قارئین گرامی! آج کی قِسط میں
شریفوں اورآزاد ججوں کی، رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والی، "صداقت و امانت" پر
مشتمل عظیم واردات سے پردہ اُٹھایا جائے گا۔ یہ واردات "صادق و امین فرشتوں"
کے مُنہ پرپہلے سے لگی ہوئی سات توؤں کی کالک کے اوپر ایک اور مکمل سیاہ
تہہ ہے۔
یاد رہے کہ نواز شریف کے دوسرے دورِحکومت میں "دوچُلو میں اُلو" ہو جانے
والے احتسابی لونڈے سیف الرحمٰن نے جعلی دستاویزات کی مدد سے 1997ء میں
احتساب بیورو کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری پر سوئس کیسز
سے متعلق "تاریخی" ریفرنس دائر کرایا تھا۔ جس کے ذریعے اُنھیں15 اپریل
1999ء کو "انصاف کے مینار" ججوں سے مِلی بھگت کر کے سزا دِلوائی گئی۔ ججوں
اور شریفوں کے کچے چٹھے یعنی ان کی ریکارڈِڈ ٹیلیفونِک بات چیت کے طشتِ
ازبام ہونے پر آزاد عدلیہ کو6 اپریل2001ء کو مجبوراً یہ سزا کالعدم قرار
دینی پڑی ۔ بعد میں یہ کیس چلتا رہا مگر ریفرنس کے لیےجمع کرائی گئی سار ی
جعلی دستاویزات کی وجہ سے راولپنڈی کی احتساب عدالت2 نے 30 جولائی 2011ء کو
کیس خارج کر دیا۔ سوئس حکام تو پہلے ہی اپنی انکوائری کا دارومدار پاکستان
میں احتساب عدالتوں میں زیر التوا ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسزکے فیصلے سے
مشروط کر رکھا تھا۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزاد عدلیہ 30 جولائی 2011ء کے بعد بھی
آج کے دن تک اس کیس کے ساتھ جُوتیوں سمیت عوام کی آنکھوں میں گُھسی بیٹھی
ہے۔
قارئین! سوئس کیسز کے متعلق مندرجہ ذیل سپریم کورٹ سے ثابت شدہ ٹیلیفونک
بات چیت پڑھ کر آپ کو "شریف کورٹس" کی اصطلاح بھی پوری طرح سمجھ میں آجائے
گی۔ اور یہ بھی حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ "صادق و امین فرشتوں " نے کس
طرح محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ اور "کرپٹ" آصف علی زرداری کوسوئس کیسز میں
پاکستان کے اندر عدالتوں کے ساتھ مل کر سزا دِلوائی تھی۔ مجھے امید ہے کہ
آڈیوٹیپس میں ریکارڈ شدہ گفتگو پڑھنے کے بعد آزاد عدلیہ کے”عظیم کردار" پر
بھی آپ یقیناًعش عش کر اُٹھیں گے۔
1۔ سیف الرحمٰن اور جسٹس (ر) ملک محمد قیوم ملک کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت
جسٹس ملک محمد قیوم: آپ کا کام ایک یا دو دن میں کیا جائے گا۔ میں نے آپ کے
لیے ایک مشیر (پیرزادہ) سے بھی درخواست کی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں
بہت بیمار ہوں اور میں نے بیرون ملک جانا ہے اس لئے جتنا جلدی ہوسکے میرے
لیے یہ معاملہ ختم کر دیں۔ پیرزادہ نے مجھے بتایا کہ وہ یہ کام کر دے گا۔
اور وہ اپنی تمام غلطیوں کا ازالہ کرے گا، اس نے مزید کہا کہ اس کے بعد
میاں صاحب (نواز شریف) خوش ہو جا ئیں گے۔
سیف الرحمٰن: بہتر ہوگا کہ آپ یہ کام (سوئس مقدمات کے فیصلے کے بارے میں)
آج ہی کر دیں۔
جسٹس ملک محمد قیوم: کام ایک یا دو دن میں ہو جائے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں
پڑتا کہ اگر ایک دن مزید لگ جاتا ہے۔ یہ بہتر ہو گا کہ اِسے اچھے طریقے سے
پورا کیا جائے۔ یہ سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا ہے۔
