بلیک اوباما

دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے وائٹ ہاﺅس میں دوسری بار قیام کے لئے عوام کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد اس امر کا اظہار کیا ہے کہ وہ امریکہ کو جنگ سے دور لے جائیں گے۔ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک ایسا ملک ورثے میں دینا چاہتے ہیں جو محفوظ اور پوری دنیا میں با عزت ہو۔ جس کا دفاع دنیا کی بہترین فوج کرتی ہواور جو جنگوں سے دور ایک ایسے امن کو جنم دے سکے جس کی بنےاد ہر انسان کے لئے آزادی اور وقار ہو۔ مزید چار سال کےلئے منتخب ہونے والے اوباما کے یہ الفاظ بلا شبہ عالم انسانیت کےلئے انتہائی خوش کن ہیں۔ ”امن کے قیام“ اور ”انسانیت کے احترام“ کا تو امریکہ مدعی ہے ہی جس کے لا تعداد مظاہر دنیا کے ہر ملک میں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن امریکی صدر نے پہلی بار امریکہ کو جنگ سے دور لے جانے کی جو بات کی ہے وہ پوری دنیا کےلئے حیران کن ہے کہ دور دور جا کر جنگیں مسلط کرنے والا جنگ سے دور جانے کی بات کس طرح کر رہا ہے؟ ممکن ہے ان کے مذکورہ اعلان کا حشر بھی امن کے قیام اور انسانیت کے احترام جیسا ہی ہو کیونکہ جنگ امریکی حکمرانوں کا من پسند مشغلہ ہے۔ ان کی معیشت کے استحکام کا دارومدار جنگوں ہی پر ہے‘ امریکہ نہ صرف خود جارحیت کا ارتکاب کرتا رہا بلکہ اس نے دوسرے ممالک کو بھی شہہ دے کر باہم برسر پیکار کرایا اور پھر امن کے قیام کےلئے دونوں جانب سے مفادات سمیٹے۔ مسلم ممالک کے تیل اور معدنی ذخائر پر قبضے کےلئے اس نے ہر حربہ اختیار کیا‘ دنیا بھر میں جتنا خون بہا ‘ جس قدر قتل و غارت گری ہوئی ‘ بارود برسایا گیا اس کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے۔ اپنی دہشت اور طاقت کی آڑ میں اس نے انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ لاکھوں انسانوں کو خون میں نہلانے کے بعد اب اگر یہ کہا جا رہاہے کہ امریکہ کو جنگ سے دور لے جایا جائے گا تو اس پر یقین مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ جا بجا اپنی ٹانگیں پھنسانے ‘ فوجیں اتارنے اور بحری بیڑے بھجوانے کے باعث چونکہ اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوچکی ہے اور وہ اربوں کھربوں ڈالر کا مقروض ہے لہٰذا س کی معیشت اسے جنگوں کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ عراق کے بعد افغانستان سے انخلا کی راہےں تلاش کرنے کی وجہ بھی امریکہ کی کمزور ہوتی معیشت اور مقاصد کے حصول میں ناکامی ہے۔ اتحادی افواج کے حوصلے بھی جواب دے چکے ہیں اور وہ اسے لا حاصل جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے عوام کی خواہشات کے پیش نظر اپنی افواج کو اس جنگ میں جھونکنے پر آمادہ نہیں۔ حالات کی نا مساعدت ‘ افواج کے مورال میں کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات نے امریکہ کو جنگ سے دور ہونے پر مجبور کیا ہے۔ اوباما یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے پےشروﺅں اور انکی پالیسیوں کی بدولت امریکیوں کا نام نہ صرف دنیا بھر میں گالی بن چکا ہے بلکہ ان کا تحفظ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ امریکہ کے سابق صدور کی طرح”بلیک اوباما“ نے بھی دنیا بھر میں روشنی کے بجائے اندھیرے پھیلائے‘ اپنے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کا سکھ چین چھینا اور انہیں عدم تحفظ سے دو چار کیا۔ عالم اسلام میں بارود کی اتنی کاشت کی گئی کہ اسے خود اسکا پھل کھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کے تلخ ذائقے نے اتنی کڑواہٹ گھولی کہ اسے مٹھاس کی تلاش پہ مجبور ہونا پڑا۔ بلیک اوباما اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ان کے پھیلائے گئے اندھیاروں کے سائے امریکہ تک ضرور دراز ہوں گے اور وہ اس طرح سے ان کی لپیٹ میں آئے گا کہ اسے کچھ دکھائی اور کچھ سجھائی نہ دے گا۔ مکافات عمل کا کوڑا اس کی پیٹھ پر ضرور برسے گا‘ بہایا جانے والا خون بولے گا اور اس کی آواز امریکیوں کو قوت سماعت سے محروم کر دے گی۔ وہ انسانوں کا جتناخون پی چکا ہے یہ اس کے درودیوار کو بھی رنگین کر ےگا اور اس کی قوت کا شیرازہ سوویت یونین کی طرح بکھر جائیگا۔ اس نے اپنے ٹینکوں ‘ توپوں ‘ میزائلوں اور بارود کی بارش کرنے والے طیاروں کے ذریعے جن دھرتیوں کی کوکھ بانجھ کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس بانجھ پن کا شکار وہ خودبھی ہوگا۔جنگ نہ کرنے کے عہد کے باوجود بارود کا دھواں وائٹ ہاﺅس کی پیشانی پر کالک ملنے کےلئے بڑھ رہا ہے‘ فضا میں موجود اس کے مرغولے ہرشے کو سیاہ کر دیں گے ۔
Qamar Ghaznavi
About the Author: Qamar Ghaznavi Read More Articles by Qamar Ghaznavi: 9 Articles with 6352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.