دو ہزار چودہ کے الیکشن کی نوید
سنائی دینے لگی ہے ۔سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں عوام لو لبھانے کے
لئے ہاتھ پاﺅں مارنے لگے ہیں ۔ اس کے لئے جہاں نئی نئی اسکیموں کا اعلان ہو
رہا ہے ،وہیں ریلی اور جلسہ و جلوس کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔اتوار
کونئی دہلی میں کانگریس اور پٹنہ میں جے ڈی یو نے ریلی منعقد کی ، وہیں
دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی جے پی نے یوم سیاہ بھی منایا ۔ بی
جے پی نے دارالحکومت دہلی میں 14 جگہ عوامی جلسہ کاانعقاد کیا۔ بی جے پی
لیڈروں کا کہنا تھا کہ کانگریس ایف ڈی آئی کی حمایت میں ریلی کرکے ملک کے
عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی لیڈروں نے کہا کہ عوام
سمجھدار ہو چکے ہیں۔ کانگریس، عوام کو گمراہ کرنے کی جتنی کوشش کر لے وہ
کانگریس کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔جبکہ دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقد
ہونے والی کانگریس کی ریلی کو عام انتخابات کی تیاریوں کابڑا آغاز
تصورکیاجارہاہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس نے عرصے بعد دہلی میں ریلی
کی اور بھیڑ کے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ۔ ملک بھر سے
کارکنوں، عہدیداروں کو دہلی بلایا اور مجموعی طور پر میڈیا اور ماہرین میں
یہی رائے بنی کہ رام لیلا میدان کا شو موثر تھا۔ کانگریس کی قیادت میں یو
پی اے حکومت 2004 سے مسلسل بنی ہوئی ہے۔ 2009 میں جب پھر سے یہ حکومت بنی
تو کہا گیا کہ منریگا اور آر ٹی آئی قانون نے اسے دوبارہ اقتدار دلانے میں
بڑا کردار ادا کیا۔مگر منموہن حکومت کادوسرا دور نہ تو اندرونی طور پر اور
نہ ہی ظاہری طور پر کانگریس کے موافق رہا۔ بدعنوانی کے بڑے معاملات کے قسط
وار سامنے آتے جانے سے اس کی شبیہ کو خاصا نقصان پہنچاتو وہیں حکومت کے کام
کاج کو بھی نشانہ بنایا گیااور حکومت کی پالیسی سازی پر مختلف
اندازمیںتنقیدشروع ہو گئی ۔ ملک میں شاید پہلی بار ہوا ہے کہ عام انتخابات
کی آہٹ دو ڈھائی سال پہلے سے ہی سنی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں ہریانہ کے لیڈر اجے چوٹالا نے ایک دلچسپ بیان میں کہا ریلیوں
سے طاقت مخالف مظاہرہ کرتے ہیں۔ کانگریس کی حکومت ہے تو وہ کسے طاقت دکھا
رہی ہیں؟ منموہن حکومت کو کیوں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کے پیچھے عوام کھڑے
ہیں۔ عوام ہے، تبھی تو وہ اقتدار میں ہے۔ ریلی سے بھلا حکومت کی کیاساکھ
بنے گی؟کانگریس کو ریلی سے کیا حاصل ہوا؟ کیا خردہ کاروبار میں غیر ملکی
سرمایہ کاری کی ضرورت کولوگوں نے محسوس کیا؟بلا شبہ ریلی کا مقصد یو پی اے
حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا تھا۔ اصلاحات کی حمایت میں سیاسی ماحول بنانا تھا۔
اس حیثیت سے کہہ سکتے ہیں کانگریس نے پوری طاقت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ اور
چدمبرم کا حوصلہ بڑھایا ہے ۔مخالف جماعتوں کو چھوڑ بھی دیں تو اس دوران
عوام نے بھی بار بار سڑکوں پر اتر کر حکومت کی پالیسی میںپائی جانے والی
ناکامیوں اور اس کی ترجیحات پر سوالات کھڑے کئے ہیں۔ اب جب کہ سول سوسائٹی
اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت اور پارٹیوں پر الزامات کا نیا سلسلہ
شروع ہوا ہے، تو کانگریس اور اس کی قیادت والی حکومت کے لئے یہ ضروری ہو