سیف الرحمٰن: وہ محض شور یا پھر بائیکاٹ کریں گے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: ہم انہیں سپریم کورٹ کا بائیکاٹ کبھی نہیں کرنے دیں
گے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر آپ کے لئے بہت فائدہ ہوگا۔ آپ سمجھ گئے ہیں
نا؟
سیف الرحمٰن: براہ مہربانی آپ جلدی کریں، کیونکہ پہلے ہی بہت زیادہ مسائل
پیدا ہو گئے ہیں۔
جسٹس ملک محمد قیوم: ایک یا دو دن لگیں گے۔آپ تو ہمارے وکیل ہیں۔
سیف الرحمٰن: خدا کی قسم! آپ نہیں جانتے۔ اللہ جانتا ہے کہ میں تمھارے لیے
کتنا لڑا ہوں۔
جسٹس ملک محمد قیوم: خدا کے فضل و کرم سے کام ہو جائے گا۔ میں اور آپ دونوں
جائیں گے اور مل کر ان (نواز شریف) سے معافی مانگ لیں گے۔
سیف الرحمٰن: ہم مل کر وہاں جائیں گے، لیکن کل یہ کام 100 فیصد ہو جانا
چاہیے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: ٹھیک ہے، ہم ایک ساتھ جائیں گے۔ مجھے 99 فیصد امید ہے
کہ وہ یہ کام کل تک کر دے گا۔
سیف الرحمٰن: بہتر ہوگا کہ آپ اسے ختم کریں۔
جسٹس ملک محمد قیوم: نہیں صاحب، اسے ختم کرنے کے لئے نہیں۔ اس شخص سے جنگ
کا سامنا ہے۔ ٹھیک ہے، آپ مجھے بتائیں کہ اسے کتنی سزا دی جانی چاہئے؟
سیف الرحمٰن: انہوں نے کہا ہے کہ سزا سات سال سے کم نہیں ہو چاہیے؟
جسٹس ملک محمد قیوم: نہیں، سات سال نہیں۔ پانچ سال ہونی چاہیے۔ بہتر ہوگا
کہ آپ ان سے پوچھیں، سات سال زیادہ سے زیادہ سزا ہے۔
سیف الرحمٰن: میں ان سے مشورہ کرنے کے بعد آپ کو مطلع کردوں گا۔
جسٹس ملک محمد قیوم: میں نے سزامیں جرمانہ شامل کر دیا ہے۔ جائیداد کی ضبطی
کے ساتھ ساتھ اس کی نااہلی کی سزا کا بھی فیصلہ ہو گا۔
سیف الرحمٰن: نہ صرف جائیداد، بلکہ ساری جائیداد، اس کے علاوہ دو سال جب سے
وہ (آصف علی زرداری)گرفتار ہے۔ ان دو سالوں کو قید کی سزا سے منہا نہیں کیا
جانا چاہئے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: یہ پانچ سال نہیں ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ ضمانت پر ہے
اور یہ کبھی بھی دو سال شمار نہیں ہو سکتے۔ وہ سلاخوں کے پیچھے ہی رہے گا۔
سیف الرحمٰن: آپ نے کل تک فیصلہ کرنا ہے۔2
2۔ چوہدری پرویزالٰہی اور جسٹس ملک محمد قیوم کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت
جسٹس ملک محمد قیوم: یار! اس (سیف الرحمٰن) نے مجھے ٹیلی فون کیا ہے اور
بتایا ہے کہ نواز شریف مجھ سے بہت ناراض ہے کیونکہ میں نے ابھی تک فیصلے کا
اعلان نہیں کیا۔ میں نے سوچا تھا کہ بہتر ہے کہ میں آپ کو بھی بتا دوں۔
پرویز الہی: (تفصیلی بات چیت کرنے سے ہچکچاھٹ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے، کچھ اور
بات چیت کرتےہیں۔
جسٹس ملک محمد قیوم: یار! نواز شریف خوامخواہ ناراض ہو جاتے ہیں۔
پرویز الہی: (دوبارہ ہچکچاھٹ۔۔۔۔) اسے چھوڑیں۔ آپ مجھے بتائیں، آپ کیسے
ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔لائن: منقطع
3۔ جسٹس ملک محمد قیوم کو سیف الرحمٰن کی دوسری ٹیلیفوں کال
سیف الرحمٰن: میں نے ان (نواز شریف) سے دوبارہ بات کی ہے۔ انہوں نے شکایت
کی ہے کہ آپ وعدہ پورا نہیں کرتے۔ اور 99 فیصد نہیں ، بلکہ آپ 101 فیصد
تصدیق کریں کہ آپ کل فیصلے کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، سزا کے
