محترم قارئین !اسلامی سال کا
پہلا مہینہ محرم الحرام جذبہئ ایثار و قربانی اور بڑی فضیلتوں کا حامل ہے
جس میں عظیم شہیدوں کی یاد منائی جاتی ہے اور انکی قربانی اور ایثار سے
قلوبِ امت ِمسلمہ منورہوتے ہے۔ آئیے!کربلا کے حُسینی دُولھا کی درد ناک
داستان پڑھتے ہیں۔ خلیفہئ اعلٰی حضرت ، صدرالافاضِل مولانا سیّد محمد نعیم
الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اپنی مشہور کتاب '' سوانِحِ کربلا''
میں نقل کرتے ہیں،
حُسینی دُولھا
حضرتِ سیِّدنا وَہب ابنِ عبداللہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنی کلب
کے نیک خُو اور خوبرو جوان تھے ، عُنفُوانِ شباب، اُمنگوں کا وَقت اور
بہاروں کے دن تھے ۔ صِرف سترہ روز شادی کو ہوئے تھے اور ابھی بِساطِ عِشرت
ونَشاط گرم ہی تھی کہ والدِ ہئ ماجِدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لائیں۔
جو ایک بیوہ خاتون تھیں اور جن کی ساری کمائی اور گھر کا چَراغ یہی ایک
جوان بیٹا تھا۔ مادرِ مُشْفِقَہ نے رونا شروع کر دیا۔ بیٹا حیرت میں آ کر
ماں سے پوچھتا ہے، پیاری ماں! رنج و ملال کا سبب کیا ہے؟ مجھے یاد نہیں
پڑتا کہ میں نے اپنی عمر میں کبھی آپ کی نافرمانی کی ہو۔ نہ آئندہ ایسی
جرأت کر سکتا ہوں۔ آپ کی اطاعت و فرماں برداری مجھ پر فرض ہے اور میں اِن
شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ تابہ زندگی مُطیع و فرمانبردار ہی رہوںگا ماں! آپ کے
دل کو کیا صدَمہ پہنچا اور آپ کو کس غم نے رُلایا؟ میری پیاری ماں! میں آپ
کے حکم پر جان بھی فِدا کرنے کو تیاّر ہوں آپ غمگین نہ ہوں۔
سعادت مند اکلوتے بیٹے کی یہ سعادت مندانہ گفتگو سُن کر ماں اوربھی چیخ ما
ر کر رونے لگی اور کہنے لگی، اے فرزندِدِلبند ! تُو میری آنکھ کا نور، میرے
دل کا سُرور ہے اے میرے گھر کے روشن چَراغ اور میرے باغ کے مَہکتے پھول !
میں نے اپنی جان گھلا گھلا کر تیری جوانی کی بہار پائی ہے۔ تُو ہی میرے دل
کا قرار اور میری جان کا چَین ہے۔ ایک پَل تیری جدائی اور ایک لمحہ تیرا
فِراق مجھ سے برادشت نہیں ہو سکتا۔
چُون دَر خَواب باشَم تُوئی دَر خَیالَم
یعنی جب سوؤں تو میرے خوابوں اور خیالوں میں بھی تو
چُون بَیدار گردَم تُوئی دَر ضَمِیرَم
اور جب جاگوں تو میرے دل کی یادوں میں بھی تو
اے جان مادر! میں نے تجھے اپنا خونِ جگر پلایا ہے۔ آج اِس وقت دشتِ کربلا
میں نواسہئ محبوبِ رَب ذُوالجلال ، مولیٰ مشکل کشا کا لال، خاتونِ جنّت کا
نونہال، شہزداہئ خوش خِصا ل ظلم وستَم سے نِڈھال ہے۔ میرے لال! کیا تجھ سے
ہو سکتا ہے کہ تُو اپنی جان اس کے قدموں پر قربان کر ڈالے ! اس بے غیرت
زندگی پر ہزار تُف ہے کہ ہم زندہ رہیں اور سلطانِ مدینہئ منَّورہ ، شہنشاہِ
مکہئ مکرمہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا لاڈلا شہزادہ ظلم و جَفاکے
ساتھ شہید کر دیا جائے۔اگر تجھے میری مَحَبتّیں کچھ یاد ہوں اور تیری پرورش
میں جومشقتیں میں نے اٹھائی ہیں ان کو تُو بھولا نہ ہو تو اے میرے چمن کے
مہکتے پھول ! تُوپیارے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر صَدقے ہو جا۔
حُسینی دولھا سیِّدُنا وَہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی ، اے مادرِ
مہربان ، خوبیئ نصیب ، یہ جان شہزادہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قربان ہو
میں دل و جان سے آمادہ ہوں، ایک لمحہ کی اجازت چاہتا ہوں تا کہ اُس بی بی
