تحریر :محمد شکیل تسکین
روز نامہ ’’خبریں‘‘ملتان کے 3؍اکتوبر 2012اور روز نامہ ’’بولتا پاکستان‘‘
ملتان کے 24ستمبر 2012ء کے اخبارات میں ایک مضمون بعنوان ’’ محمد علی درانی
کی پریس ریلیزکی کانفرنسیں ‘‘ پڑھا جسے مسیح اللہ خان جامپوری نے تحریر کیا
تھا اسے پڑھنے کے بعد مجھ سمیت اہل بہاول پور کو یہ ضرور افسوس ہوا ہو گا
کہ اللہ اولیاء کی دھرتی اور اسکے گرد و نواح میں ایسے ایسے تعصبی رائٹرز
بھی موجود ہیں جو اپنے قلم کے ذریعے اپنی ہی بھولے بھالے عوام کو مسلسل
بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں جو بہر صورت قربہ قیامت کی نشانیاں ہو سکتی ہیں
۔ اپنے مضمون میں جو باتیں موصوف مضمون نگار نے کی ہیں ان پر سوائے ماتم کے
اور کیا ، کیا جا سکتا ہے تاہم اس مضمون سے یہ ضرور ثابت ہوا کہ آہستہ
آہستہ یہ رائٹرز بہاول پور صوبہ کی حقیقت کا ادارک ضرور کر لیں گے جو کہ
خوش آئند ہے مگر مضمون نگار نے متحدہ محاذ کی آدھی کہانی سنا کر یہ تو
بہرحال مان لیا کہ بہاول پور صوبہ کبھی تھا جسکی ہی وجہ سے کوئی متحدہ محاذ
نامی تنظیم یا جماعت وجود میں آئی تھی جبکہ مضمون نگار نے اس حوالے سے من
مرضی کی کہانی سنا کر دوسری باتوں میں قارئین کو الجھا کر خود کو بری الزمہ
کر لیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 24اپریل 1970ء کو فرید گیٹ (بہاول پور) پر ایک
لاکھ سے زائد افراد کے جلسہ پر جب انتظامیہ نے گولیاں برسائیں جس سے حافظ
محمد شفیق اور عظیم بخش داد پوترہ شہید ہوئے تھے جو شہداء بہاول پور کہلائے
اس وقت جو ہوا وہ اکثر مختلف تحریروں میں لکھا جاتا رہا ہے ، اس واقعہ کے
بعد جنرل الیکشن ہوئے جس میں متحدہ محاذ کے ہی پلیٹ فارم سے بہاول پور کے
متعدد لیڈران نے الیکشن لڑا اور اہل بہاول پور نے ثابت کیا کہ وہ بہاول پور
صوبہ کی بحالی چاہتے ہیں جسکی وجہ سے ان لیڈران کو کامیابی حاصل ہوئی مگر
یہ ایک الگ بات ہے کہ بہاول پور صوبہ کے وزیر اعلیٰ مخدوم حسن محمود اور
بہت سے دوسرے لیڈران اسمبلی میں پہنچ کر اپنے بنیادی کاز سے منحرف ہو کر
پارلیمنٹ لاجز میں کہیں کھو گئے تاہم اہل بہاول پور کے ایسے بھی لیڈران تھے
جن میں نظام الدین حیدر بھی شامل ہیں جنہوں نے صرف اسلئے آئین پاکستان پر
اپنے دستخط نہیں کئے تھے کہ وہ جس عوامی مینڈیٹ سے جیت کر اسمبلی آئے تھے
اس پر انکی بات نہیں سنی جا رہی تھی اور یہاں ہی سے صحیح معنوں میں بہاول
پور صوبہ بحالی کی تحریک آغاز ہوتا ہے ، فرید گیٹ پر گولیاں چلنے کے بعد
بھاری تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں تاہم بعد ازاں انہی اسیران نے شہزادہ
مامون الرشید عباسی ، بنت بہاول پورمحترمہ طاہرہ خان ، میاں نظام الدین
حیدر ایم این اے سمیت دیگران جانثاران کی قیادت میں علم حق بلند کئے رکھا