بارے میں انہوں نے کہا کہ سب کچھ میرے سامنے ہے کہ کس قدر اس (آصف علی
زرداری) نے غبن کا ارتکاب کیا ہے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: ٹھیک ہے، ویسا ہی ہو گا جیسا وہ چاہتے ہیں۔
سیف الرحمٰن: انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ اسے (آصف علی زرداری) "فل ڈَوز"
نہیں دینا چاہتے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: نہیں، عام طور پر زیادہ سے زیادہ (maximum) سزا نہیں
دی جاتی ہے۔
سیف الرحمٰن: سوئٹزر لینڈ اور لندن میں جائیداد اور بینک اکاؤنٹس کو کس طرح
وصول کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم انھیں "فریز" کر سکتے ہیں؟
جسٹس ملک محمد قیوم: فیصلے کے بعد آپ کو جائیداد کے لئے آرڈرز کے مطابق ایک
درخواست دائر کرنی پڑے گی۔ خیر کل فیصلے میں جائیداد اور اکاؤنٹس کے بارے
میں ذکر کیا جائے گا۔ اور یہ ہر چیز کا احاطہ کرے گا۔
4۔ فیصلے کے بعد سیف الرحمٰن کی جسٹس ملک محمد قیوم کو تیسری ٹیلیفون کال
سیف الرحمٰن: تمہارے فیصلے نے مجھے بہت خوش کر دیا۔ اس فیصلے نے خدا کے فضل
سے پوری قوم کو کامیاب بنا دیا ہے۔ میں نے مجید ملک اور اسحاق ڈار کے ساتھ
وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں ایک اجلاس میں شرکت کی ہے، جس میں یہ
فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی تاخیر کے بغیر فیصلے کو نافذ اور تمام جائیداد
ضبط کرنے کا فیصلہ کیا جا ئے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔
5۔ شہباز شریف کی جسٹس ملک محمد قیوم کو ٹیلیفون کال:
ہیلو! جسٹس صاحب گھر پر ہیں؟
کون بات کرے گا؟
چیف منسٹر پنجاب (شہباز شریف)
جسٹس ملک محمد قیوم: جی میاں صاحب اسلام وعلیکم، کیا حال ہے، ٹھیک ٹھاک
ہیں؟
شہباز شریف: بڑی مہربانی۔
جسٹس ملک محمد قیوم: آپ سنائیں۔
شہباز شریف: آپ کے راج میں بس آپ کی دعا چا ہیے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: آپ بھائی ہیں۔ آپ کی بڑی مہربانی سر۔
شہباز شریف: میں نے آپ کو ایک کام کہا تھا۔
جسٹس ملک محمد قیوم: سر جی وہ تو میں نے نمٹا دیا تھا۔
شہباز شریف: بڑی مہربانی، دوسرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بھائی (نواز شریف) نے کہا ہے
کہ مہربانی کر کے سرور چوہدری کے کیس کا دھیان کرنا۔
جسٹس ملک محمد قیوم: کون چوہدری سرور؟
شہباز شریف: ایم این اے (رکن قومی اسمبلی)۔
جسٹس ملک محمد قیوم: اسے کیا ہوا؟
شہباز شریف: آپ کے پاس اس کی نااہلی کا ایک کیس ہے۔
جسٹس ملک محمد قیوم: جی، چوہدری سرور کا خیال رکھنا ہے؟
شہباز شریف: جی ہاں۔
جسٹس ملک محمد قیوم: چلو جی کوئی بات نہیں، کر دیا جی۔ میاں صاحب نے کہہ
دیا تو کر دیا۔
شہباز شریف: بہت بہت شکریہ۔
عوام کو ضرورسوچنا پڑے گا کہ کیا آج بھی "کرپٹ" زرداری کے خلاف آزاد عدلیہ
اور شریفوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطےہیں۔۔۔۔؟؟؟ پٹیشنز اور فیصلوں کی
کارستانیاں تو چیخ چیخ کرانھی رابطوں کی طرف اِشارہ کر رہی ہیں۔
اگر کوئی صاحب علم شخصیت یا تجربہ کار قانون دان عدالتِ عظمٰی کی تصدیق
شدہ"توہین عدالت" کی اس سے بڑی مثال پیش کر سکے تو راقم الحروف تا عمر اُس
کا مشکور رہے گا۔
(جاری ہے) |