ڈگر ی یا سند اُس قانونی ثبوت یا دستاویز
کا نا م ہوتا ہے جس سے کسی آدمی کے تعلیمی لیول (نہ کہ تعلیمی معیا ر کا )کا
پتا چلتا ہے کہ اُس نے کس ادارے میں کب اور کون سی کلاس یا جماعت تک تعلیم
حاصل کی ہے وغیرہ۔ڈگر ی سے کسی شخص کے تعلیمی معیا ر کا پوری طرح اندازہ
نہیں لگایا جاسکتا ،وہ اِس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ اُس آدمی نے وہ ڈگری ’’پیسے
‘‘دے کر کسی تعلیمی یا فنی ادارے سکول ،کالج ،یونیو رسٹی اور یاکسی
انسٹیٹیو ٹ سے خرید لی ہو ۔البتہ وہ آدمی ڈگری ہوتے ہوئے اِس پوزیشن پر ہو
تاہے کہ وہ کسی سروس (job)کے لیے اپلائی کرسکے ۔یہ ’’قانونی پوزیشن ‘‘کے
حوالے سے بات ہوئی ۔لیکن ڈگری یا سند کا جو اصل او ر بنیا دی مفہوم جو
ہمارے ذہن میں آرہا ہے ،وہ یہ ہے یا ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ جس آدمی کے
پاس کوئی ڈگری یا سند ہو اُس کے پا س اتنی ہی علمی قابلیت و اہلیت بھی ہونی
چاہییے ،جتنی کہ ڈگری یا سند پر ظاہر کی گئی ہے ۔اگر کسی آدمی کے اندراُتنی
علمی یا فنی قابلیت و صلاحیت نہیں ہے تو پھر اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس
آدمی نے امتحان یا ٹیسٹ کے اند ر ’’بے ایمانی‘‘یا دونمبری کی ہے ،کہنے کا
مطلب یہ ہے کہ اُس نے غیر قانونی و غیر اخلاقی ذرائع سے مدد لے کر امتحان
میں کا میابی حاصل کی ہے اورجس کو عرف عام میں ’’نقل کر نا ‘‘کہا جاتاہے ،جس
آدمی نے نقل کرکے کوئی امتحان یا ٹیسٹ پا س کرکے کوئی ڈگری حاصل کی ہو ۔ایسا
آدمی ’’بے ایمانی ‘‘تو کرتا ہی ہے بلکہ وہ پرلے درجے کی منافقت بھی کرتا ہے
،منافقت اِس لیے کہ وہ دھوکہ وفراڈ کے ذریعے وہ مقام حاصل کرتا ہے ،جس کا
وہ اہل یا قا بل نہیں ہوتا اور اس طرح وہ دیگر افراد کے ’’معیا ر ‘‘کے
برابراپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے ۔۔۔او رگویا اس طرح وہ دوسروں کے ’’معیا ر
‘‘پر ایک حوالے سے ’’ڈاکا ‘‘ڈالتا ہے ۔۔۔اورجب ایسا آدمی کسی اعلیٰ عہدے یا
پوسٹ پر جاتا ہے تو وہ صحیح طرح کام نہیں کرسکتا چونکہ اُس کے اند ر کام
کرنے کی قابلیت وصلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔۔۔اوراُس نے ڈگر ی کے پردے میں اپنے
’’روگ‘‘اور کمزوری کو چھپا یا ہوتا ہے ،اِس طرح پورانظام ایسے نااہلوں کے
سُپر د ہو کر کھوکھلا اور بودہ بن کر رہ جا تا ہے ۔۔۔ایسے لوگوں کو صرف
اپنے مفادات کے حصول کی فکر ہوتی ہے گویا ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ
نیست!‘‘کیونکہ ایسے لوگوں کی اٹھان ہی غلط اور ٹیڑھی فکر کی بنیا د پرہوئی
ہوتی ہے بقو ل اقبال ’’خشت اول چوں نہد معمار کج!‘‘پھر پوری زندگی وہ ’’دو
نمبری ‘‘او ر’’بے ایمانی ‘‘کو اپنا کمال اور ’’ہوشیا ری ‘‘سمجھتے ہوتے ہیں
۔جس طرح وہ امتحانی حال میں نقل کر تے ہوئے جب کامیاب ہو جاتے ہیں تو باہر
نکل کر جو ’’خوش گپیاں ‘‘اُن کے منہ سے ٹپکتی ہیں وہ ساری زندگی اسی طرح کی