جو وقت کیساتھ چلتا ہوا اکرم انصاری ، الحاجی بلیغ الرحمن ، قاری مونس بلوچ
، حبیب اللہ بھٹہ ، تابش الوری ، مخدوم غلام مرتضیٰ ، ہماریوں گلزار ، ولی
اللہ اوحد ، گلزار نسیم ، ہماریوں گلزار ، ماجد گلزار اور ایسے کئی سینکڑوں
افراد نے بہاول پور صوبہ بحالی کی تحریک کو پچھلے 43سال سے قائم و دائم و
زندہ سلامت رکھا ۔ خیر !رہی بات 1973ء میں کسی سرائیکی کانفرنس کی جس میں
امیر آف بہاول پور نواب عباس خان عباسی اوراس وقت کے ولی عہد اور موجودہ
امیر آف بہاول پور پرنس صلاح الدین عباسی کی شرکت کی تو بتایا چلوں کہ
نوابین بہاول پور اہل بہاول پور سمیت دُنیا بھر میں ہر دلعزیز اور سب کو
ساتھ لیکر چلنے والی شخصیات تھیں اور ہیں ۔ یہاں اگر میں یہ ذکر کروں کہ
نواب سر صادق محمد خان عباسی خامس ایک علم دوست شخصیت کے مالک تھے ، اپنے
لوگوں سے والہانہ محبت ، وطن عزیز کیلئے مالی احسانات و قربانیاں اور اسکے
علاوہ بھی بہت کچھ تو اسکی ساری دُنیا ویسے ہی داعی ہے اسی کیساتھ ساتھ
نوابین فطرتاً رحم دل شخصیات تھے انہوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا اور
کسی کا کہا ہوا رد نہیں کیا اور اپنے باپ داد کی ہی فطرت کے مالک موجودہ
امیر آف بہاول پور پرنس صلاح الدین بھی ہیں جن کے بھولے پن سے فائدہ اٹھا
کر کئی گمنام آج اسمبلیوں میں ’’سائنسدان‘‘ بنے ہوئے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں
کہ اُس وقت بھی انکے بھولے پن سے ہی فائدہ اٹھا کر کسی نے اپنی تقریب کو
چار نہیں بلکہ ’’ آٹھ چاند‘‘ لگا لئے ہونگے کیونکہ اہل بہاول پور جانتے ہیں
کہ نوابین بہاول پور ’’سیاسی شعبدہ بازیوں‘‘ سے کوسوں دور ہیں ۔
قارئین !مضمون نگار نے محمد علی درانی کے بارے میں جو کہا ، وہ کسی حد تک
درست بھی ہو سکتا ہے مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ بانی پاکستان مسلم لیگ
میں آنے سے پہلے کانگریس میں تھے اور جب انہوں نے دیکھا کہ انگریز و ہندو
ایک ہی ہیں اور وہ اس فورم پر اپنی بات صحیح طور نہیں سمجھا سکتے تو انہوں
نے مسلم لیگ کی کمانڈ سنبھالی اور وطن عزیز کوبہت سی قربانیوں کیساتھ حاصل
کیا جس پر اس وقت کے صرف 3کروڑ عوام نے انہیں قائد اعظم کا خطاب دیا جبکہ
موصوف مضمون نگار یہ بھی جانتے ہونگے کہ کیا چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس
افتخار محمد چوہدری نے 2مرتبہ پی سی او کا حلف نہیں اٹھایا ؟ جب ساری قوم
ان سب باتوں کو بھول کر چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنا مسیحا سمجھتی ہے تو
کیا محمد علی درانی کے ’’گناہ‘‘ایسے ہیں جنہیں معاف نہیں کیا جا سکتا۔
محترم مضمون نگار صاحب وطن عزیز میں آج تک کسی نے معافی نہیں مانگی ،
کروڑوں اربوں روپے لوٹ کر ’’فرار‘‘ ہو جانیوالوں نے کبھی قوم سے معافی نہیں