گیا تھا کہ وہ عوام کے سامنے اپنے موقف اور عزم کو مضبوطی سے رکھے۔ اتوار
کو نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس پارٹی کی ریلی کے پیچھے یہی
مقصد پوشیدہ تھا۔
ریلی کے تینوں اہم مقررین نے اپنی اپنی طرح سے حکومت اور پارٹی کی پالیسیوں،
کامیابیوں اور ترجیحات کو بیان کیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ان الزامات کا بھی
جواب دے رہے تھے، جو اس دوران ان پر لگے ہیں۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایک
بار اقتصادی اصلاحات جاری رکھنے کے قول و قرارکااعادہ کیا اور کہا کہ وہ ہر
طرح کے احتجاج اور رکاوٹ کے باوجود اس کے لیے مسائل کا حل تلاش رہے ہیں۔
حکومت کے کچھ فیصلوں کو عام لوگوں کے لئے سخت مانتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
ملک کو محفوظ مستقبل دینے کے لئے کئی بار ایسے ناخوشگوار فیصلے لینے پڑتے
ہیں۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے دیگر مقررین کے مقابلے میں اپنی بات
مزیدمضبوط طریقہ سے رکھی ۔ انہوں نے جہاں بدعنوانی کو ملک کے لئے ناسور
قرار دیا، وہیں یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت لوک پال بل سمیت وہ تمام اقدامات
ضرور کرے گی جس سے بدعنوانی کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ اپنی باتیں کہتے ہوئے
وہ یہ بتانا بھی نہیں بھو ل سکیں کہ ملک کے غریب اور محروم طبقوں کے اعتماد
کے بدولت ہی ان کی پارٹی ہمیشہ کامیاب ہوتی رہی ہے اور اب بھی ان کا دل
گاؤں سماج کے عام لوگوںپر لگا ہوا ہے اور کانگریس ان کے حق میں کسی بھی
دوسرے کی ٹیم کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کے ساتھ کھڑی ہے۔
مطلب کانگریس نے ریلی کے ذریعہ سیاسی پیغام دیا ہے۔ ریلی کا انعقاد راہل
گاندھی کی نئی ذمہ داری کی حیثیت سے بھی اہم ہیں۔ کچھ رہنماؤں کے مطابق
ریلی کو کامیاب بنانے کے پیچھے راہل گاندھی کی آمد کا مقصد بھی تھا۔ کیا
ریلی سے راہل گاندھی کا پروجیکشن بنا؟رام لیلا میدان میں منعقدہ کانگریس کی
ریلی تمام تنازعات، الزامات کی پس منظر میں ہوئی۔ اس حیثیت سے اپوزیشن
اورناقدین کوجواب دیا جانا فطری تھا۔اس سے کانگرےس کی دھند ختم ہونی چاہئے
تھی۔ پارٹی اور حکومت دونوں کو لے کرعام لوگوں میں جو رائے بنی ہے وہی ریلی
کی کامیابی یا ناکامی ہے۔ڈھنگ سے کانگریس پارٹی اور یوپی اے حکومت کو ریلی
کر کے نہیں پارلیمنٹ میں اپنی طاقت دکھانی ہے۔ پارلیمنٹ کے سرما سیشن میں
کانگریس اور حکومت دونوں کی طاقت کا امتحان ہونا ہے۔ سی پی ایم لیڈر پرکاش
کرات نے چیلنج کیا ہے کہ اگر حکومت میں دم ہے تو وہ خردہ کاروبار میں غیر
ملکی سرمایہ کاری کو منظوری دینے کی تجویز کو پارلیمنٹ میں ووٹنگ کےلئے
رکھے۔لیفٹ کے اس طرح خم ٹھونکنے کی واجب وجوہات ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ کے
سرمائی سیشن سے پہلے دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس نے ریلی کر کے
وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر خزانہ پی چدمبرم کے تئیں اپنی حمایت
دکھادی۔ سونیا اور راہل گاندھی نے منموہن چدمبرم کی اقتصادی پالیسیوں کو
غیر مشروط حمایت کی۔ساتھ ہی کیرل کو چھوڑ کر کانگریس کی حکمرانی والی تمام
ریاستوں سے بھی حمایت دینے کی بات کہی گئی ہے ۔اس سے پارلیمنٹ کے سرما ئی
سیشن کا ایجنڈا طے کیا گیا ہے۔کانگریس نے آرپار کی لڑائی کا موڈبنایا ہے۔
اس ریلی کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کانگریس اور اس کی حامی پارٹیاں ایک پلیٹ