سے دو باتیں کر لوں جس نے اپنی زندگی کے عیش و راحت کا سہرا میرے سر پر
باندھا ہے اور جس کے ارمان میرے سوا کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔
اس کی حسرتوں کے تڑپنے کا خیال ہے، اگر وہ چاہے تو میں اس کو اجازت دے دوں
کہ وہ اپنی زندگی کوجس طرح چاہے گزارے۔ ماں نے کہا ، بیٹا ! عورتیں ناقِصُ
الْعقل ہوتی ہیں، مَبادا تو اُس کی باتوں میں آجائے اور یہ سعادت سَرمَدی
تیرے ہاتھوں سے جاتی رہے۔
حُسینی دولھا سیِّدُنا وَہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی، پیاری ماں !
اما مِ حُسین علیٰ جَدِّہٖ وَ علیہ الصلوۃ والسلام کی مَحَبَّت کی گرِہ دل
میں ایسی مضبوط لگی ہے کہ اِن شاءَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ اِس کو کوئی کھول نہیں
سکتا اور ان کی جاں نثاری کا نقش دل پر اس طرح کندہ ہوا ہے جو دنیا کے کسی
بھی پانی سے نہیں دھویا جا سکتا۔ یہ کہہ کر بی بی کر طرف آئے اور اسے خبردی
کہ فرزندِ رسول،ابنِ فاطمِہ بَتُول، گلشنِ مولیٰ علی کے مہکتے پھول میدانِ
کربلا میں رَنجیدہ و مَلُول ہیں۔ غدّاروں نے ان پر نَرغہ کیا ہے۔ میری
تمنّا ہے کہ ان پر جان قربان کروں ۔ یہ سن کر نئی دُلہن نے ایک آہِ سرددلِ
پُر درد سے کھینچی اور کہنے لگی، اے میرے سرکے تاج ! افسوس کہ میں اس جنگ
میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ شریعتِ اِسلامیہ نے عورتوں کو لڑنے کے لئے
میدان میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ افسوس ! اِس سعادَت میںمیرا حصّہ نہیں کہ
ا ۤپ کے ساتھ میں بھی دشمنوں سے لڑ کر امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ
پر اپنی جان قربان کروں۔ سبحٰنَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آپ نے تو جنّتی
چَمَنِستان کا ارادہ کر لیا وہاں حُوریں آپ کی خدمت کی آرزُومند ہو ں گی۔
بس ایک کرم فرما دیں کہ جب سردار انِ اہلبیت علیہم الرضوان کے ساتھ جنّت
میں آپ کیلئے نعمتیں حاضِر کی جائیں گی اور جنّتی حُوریں آپ کی خدمت کیلئے
حاضِر ہوں گی۔ اُس وَقت آپ مجھے بھی ہمراہ رکھیں گے۔ حُسینی دُولھا اپنی
اُس نیک دُلہن اور برگُزِیدہ ماں کو لے کر فرزندِ رسول صلی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضِر ہوا۔ دُلہن نے
عرض کیا، یا اِبْنَ رسولِ اللہ! شُہَداء گھوڑے سے زمین پر گرتے ہی حُوروں
کی گود میں پہنچتے ہیں اورغِلمانِ جنّت کمالِ اطاعت شِعاری کے ساتھ ان کی
خدمت کرتے ہیں۔'' یہ'' حُضُورپر جاں نثاری کی تمنّا رکھتے ہیں۔ اور میں
نہایت ہی بے کس ہوں ، کوئی ایسے رِشتہ دار بھی نہیں جو میری خبر گیری کر
سکیں ۔ التِجا یہ ہے کہ عرصہ گاہ محشر میں میری '' ان'' سے جُدائی نہ ہو۔
اور دنیا میں مجھ غریب کو آپ کے اہلبیت اپنی کنیزوں میں رکھیں ۔ اور میری
تمام عمر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاک بیبیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی
خدمت میں گزر جائے۔
حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ تمام عہدو پَیماں ہو
گئے اور سیِّدُنا وَہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی عرض کر دی کہ یا امامِ
عا لی مقام! اگر حُضُور تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی شفاعت سے مجھے جنّت ملی تو میں عرض کروںگا، یا رسولَ اللہ !
عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ بی بی میرے ساتھ رہے
۔ حُسینی دُولھا سیِّدُنا وَہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامِ عالی مقام رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے اجازت لے کر میدان میں چل دیئے۔ یہ دیکھ کر لشکرِ
اَعداء پر لرزہ طاری ہو گیا کہ گھوڑے پر ایک ما ہرُو شہسوار اَجَلِ ناگہانی
کیطرح لشکر کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے ہاتھ میں نیزہ ہے دَوش پر سِپَرہے اور
دل ہِلا دینے والی آواز کے ساتھ یہ رَجز پڑھتا آ رہا ہے۔ ؎
امیرُ الحُسَینُ وَ نِعمَ الْاَ مِیر
حضرتِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر ہیں اور بَہُت ہی اچّھے امیر
لَہ، لَمْعَۃٌ کَا لسِّرَاجِ الْمُنِیر
ان کی چمک دمک روشن چَراغ کی طرح ہے
برقِ خاطف (یعنی اچک لینے والی بجلی)کی طرح میدان میں پہنچے ، کوہ پیکر
گھوڑے پر سِپہ گری کے فُنُون دکھائے، صَفِ اَعداء سے مُبارِز طلب فرمایا ،
جو سامنے آیا تلوار سے اُس کا سر اڑایا ۔ گِردو پیش خُود سروں(یعنی سرکشوں)
کے سروں کا انبار لگا دیا۔ ناکسوں(یعنی نا اہلوں) کے تن خاک و خون میں
تڑپتے نظر آنے لگے۔ یکبار گی گھوڑے کی باگ مَوڑدی اور ماں کے پاس آ کر عرض
کی کہ اے مادرِ مُشفِقہ! تُو مجھ سے اب تو راضی ہوئی! اور دُلہن کے پاس
پہنچے جو بے قرار رو رہی تھی اور اس کو صَبر کی تلقین کی ۔اتنے میں اَعداء
(یعنی دشمنوں)کی طرف سے آواز آئی۔ ھَل مِنْ مُّبَارِز؟ یعنی کوئی ہے مقابلہ
پر آنے والا ؟ سیِّدُنا وَہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے پر سَوار ہو کر
میدان کیطرف روانہ ہوئے ۔ نئی دُلہن ٹکٹکی باندھے اُن کو جاتا دیکھ رہی ہے
اور آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہا رہی ہے۔
حُسینی دُولھا شَیرژِیاں کی طرح تیغِ آبدار و نیزہئ جاں شِکار لے کر معرکہئ
کا ر زار میں صاعِقہ وار آ پہنچا۔ اِس وقت میدان میںاَعداء کیطرف سے ایک
مشہور بہادر اور نامدار سَوار حَکَم بن طفیل جو غرورِ نَبرَد آزمائی میں
سَرشار تھا تکبُّر سے بَل کھاتا ہوا لپکا سیِّدُنا وَہب رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے ایک ہی حملے میں اس کو نیزہ پر اٹھا کر اس طرح زمین پر دے مارا کہ
ھڈیاں چِکنا چُور ہو گئیں اور دونوں لشکروں میں شور مچ گیا۔ اور مُبارِزوں
میں ہمّت مقابلہ نہ رہی۔
سیِّدُنا وَہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے قلبِ دشمن پر پہنچے ۔