مانگی ، جب ملک دو لخت ہو رہا تھا تو ایک جنرنیل صاحب ننگے فضاؤں میں تھے ،
ان جیسوں نے بھی کبھی قوم سے معافی نہیں مانگی ، محترمہ فاطمہ جناح جو کہ
قوم کی ماں ہیں اور تھیں انہیں دھاندلی سے ہرانے والوں نے کبھی قوم سے
معافی نہیں مانگی ، ہاں معافی مانگی تو صرف وطن عزیز کے اس عظیم ہیرو نے
مانگی جس نے وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنایا جسے سرکاری ٹی وی پر لا کر رسواء
کیا گیا، ایسا کرانیوالوں نے بھی کبھی قوم سے معافی نہیں مانگی تو کیا ایسی
صورت میں محمد علی درانی کا ’’معافی‘‘ مانگنا بنتا ہے؟ مگر پھر بھی دھرتی
کے سپوت ہونے کے ناطے بہاول پور صوبہ بحالی کی تحریک کو تیز اور سوئے ہوئے
سرائیکی صوبہ کے لیڈران کو جگا یا تاہم محمد علی درانی نے واپس بہاول پور آ
کر اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اپنے پچھلے تمام ’’گناہوں‘‘ کی معافی مانگی
تھی جو انکا بڑا پن ہے اور وطن عزیز بشمول اہل بہاول پور اتنے سنگدل نہیں
کہ وہ انہیں معاف نہ کریں کیونکہ اہل بہاول پور ایک باضمیر افراد کا کنبہ
ہے ، جو اپنی ثقافت و لب و لہجہ مختلف اور الگ شناخت رکھتا ہے ۔ مضمون نگار
کا محمد علی درانی کی آل پارٹیز کانفرنس کو پریس ریلیز کانفرنس کہنے پر تو
اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاید کوئی برابلم ہے یا پھر کہیں کوئی ٹیلنٹ
کی کمی ، جو اس پہلے بھی سرائیکی صوبہ مانگنے والے لیڈران کو شدت سے محسوس
ہوتی رہی ہے یعنی اپنی بات صحیح طور پر اپنے عوام تک نہ پہنچا پانااسلئے وہ
بہاول پور صوبہ کی بحالی کی تحریک میں اپنی ’’ٹوٹی ہوئی ٹانگ‘‘ اڑھا کر اسے
سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس وقت انکا ضمیر کہاں مر جاتا ہے جب
وہ کسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر بہاول پور کے ہی ایک حلقہ سے ضمنی الیکشن
لڑنے پہنچ جاتے ہیں اور بہاول پور میں ہی آ کر اپنی پریس کانفرنسوں کریں جن
میں سرائیکی صوبہ کیلئے کوئی کار آمد بات کرنے کی بجائے اُلٹا نوابین بہاول
پور سمیت دیگر جید و جانثار لیڈران بہاول پور بحالی صوبہ تحریک کیخلاف ہرزہ
سرائی کرتے ہیں حالانکہ انہیں چاہئے تو یہ ہے کہ وہ یہاں آ کر اہل بہاول
پور کو اپنا بنائیں ناکہ انہیں اپنی اصلیت دکھا کر خود سے اور دور کریں ۔
یہاں محترم مضمون نگار سے ایک بات انتہائی ادب و احترام اور معذرت کے ساتھ
کہوں گا کہ وہ اپنے سرائیکی صوبہ حاصل کرنیوالے لیڈران کو اس جانب راغب
کریں کہ وہ بہاول پور صوبہ کی بحالی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور
اہل بہاول پور کو انکو کھویا ہوا مقام واپس دلائیں کیونکہ اسی میں ہی
سرائیکی صوبہ کا راز پنہا ہے اور وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ جب تک بہاول پور