فارم پر آئیں گی۔ ریلی میں جتنی بھیڑ نظر آئی اس سے کانگریس کی طاقت دیکھ
کر اتحادی پارٹیوں کے دل میں سے یہ بھرم نکل سکتا ہے کہ بدعنوانی اور
مہنگائی کے سبب کانگریس کمزور ہوئی ہے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس
ریلی نے بکھرے ہوئے حزب اختلاف کو بھی متحد ہونے کاموقع دے دیا ہے۔ تمام
اپوزیشن پارٹیوں میں حکومت کو کوگھیرنے کے لئے متحدہ کوشش کی شروعات ہوئی
ہے۔ پارلیمنٹ میں مشترکہ اپوزیشن کا مقابلہ کانگریس اور یو پی اے حکومت کے
لیے بھاری پڑ سکتا ہے۔ اب تک کانگریس حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان کے
اختلاف کا فائدہ لیتی رہی تھی۔اس ریلی کا ایک مقصد تو حکومت کی اقتصادی
پالیسیوں کو پارٹی کی حمایت دلانا تھا۔ لیکن دوسرا مقصد کانگریس جنرل
سکریٹری راہل گاندھی کو بڑے کردار میںپیش کرنا بھی تھا۔ تاہم اس کردار کا
اعلان سرکاری طور پر نہیں ہوا۔ لیکن فورم پر بیٹھنے کا انتظام اور تقریر
کرنے کے سلسلے سے یہ طے ہو گیا کہ پارٹی میں سونیا گاندھی کے بعد راہل ہی
ہیں۔ کانگریس کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ اس ریلی میں راہل
گاندھی کی پالیسیوں پر اپنی رائے کانگریس کارکنان سے شیئر کریں گے۔اس لحاظ
سے راہل اتنے موثر نہیں نظر آئے۔ اتنی بڑی ریلی کے لحاظ سے جیسی تیاری ہونی
چاہئے تھی ویسی تیاری راہل کی نہیں دکھائی دی۔ اب کانگریس کے کئی لیڈران کا
کہنا ہے کہ نو نومبر کے ڈائیلاگ سیشن میں راہل اپنی بات مزید قائد ے سے
رکھیں گے۔
بہرحال رام لیلا میدان کی ریلی میں مقررین نے جو تقریر کی اس سے حکمت عملی
اور نظریاتی دونوں سطحوں پر ان کی مشکوکیت ظاہر ہوئی۔ ایک طرف وہ معاشی
اصلاحات اور مہنگائی کا دفاع کر رہے تھے تو دوسری طرف اروندکیجریوال کی طرح
نظام پر حملہ بھی ۔ انہوں نے ساری بد انتظامی کا الزام موجودہ نظام کو دیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام انہی کی پارٹی چلا رہی ہے اور وہ جن لیڈروں کا
دفاع کر رہے تھے وہیں لوگ نظام کو چلا رہے ہیں۔کانگریسی لیڈروں کی تقریر سے
ایسا لگا کہ وہ پارٹی اور حکومت چلانے کی عملی مجبوریوں کے ساتھ بھی ہیں
اور این جی او کی ذہنیت والے اپنے کچھ مشیروں کے اثر میں بھی ہیں۔ اس لئے
کبھی وہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور مہنگائی کے سبب مچی افرا تفری کا دفاع کر
رہے تھے تو کبھی موجودہ نظام کو تمام مسائل کی جڑ قرار دے رہے تھے اور اس
کو تبدیل کرنے کی بات کر رہے تھے۔ کانگریس جنرل سیکریٹری راہل گاندھی کا
زور کانگریس کارکنان اور نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانے اور تنظیمی سطح پر پارٹی
کو مضبوط کرنے پر تھا۔ وہ اپنی اس سوچ کو نظام میں تبدیلی کی ضرورت سے بھی
جوڑ کر دیکھ رہے تھے۔ کانگریس کے ان تینوں لیڈروں کی باتیں سن کر ایک بات
تو ضرور یہ کہی جا سکتی ہے کہ ملک کی سب سے پرانی پارٹی نے اپوزیشن کے
حملوں اور تمام چیلنجوں سے گھرنے کے باوجود اپنا وہ حوصلہ ابھی نہیں کھویا
ہے جس کے بل پر اگلے ڈیڑھ سال اسے حکومت چلانی ہے اور پھر انتخابی میدان
میں اترنا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس حوصلے کے جوش کو ایک بارگی نہیں بلکہ ہمیشہ
ظاہرکرتے رہنا ہوگا بات تب ہی بنے گی۔لیکن بدقسمتی سے سیاست میں یہ دونوں
اسٹینڈ ایک ساتھ نہیں چلیں گے راہل کو ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا
ہوگا۔ |