جو مُبارِز سامنے آتا اس کو نیزہ کی نوک پر اٹھا کر خاک پر پٹخ دیتے ۔ یہاں
تک کہ نیزہ پارہ پارہ ہو گیا۔ تلوار میان سے نکالی اور تیغ زَنوں کی گردنیں
اُڑا کر خاک میں ملا دیں۔ جب اَعداء اس جنگ سے تنگ آ گئے تو عَمرو بن سعد
نے حکم دیا کہ سپاہی اس نوجوان کے گرد ہُجوم کر کے حملہ کریں اور ہر طرف سے
یکبارگی ٹوٹ پڑیںچُنانچِہ ایسا ہی کیا گیا۔ جب حُسینی دولھا زخموں سے چور
ہو کر زمین پر تشریف لائے تو سیاہ دِلانِ بد باطِن نے ان کا سر کاٹ کر
حُسینی لشکر کی طرف اُچھال دیا ۔ ماں اپنے لختِ جگر کے سر کو اپنے منہ سے
ملتی تھی اور کہتی تھی اے بیٹا، میرے بہادر بیٹا! اب تیری ماںتجھ سے راضی
ہوئی۔ پھر وہ سر اسکی دُلہن کی گود میں لا کر رکھ دیا۔ دُلہن نے ایک جُھر
جُھر ی لی اور اُسی وقت پروانہ کی طرف اُس شمع جمال پر قربان ہو گئی اور اس
کی روح حُسینی دولھا سے ہم آغوش ہوگئی۔
سُر خروئی اسے کہتے ہیں کہ راہِ حق میں
سر کے دینے میں ذرا تو نے تَأَمُّل نہ کیا
اَسکَنَکُمَا اللّٰہُ فَرَ ادِیْسَ الجِنَانِ وَ اَغرَقَکُم فِی بِحَارِ
الرَّحمَۃ ِوَالرِّضوَانِ۔(یعنی اللہ عزوجل آپ کو فردوس کے باغوں میں جگہ
عنایت فرمائے اور رحمت ورضوان کے دریاؤں میںغریق کرے۔)
(ملخص ازسوانحِ کربلاص١١٨تا ١٢٣شبیر برادرزمرکز الاولیاء لاہور)
محترم قارئین !دیکھا آپ نے اہلبیت اطہار کی محبت اور جذبہئ شہادت بھی کیسی
عظیم نعمتیں ہیں صرف سترہ دن کا دولہا میدان کارزار میں دشمنوں کے لشکر
جرار سے تن تنہا ٹکرا گیا اور جام شہادت نوش کرکے جنت کا حقدار ہو گیا۔
حسینی دولہا کی والدہئ محترمہ اور نو بیاہتادلہن پربھی کروڑوں سلام!کس قدر
بلند حوصلے کیساتھ ماں نے اپنے لال کو اور دلہن نے اپنے سہاگ کو امام عالی
مقام، امام عرش مقام،امامِ تشنہ کام،امامِ ھمام،سیّدالشھدائ،راکب ِدوش
مصطفی، بیکسِ کربلا امامِ حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں پر قربان ہوتے
دیکھا اللہ عزوجل ایسی بلندرتبہ خاتونان اسلام کے جذبہئ اسلامی کا کوئی ذرہ
ہماری ماؤں اور بہنوں کو بھی نصیب کر ے کہ وہ بھی اپنی اولاد کو دین اسلام
کی خاطر قربانیوں کیلئے پیش کریں،انہیں سنتوں کے سانچے میں ڈھالیں اور
عاشقان رسول کے ساتھ دین کی تبلیغ کے لئے مدنی قافلوں میں سفر پر آمادہ
کریں۔
سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو
لوٹنے رحمتیں قافلے میں چلو
ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو
دور ہوں آفتیں قافلے میں چلو
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |