایسا کوئی اعلان نہ کرے اور اس کاروائی کو مکمل خفیہ رکھا جائے۔ےا پھر کسی ایسے میزائیل کا تجربہ کیا جائے جسے امریکہ رڈار نہ دیکھ سکیں۔انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی یقین دہانی کے بعد بھی کہ ایران میں کوئی بھی غیر معمعلی کاروائی جاری نہیں۔امریکہ اور اسرائیل میں ایران کے معاملے پر کافی اختلاف رائے دیکھنے میں آرہا ہے۔اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے خطرے کا باعث وہ فیکٹریاں ہیں۔جہاں ڈیٹونر چیک کیے جاتے ہی ۔اور وہیں چھوٹی چھوٹی لیبارٹریوں میں عسکری ساز و سامان کی تیاری بھی کی جاتی ہے۔مگر اسے سٹلائیٹ اورخفیہ ایجنسیوں کی پہنچ سے دور رکھا گیا ہے۔اور وہاں تک معلومات کے حصول کے لیے رسائی ممکن نہیں۔ایک موقع پر تو اسرائیل نے ان خطرات کا اظہار بھی کیا کہ اگر ایران کے شہر وں میں جو کہ تہران سے سو (100)میل کی دوری پر ہیں۔تو اس سے ان ہتھیاروں کی مکمل تباہی ممکن نہیں۔اسرائیل کے اعلیٰ عہدے داروں کا ےہ مشورہ تھا کہ اگر حملہ کیا جائے تو تحران سمیت پورے ملک میں جہاں جہاں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی نشاندہی ہو ےا وہاں اسلحہ ساز فیکٹریاں ہوں تو ایک جامع انٹیلی جنس رپورٹ کے بعد ان تمام مقامات پر بمباری کی جائے۔امریکہ کو سامنے لاکر لڑنے میں اسرئیل کا ےہ بہانہ بھی راس ہے کہ اگر امریکہ حملہ کرے گا تو عالمی میڈیا اور بین الاقوامی طاقتوں کے اعتراض کا ایک واضح جواز ہوگا۔حقائق بھی اسی فیصلے کا ساتھ دیتے ہیں کہ اگر امریکہ اپنے جدید بمبر تیاروں سے نئی ٹیکنالوجی سے بنائے گئے بمب گراتا ہے تو اس کے تباہی اسرائیل کے پاس موجود کسی بھی جہاز سے یا بم سے زیادہ ہوگی۔یہاں تک تو ان کی ایک سوچ تھی۔جس میں اختلاف بھی کھل کر سامنے آگیا ۔اب اگر حقیقت میں حملہ کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج جاننا انتہائی ضروری امر ہے۔اگر ایران پر کسی قسم کا حملہ اسرائیل کرتا ہے تو امریکی عوام اس میں امریکہ کی شرکت نہیں ہونے دے گی۔عوام کا اکثر رجحان اس امر کی جانب ہے کہ ایران کے معاملے پر امریکہ کو چپ سادھ لینی چاہیے۔اور نہ اس حملے کی مذمت کرنی چاہیے نہ ہی ساتھ دینا چاہیے۔امریکہ کے علاوہ اسرائیل حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اگر حملہ ہوا تو ایران سب سے پہلے تیل کی سپلائی بند کر دے گا جس سے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جسے روکا نہیں جا سکے گا۔ساتھ ہی ایٹمی ہتھیاروں کے عدم معاہدے سے مکر جانے کا اس کو ایک جواز بھی مل جائےگا۔اور وہ مزید تیزی سے بمب بنانے میں مصروف عمل ہوجائےگا۔ایشیا میں موجود امریکی اتحادیوں اور امریکی فوج کے لیے مسائیل بڑھ جائیں گے۔اس لیے اسرائیل باریک بینی سے امریکہ کی گرتی ہوئی ساخت اور ایران کے معاملے پر امریکہ سے اپنے بگڑتے ہوئے حالات کا جائزہ لے رہا ہے۔اسرائیلی کیبنٹ میں سابقہ آرمی چیفس نے بھی تن تنہا حملہ کرنے کی حمایت نہ کی۔امریکہ کے پھر وہی صدر منتخب ہوئے ہیں۔جس سے اسرائیل کے لیے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔اور اب اسرائیل نئی امریکی حکومت کی پالیسیوں اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر ملنے والی خفیہ رپورٹس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر پائے گا۔اگر آنے والے انتخابات میں نیتن باہو بھی جیت گئے تو وہ شام کی حکومت گرنے کا انتظار کریںگے۔شام چونکہ ایران کو اتحادی ہے تو اس کو شام کے گرنے کے شدید نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ان تمام حالات کو دیکھ کر یہ تو فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا کردار اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ امریکہ کا اتحادی ہے ۔اگر پاکستان چاہے تو جب تک بر صغیر میں امریکہ کی فوج موجود ہے وہ ایران پر حملہ نہ کرنے دے۔اور تن تنہا اسرائیل بھی ایسا کرنے سے باز رہے گا۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47765 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More