چالاکیا ں کر کے عوام پر مسلط رہتے ہیں ۔
پاکستان کے نظام تعلیم کا بحثیت مجموعی یہ المیہ رہا ہے اور ہے اور وہ یہ
کہ وہ اعلیٰ سیر ت و کردار کے افراد تیا ر کرنے کی بجائے ’’ڈگری ہولڈرز
‘‘تیا ر کررہا ہے اور وہ بھی ایسے ’’ڈگری ہولڈرز‘‘کے جن کے پاس اُس ڈگر ی
کے بقد ر علم بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ایسا کیوں ہوتا ہے اور ہورہا ہے ،یہ ایک اہم
اور بنیادی سوال ہے جس کا جواب مہیا کرنا ضروری ہے ۔۔۔؟آج کے طالب علموں کی
بحثیت مجموعی یہ سوچ وفکر بن چکی ہے کہ کسی طرح امتحان پاس کرکے ڈگری مل
جائے ۔۔۔علم آئے یا نہ آئے ،یہ کوئی فکر نہیں ۔۔اسی طرح اساتذہ کی بھی
مجموعی سوچ وفکر یہ ہے کہ میر اشاگرد کسی طرح امتحان پاس کرلے ،اُس کی سیر
ت و کردار میں بہتر ی آتی ہے یا نہیں ، یہ کوئی فکر نہیں ،بس کسی طرح
امتحان پاس کرلو تاکہ ہمارابھی نام رہ جائے ۔۔۔گویا اس پورے نظام تعلیم کا
ہدف و منزل ہا تھ میں ڈگری تھمانا ٹھہرا۔۔۔صحیح فکر و سوچ اور فہم و شعور
پیداہویا نہ ہو ،افراد کی سیرت و کردار میں انقلابی تبدیلی آئے یا نہ آئے ،انسان
بنتا ہے یا بگڑتا ہے ،اس حوالے سے کوئی فکر نہیں۔۔۔الا ماشاء اللہ
معیا ر تعلیم ‘‘کے بجائے ’’مقدار تعلیم ‘‘کی فکر کا بھوت سب پر سوار ہے
۔’’ڈگری ‘‘چونکہ عصرحاضر کی ایک اہم او ربنیادی ضرورت بن گئی ہے یابنا دی
گئی ہے ۔اِس لیے ہر کوئی اِس فکر میں رہتا ہے کہ بس کسی طرح یہ ’’ڈگری ‘‘مل
جائے ۔چاہے اِس کے لیے کسی بھی طرح کا ’’دھوکہ و فراڈ ‘‘،دو نمبری اور ’’بے
ایمانی ‘‘کرناپڑے ۔۔۔اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ’’ڈگریا ں ‘‘پیسوں کے
عوض خریدی او ر بیچی جارہی ہیں ۔۔۔لیکن جہا ں جعلی ڈگری خریدنے والے مجر م
اور ظالم ہیں وہا ں جعلی ڈگریاں بیچنے والے کہیں بڑے مجرم اور ظالم ہیں ۔۔۔اِس
لیے کہ انہوں نے یہ ’’دکانیں ‘‘کھولی ہوئی ہیں۔اگر اس غیر قانونی او رغیر
اخلاقی ظالمانہ کاروبا ر کا آغاز ہی نہ ہو تا تو یہ ’’جعلی ڈگر یا ں
‘‘رکھنے والے ’’جعلی لیڈ ر‘‘ملک ومعاشرے پرمختلف انداز میں مسلط نہ ہو تے ۔ہم
تو پہلے ہی اپنے ’’نظام تعلیم ‘‘کی ابتر صورت حال او راس کے افسوسنا ک حد
تک مایوسانہ کردا رپر نالاں تھے کہ وہ افراد کی صحیح فکر و سوچ اورفہم و
شعور کے حوالے سے تربیت و کردا رسازی کرنے کی بجائے کسی طرح امتحان پاس
کراکر ڈگر ی تھما رہا ہے ۔جس کی وجہ سے ایسے لوگ ان تعلیمی اداروں سے نکل
رہے ہیں جن کے پاس نہ ہی ڈگری کے برابر علم ہوتا ہے اورنہ ہی علم کے مطابق
اُن کی سیر ت و کردار او رچال چلن میں کوئی تبدیلی آئی ہوئی ہوتی ہے ۔ایسے
لوگ اعلیٰ تعلیمی ڈگری رکھنے کے باوجود معاشرے کے اندر وہی کچھ کر نے لگتے
ہیں جو ’’اَن پڑھ‘‘اور ’’بے پڑھے ‘‘اور ’’جاہل ‘‘قسم کے لوگ پہلے سے ہی کر
رہے ہوتے ہیں ۔تو پھر اِن تعلیم حاصل کرنے والوں اور نہ حاصل کر نے والوں
میں کیافرق ہو ا۔۔۔؟فاعتبر و یا و لی الابصار !
