کراچی میں سخت سیکورٹی کے دعووں
کے باوجود حکومت ٹارگٹ کلنگ روکنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ روزانہ درجن سے زاید
افرادکو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ شہریوں کے لیے امن ایک خواب بن کر
رہ گیا ہے۔ صورت حال اتنی خوف ناک ہوگئی ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران100
کے لگ بھگ افراد کو موت کی نیند سلایا جاچکا ہے۔ مگر اعلیٰ حکومتی ذمہ دار
ٹس سے مس نہیں ہورہے۔
شہر قائد کی دن بدن بگڑتی صورت حال کے باعث معیشت کا بھٹا بیٹھ گیا ہے۔
سرمایہ تیزی سے نکل رہا ہے، کاروباری سرگرمیاں دم توڑ رہی ہیں۔ سیکورٹی
ادارے بھی بدامنی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ ان کے لیے اپنا تحفظ بھی ایک بڑا
مسئلہ بن گیا ہے۔ نارتھ ناظم آباد میں واقع رینجرز ہیڈکوارٹر پر خود کش
حملے نے شہریوں کے خوف و ہراس میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ان حالات میں محرم کی آمد سے کراچی کے باسی انجانے خوف کا شکار ہیں۔ اگرچہ
سندھ حکومت نے کراچی اور خیر پور میں امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر
موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگادی ہے، حیدر آباد میں پہلے ہی یہ
پابندی لگائی جاچکی ہے۔ لیکن اس طرح کے اقدامات سے شہریوں کی مشکلات کم
ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہیں اور یہ مسئلے کا حل تو نہیں ہے۔ علاوہ ازیں
محرم میں سیکورٹی کے نام پر عوام کو تنگ کیا جاتا ہے اوران کا جینا حرام
کردیا جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے گلشن اقبال میں واقع جامعہ احسن العلوم کے طلبہ پر ہوٹل میں
فائرنگ کی گئی، جس میں 6 طلبہ جاںبحق اور متعدد زخمی ہوئے،لیکن اس کارروائی
کوبھی معمول کا واقعہ سمجھ کر فراموش کردیا گیا، قبل ازیں گلستان جوہر میں
واقع جامعہ اشرف المدارس کی تلاشی کے نام پر دھاوا بولا گیا،4 گھنٹے تک
تلاشی کے نام پروہاں خوف وہراس پیدا کیا گیا۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹوں
کے مطابق چھاپا مارنے والے اہلکاروں کی تعداد 70 سے زاید تھی جودرجن سے
زاید موبائلوں، موٹر سائیکلوں اور نجی گاڑیوں پر آئے تھے۔ انہوں نے گیٹ نہ
کھولنے پرسیکورٹی گارڈ زکو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر فائرنگ بھی کی۔
جس کے باعث ملک بھر کے دینی مدارس میں اشتعال پھیل گیا۔ اس اقدام پر ہماری
حکومت اور سیاسی جماعتوں نے کھل کر مذمت تک نہ کی۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ
منصوبے کے تحت دینی طبقے کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ مدارس کے خلاف
محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے۔ کبھی ان کی فہرستیں تیار کرواکر انہیں خوف زدہ
کیا جارہا ہے تو کبھی چھاپا مار کارروائیوں سے انہیں دباﺅ میں لانے کی کوشش
کی جاتی ہے۔
آپ غور کریں! ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پاسبان عزا اور شیعہ ایکشن کمیٹی کی کال
پر جمعہ کے روز نمائش چورنگی پر احتجاج کیا گیا۔ پولیس اور رینجرز نے انہیں
آگے بڑھنے سے روکا تو ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی، 6 گھنٹے تک مشتعل افراد نے
اطراف کی سڑکیں بلاک کیے رکھیں جس کے باعث پورے شہر کی ٹریفک کا نظام درہم
برہم ہوگیا کیوں کہ یہ شہر کی مرکزی سڑک ہے۔ مظاہرین نے گاڑیوں اور پولیس
اہلکاروں پر پتھراﺅ بھی کیا جس کے بعد پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے
شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔ اس دوران مشتعل افراد نے ٹائر نذر آتش کیے جب
کہ گرومندر کے قریب ایک مسافر بس (جے ای 1876) اور نمائش چورنگی پر ایک کار
کو آگ لگادی جس کے نتیجے میں دونوں گاڑیاں مکمل طور پر جل گئیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاڑیوں کو نذر آتش کرنا، سیکورٹی اداروں
پر پتھراﺅ کرنا، یہ احتجاج ریکارڈ کروانے کا کون سا طریقہ ہے؟ دوسری بات یہ
ہے کہ ماضی قریب میں اسی شاہراہ پر یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر
مسلمانوں کا پر امن احتجاج سبوتاژ کرنے کے لیے شر پسندوں نے جلاﺅ گھیراﺅ
کیا تو اس کا خمیازہ پر امن مظاہرین کو بھگتنا پڑا اور سیکورٹی اداروں کی
فائرنگ سے متعدد مظاہرین جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس دوران الیکٹرانک میڈیا نے
جانی نقصان پر اظہارِ افسوس کی بجائے یہ واویلا مچایا کہ حضور علیہ السلام
سے اظہار محبت کے نام پر جلاﺅ گھیراﺅ اور املاک نذر آتش کرنا کہاں کا
احتجاج ہے؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ نمائش پر جب گاڑیاں جلائی جارہی تھیں تو
میڈیا نے یہی سوال اب کیوں نہیں اٹھایا؟ کیا یہ پہلو میڈیا کی دوغلی
پالیسیوں پر دلالت نہیں کرتا؟
سوات میں ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا تو شمالی وزیرستان میں آپریشن کی
باتیں شروع ہوگئیں، کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اب فائنل راشنڈ کھیلا
جانا ناگزیر ہے۔ میڈیا بھی اس نعرے کا ہمنوا بن گیا اور اس کے لیے باقاعدہ
کمپئین چلائی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کراچی میں روزانہ درجن بھرلاشیں گرائی
جاتی ہیں۔ روزانہ آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، اس پر کبھی
میڈیا نے آواز اٹھائی کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے یہاں بلا
تخصیص آپریشن کیا جائے؟
حالاں کہ 2012ءکے گیلپ سروے کے مطابق بیشتر پاکستانی کراچی میں قتل عام کا
ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو سمجھتے ہیں۔ سروے کے مطابق 46 فی صد افراد نے
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو قرار دیا۔ 14 فی صد اس
قتل و غارت کا ذمہ دار امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو، 8 فی صد بھارتی
انٹیلی جنس ایجنسیوںکو سمجھتے ہیں جب کہ 13 فی صد کے خیال میں ٹارگٹ کلنگ
میں لینڈ مافیا ملوث ہے۔
کراچی میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت دینی قوتوں کا استحصال بند
کردے، مدارس کے خلاف امتیازی کارروائیاں روک دے، کیوں کہ آپ کو ٹارگٹ کلر
مدارس سے نہیں ملیں گے۔ کراچی میں دہشت گردی روکنے کے لیے بے لاگ احتساب کی
ضرورت ہے۔ صرف رسمی مذمتی بیانات اور بلندبانگ دعووں سے ٹارگٹ کلنگ نہیں
رکتی۔ دہشت گردوں کا قلع قمع نہ کیا گیا تو یہاں قیامِ امن کا خواب، خواب
ہی رہے گا۔ |