صوبہ بحال نہیں ہو گا سرائیکیستان صوبہ کبھی نہیں بنے گا جبکہ بارہا مرتبہ
کہا جاتا رہا ہے اور راقم الحروف بھی متعدد بار کہہ چکا ہے کہ اہل بہاول
پور کو کسی قوم یا اسکی کسی بھی تحریک سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی انہیں
سرائیکی صوبہ یا کسی اور صوبہ سے دلچسپی ہے ،اہل بہاول پور کو اس سے بھی
کوئی غرض نہیں کہ سرائیکی صوبہ بنتا ہے یا نہیں تاہم خدا کرے کہ سرائیکی
صوبہ ضرور بنے مگر بات پھر وہاں ہی آجاتی ہے کہ اہل بہاول پور اپنی سابق
شناخت یعنی بحالی صوبہ کے کاز سے جوڑے ہیں اور انہیں اپنے ہی صوبہ کی بحالی
چاہئے کیونکہ وہ تخت لاہور سے جان چھڑوا کر تخت ملتان کے زیر تسلط ہو
کراسکی ایک ذیلی کالونی نہیں بننا چاہتے۔
محترم قارئین !مضمون نگار مسیح اللہ خان جام پوری کا اپنے مضمون میں ایک
اور بات کی جسکا لب و لباب یہ تھا کہ محمد علی درانی نے اپنی آل پارٹیز
کانفرنس میں غیر ملکی یا مقامی میڈیا کو مدعو نہیں کیا اور گھر بیٹھے ہی
پریس ریلیز جاری کر دی وغیرہ وغیرہ ، تو محترم مضمون گار جی راقم الحروف
سمیت بہاول پور کے تمام قومی و علاقائی اخبارات ، جرائد ، رسائل کے مالکان
و دیگر نمائندگان سب موجود تھے تاہم معذرت کیساتھ کہ اہل بہاول پور نے اپنا
صوبہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں سے بحال کرانا ہے ناکہ صدر امریکہ
باراک اوبامہ یا برطانیہ کے وزیر اعظم یا کسی اور عالمی شخصیت سے ؟ ہمارا
سیدھا سادہ سا معاملہ ہے جسے ہمارے مقامی محترم صحافی حضرات جانتے ہیں کہ
کیسے حکام بالا تک پہنچانا ہے اور ویسے بھی بہاول پور کی صحافت کا ملتان یا
وطن عزیز کے دیگر شہروں سے ہٹ کر ایک الگ ٹرینڈ ہے تاہم بہاول پور میں کوئی
بھی غیر ملکی میڈیا کا نمائندہ نہیں ہے مگر جب کوئی غیر ملکی شخصیت یہاں آ
جائے تو وہ اپنے ساتھ ہی اپنے میڈیا فوکل پرسن لے آتی ہے ۔ اور یہ بھی آپ
نے جو بات حبیب اللہ بھٹہ صاحب سے کہی ہے اسکا جواب وہی بہتر دے سکتے ہیں
کیونکہ وہ ایک جید صحافی و کالم نگار بھی ہیں اور حیات بھی ، بہ اپنا مدعہ
صحیح خود ہی سمجھا سکیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ انکی زندگی دراز کرے۔ (آمین)
قارئین !مسیح اللہ خان جامپوری کے راقم الحروف جس مضمون کا ذکر کر رہا ہے
اُس کی ایک اور مضحکہ خیز بات کی جانب بھی قارئین کی توجہ مبذول کرائیگا جو
دلچسپی میں کسی سے کم نہیں ۔ موصوف اپنے مضمون کے ایک پیرا گراف میں لکھتے
ہیں کہ ’’ بہاول پور میں ہونیوالی نام نہاد کانفرنس میں جن افراد کے نام
سامنے آئے ہیں ان میں ایک لدھیانوی صاحب بھی ہیں جو شخص پاکستان کی شناخت
کو قبول نہیں کرتا ۔ ابھی تک اپنے نام کیساتھ لدھیانہ کا لاحقہ چسپاں لئے
پھرتا ہے بھلا وہ کس طرح سرائیکیوں کا غمگسار ہو سکتا ہے۔ ‘‘
میرے پیارے پڑھنے والے سمجھ تو گئے ہونگے کہ میں کیا کہنے یا لکھنے والا
ہوں جو شخص خود اپنے نام کیساتھ ’’جام پوری‘‘ کا لاحقہ چسپاں کئے پھر رہا
ہے جو ابھی تک پاکستانی شہری ہی نہیں بن سکا تو کیا ایسے صورت میں انہی کے
الفاظ انہیں واپس کر دیتا ہوں کہ ’’بھلا وہ کس طرح سرائیکیوں کا غمگسار ہو
سکتا ہیں ۔ ‘‘وطن عزیز کو آزاد ہوئے 66برس گذر چکے ہیں اور ہماری حالت یہ
ہے کہ ہم آج تک ایک دوسرے پر انگلیاں ہی اٹھانے میں مصروف ہیں جبکہ موصوف
مضمون نگار جانتے ہونگے کہ کسی پر انگلی اٹھانے والی کی اپنے ہی ہاتھ کی
تین انگلیاں اسی کی طرح ہوتی ہیں ۔
محترم قارئین !راقم الحروف بار ہا مرتبہ لکھا چکا ہے اور بر ملا اسکا اظہار
بھی کرتا رہتا ہے کہ میں سرائیکی وسیب یا قوم کا مخالف نہیں کیونکہ بہت سے
کالم نگار یا مضمون نگار باتیں تو بہت تحریر کرتے ہیں جبکہ میری حقیقتاً
ملتانی سرائیکیوں سے رشتہ داریاں بھی ہیں مگر میرا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ جو
سچ ہوتا ہے اسے مانتا ہوں اور جھوٹ کو جھوٹ کہتا ہوں تاہم اگر اللہ تعالیٰ
نے کسی کو قلم کا استعمال سکھا ہی دیا تو کم ازکم اسے چاہئے کہ صحیح راہ پر
چلائے ۔ یہ کیا کہ جب بھی ملتان یا اسکے گرد و نواح سے کسی مضمون نگار کا
’’سرائیکی وسیب‘‘ یا ’’سرائیکی صوبہ‘‘ بنائے جانے کے حوالے سے کوئی مضمون
آتا ہے تو وہ اپنے مضامین کے اختتام پر اپنے وسیب یا اہل بہاول پور کے
ریاستی آباد کاروں کو کیوں حدف تنقید بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر ایسا ہو
گیا تو یوں ہو جائیگا ، یوں ہو گیا تو آباد کاروں کیلئے مشکلات کے نئے در
کھول جائینگے وغیرہ وغیرہ ۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار بننے والے ہی اپنے
’’شاہ‘‘ کو مروا دیتے ہیں اور خود بھی کہیں ’’تیتر بتر‘‘ ہو جاتے ہیں اور
شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی قلم کے ذریعے اتنا تعصب اور نفرت کو اُگلا جا رہا
ہے اگر کل کو سرائیکی صوبہ بن گیا تو معلوم نہیں آباد کاروں کو خدانخواستہ
’’کوڑے‘‘ مار کر نکال دیا جائیگا ، یہی وجہ ہے کہ بہاول پور کا ریاستی اور
ریاستی آباد کار کسی بھی تعصبی صوبے کا حامی نہیں وہ اپنے سابق انتظامی
بنیاد پر قائم صوبہ بہاول پور کی ہی بحالی کی بات کرتا ہے اسلئے بھی کہ
یہاں اپنائیت ہے ، تعصبات نہیں ، یہاں ملن ساری ، ہرزہ سرائی نہیں ، یہاں
حقائق کو تسلیم کیا جاتا ہے ، زبردستی نہیں کی جاتی ، یہاں سچ کو سچ اور
جھوٹ کو کہا جاتا ہے ، اپنی ہی کوئی گھڑی ہوئی تاریخ سنائی یا لکھی نہیں
جاتی ، یہاں ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا ہے ، ایک دوسرے کو نیچا نہیں
دکھایا جاتا ، اہل بہاول پور ایک خاندان ہے جس میں کسی عبداللہ کی ضرورت
نہیں ۔ یعنی ’’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔‘‘ |