پاکستان میں آج کل ’’جعلی ڈگریوں ‘‘کا ایشو بہت زیا دہ گر م ہے ۔۔۔یہ اصل
میں اِسی غلط او ر کھوکھلے نظام تعلیم کے طرز فکر اور طریقہ کا ر کے
’’اثرات بد‘‘ہیں جو ظاہر ہو رہے ہیں ۔ چونکہ نظام تعلیم نے افراد قوم میں
علم وعمل او رتعلیم و تربیت کے درمیان ’’ہم آہنگی ‘‘بالکل نہیں
پیداکی۔زندگی کی حقیقت اور اُس کے مشن ونصب العین کے حوالے سے کوئی متحرک
قسم کی سوچ و فکر نہ دی ۔۔۔افراد معاشرہ نے ’’ڈگر ی ‘‘کے حصول ہی کو سب کچھ
سمجھ لیا ۔۔۔حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ ’’علم ‘‘ڈگریوں کا محتاج نہیں ہوتا
بلکہ ’’ڈگریا ں ‘‘علم کی محتاج ہوتی ہیں ۔لیکن ہمارے ملک میں ’’نظام تعلیم
‘‘کا یہ ناقص او ر کھوکھلا طریقہ کا ر ’’علم ‘‘کو ڈگریوں کے نام پر ’’پیک
‘‘اور ’’فروخت ‘‘کرکےاُس کی توہین کی جا رہی ہے ۔۔۔اور اب افراد قوم کو اگر
’’مال و دولت ‘‘کے عوض ڈگریاں جاری کی جارہی ہوں تو پھر ایسے معاشر ے او
رملک کا ’’ستیاناس‘‘ہوکررہ جائے گا جیسا کہ آہستہ آہستہ ہورہا ہے ۔اور پھر
لو گ پڑھنے لکھنے کے حوالے سے اتنی محنت و مشقت اور مغزماری کرنے کی بجائے
’’مال و دولت ‘‘کے حصول کے لیے ہی اپنی ساری صلاحیتیں وقف کردیں گے اور جب
اُنہیں کسی وقت ’’ڈگری ‘‘کی ضرورت پڑے گی تو وہ خرید لیں گے ۔۔۔اعاذنااللہ
من ذالک!
اِس لیے کرنے کا اصل ،بنیادی او رضروری کام یہ ہے کہ ’’نظام تعلیم ‘‘کو
صحیح خطوط پر استوار کیا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر افراد معاشرہ
کی اصلاح و تربیت ممکن نہیں ۔۔۔دوسری بات یہ کہ جہا ں جعلی ڈگریا ں رکھنے
والے یا لینے والے مجر م ہیں ،بالکل اِسی طرح ڈگریاں جاری اور فروخت کرنے
والے بھی برابر کے مجر م ہیں ۔ان دونوں قسم کی مافیا ز کے خلاف جب تک قانون
کو صحیح طریقے سے حرکت میں نہیں لایا جاتا ،او ران کو سخت اور عبرتنا ک سزا
نہیں دی جا تی اُس وقت تک اِس کا لے دھندے کا رُکنا مشکل ہی نہیں ناممکن
لگتاہے ۔یہ بات پوری قوم کے مفاد میں ہے کہ اس حوالے سے جتنا جلد ممکن ہو
اقداما ت اُٹھا ئے جائیں ۔۔۔ میڈیا نے جہاں جعلی ڈگریاں رکھنے والوں کوبے
نقاب اور ننگا کیا ہے وہاں میڈیا کو ایسے چُھپے مجر موں کو بھی پردۂ غیب سے
باہر لانا ہوگا جنہوں نے مال و دولت کے عوض ڈگریا ں فروخت کر نے کا بے
ایمانہ دھندہ شروع کیا ہواہے ۔اسی طرح ملک میں ’’جعلی لیڈروں ‘‘کے حوالے سے
بھی عوام کو شعور دلایا جا ئے تاکہ وہ اصلی اور جعلی لیڈروں کو پہچان سکیں
،نہ کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم خان رہیسانی کے بقول کے ڈگری تو ڈگری
ہوتی ہے ،اصلی ہو ۔۔۔۔۔۔۔یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نقلی- |